’’ الطاف حسین مائنس ‘‘ فارمولا۔۔۔۔کچھ ماضی سے؟
(Dr M Abdullah Tabasum, )
کراچی کے سابق میئر مصطفی کمال دبئی میں
خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے اچانک افق سیاست پر اس طرح نمودار ہوئے کہ
پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں’’خبروں کی بہار‘‘ آگئی ،ہر طرف ’’بریکنگ
نیوز‘‘چل رہی تھیں اور چینلز ایک دوسرے کا مقابلہ کر رہے تھے ،وہ ڈھائی
گھنٹہ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی نے پریس کانفرنس کی ،پھوٹ پھوٹ کر
روئے اور ایم کیو ایم قائد پر ’’را‘‘ کا ایجنٹ ہونے،قتل وغارت گردی میں
ملوث ہونے کے الزامات لگائے ،ایم کیو ایم نے تمام الزامات مسترد کر دئیے
اور فاروق ستار کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ ’’مائنس الطاف‘‘فارمولا کی سازش ہے
،مصطفی کمال نے گزشتہ روز ایک اور اہم لیڈر ایم کیو ایم کے ایم پی اے اور
سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر صغیر احمد کو بھی شامل کیا اور پریس کانفرنس میں
بھی وہی الزامات تھے جو مصطفی کمال لگا چکا ہے ،کچھ لوگ الطاف حسین کو
پارٹی سے الگ کرنا چاہتے ہیں جہاں تک الطاف حسین پر الزامات کا تعلق ہے تو
اس سے زیادہ سنگین الزامات ماضی میں بھی لگائے جاچکے ہیں ،علیحدہ ملک
’’جناح پور‘‘بنانے کی بات بھی کی گئی اور کراچی ٹارچر سیل بھی ملے جہاں
مقتدر ادارہ کے افسر کو ٹارچر کر کے قتل کرنے کا الزام بھی تھا ،یہ بھی کہا
گیا کہ پارٹی کے چیئرمین عظیم طارق کو قتل کروایا گیا اور اب ڈاکٹر عمر
فاروق کے قتل کی تفتیش کی جارہی ہے ،جہاں تک ’’مائنس فارمولا‘‘ کی بات ہے
ایم کیو ایم ہی نہیں ماضی میں دوسری جماعتوں میں اس حوالے سے توڑ پھوڑ کی
گئی ،ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جب محترمہ بے نظیر بھٹو پارٹی کی قیادت کر
رہی تھیں تو مصطفی کھر نے ان سے ملاقات کرکے یہ پیغام دیا تھا کہ وہ اپنی
جگہ کسی مرد کو پارٹی کا سربراہ بنا دیں اور ورکرز کنونشن کر کے پارٹی میں
دراڑ ڈالنے کی کوشش کی ،مولانا کوثر نیازی نے پروگیسو پیپلز پارٹی بنائی ،اور
جب جنرل ضیاء الحق کو امریکہ دورہ کی دعوت دی گئی تو کہا گیا کہ وہ کوئی
سویلین وزیراعظم بنا لیں اور انہیں ساتھ لے کر چلیں ،اس سے بہتر اثرات مرتب
ہوں گئے ،اس وقت لاہور میں ملک محمد علی کی اقامت گاہ پر ورکزز کنونشن ہوا
جس میں غلام مصطفی جتوئی صدر اور پارٹی کا نام نیشنل پیپلز پارٹی رکھا گیا
،اس وقت وزیر اعظم جتوئی کی تقریب حلف برداری کی تاریخ کا بھی تعین کر دیا
گیا ،مخدوم حامد رضا گیلانی راوی ہیں کہ جتوئی کو باقاعدہ اس تاریخ سے آگاہ
بھی کر دیا گیا تھا ،ملک غلام مصطفی کھر کو جو لندن میں تھے وطن واپس پہنچ
گئے اور جناب حنیف رامے نے یہ دیکھ کر کہیں گاڑی نہ چھوٹ جائے مساوات پارٹی
کو این پی پی میں ضم کر دیا ،یہ ضرور ہوا کہ بھٹو صاحب کے چند قریبی سا تھی
پیپلز پارٹی چھوڑ گئے لیکن بے نظیر بھٹو کی ’’عوامی گرفت‘‘ کم نہ ہوئی ،مشرف
دور میں 2002ء کے انتخابات کے موقع پر جب محترمہ کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ
کہیں جنرل پرویز مشرف ان کی پارٹی رجسٹریشن مسترد نہ کر دے تو انہوں نے خود
’’پی پی پی پی ‘‘ بنائی اور اس وقت مخدوم امین فہیم اس کے صدر اور راجہ
پرویز اشرف سیکرٹری تھے اس وقت بھی پیپلز پارٹی کے منتخب قومی وصوبھائی
اسمبلی اور سینٹ کے ارکان اس پارٹی کی نمائندگی کرتے ہیں ،اور یہ کہ مخدم
امین فہیم کے انتقال کے بعد پی پی پی پی کے آصف علی زرداری سربراہ منتخب
ہوئے ،باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ
کرایا جائے گا اور 2018ء میں یہ پارٹی عام انتخابات میں حصہ لے گی ،مسلم
لیگ پہلے ہی ’’دھڑے بندی‘‘ میں دو چار رہی ہے مسلم لیگ قائداعظم صوبہ پنجاب
میں پانچ سال برسر اقتدار رہی مرکز میں ڈپٹی وزیراعظم کا عہدہ بھی ملا مگر
ان کا’’ووٹ بینک‘‘ اس طرح قائم نہیں رہ سکا جیسا کہ پیپلزپارٹی کا ،مسلم
لیگ (ن) اور ایم کیو ایم سے منسوب ہے ،مشرف دور میں مسلم لیگ (ن) میں بھی
پارٹی قائد کو مائنس کرنے کی سازش کی گئی اور میاں محمد نواز شریف پارٹی
صدرات سے ’’اسٹیپ ڈوان‘‘ہو جائیں تو معاملات طے کئے جا سکتے ہیں ،جدہ میں
میاں نواز شریف نے بتایا کہ جب کراچی میں ان کا ٹرائل ہو رہا تھا تو ان کے
قریبی ساتھی یہ تجویز لے کر ان کے پاس آئے تھے ۔مرحوم ضیاء الحق کے دور میں
حکومتی اشیر باد سے سیاسی جماعتوں میں انتشار پیدا کیا گیا ،جمعیت علماء
پاکستان خصوصا سندھ اور کراچی جیسے میں بڑی مضبوط پارٹی تھی ،جماعت اسلامی
کا کراچی میں میئر تھا ضیاء الحق نے ان دونوں جماعتوں پر کاری ضرب لگائی
مولانا شاہ احمد نورانی کے پاس اس وقت انٹیلی جنس چیف مسرور احسن کو پیغام
دے کر بھیجا گیا کہ ’’مولانا آپ ملک سے باہر چلے جائیں ورنہ آپ کی جماعت کو
دو حصوں میں تقسیم کر دیں گے‘‘اور وہی ہوا ،مولانا عبدالستار نیازی نے
مولانا نورانی سے بغاوت کر کے جمعیت کا الگ گروپ بنا لیا ،اسی زمانے میں یہ
کہا گیا کہ ایم کیو ایم کو بھی حکومتی سرپرستی حاصل تھی ،غوث علی شاہ جو اس
وقت سندھ کے وزیر اعلی تھے اس حوالے سے کئی رازوں کے امین ہیں ،الطاف حسین
کی دور میں بڑی دہشت تھی ،اس وقت ایم کیو ایم کو توڑنے کی کوشش کی گئی اور
حقیقی کے نام سے آفاق احمد اور ان کے ساتھیوں نے الگ ایم کیو ایم بنائی ،ان
کے درمیان مسلح تصادم بھی ہوئے ،آفاق احمد جیل بھی کاٹنی پڑی ،فاروق ستار
نے جس خدشے کا اظہار کیا ہے اس میں کتنی حقیقت ہے ۔۔۔؟کیا مصطفی کمال ایسا
قد آور لیڈر ہے جو الطاف حسین کا متبادل ہو سکتا ہے ۔۔۔۔؟ اس بارے میں پیش
گوئی قبل از وقت ہو گی ،ابھی تو یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس سارے کھیل تماشے
کا پس منظر کیا ہے ۔۔۔؟ عنقریب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے بھی کئی
’’مصطفی کمال‘‘ سامنے آنے والے ہیں ۔۔۔؟ ایسا کر کے کیا مقاصد حاصل کئے جا
سکتے ہیں۔۔۔؟ تاہم یہ ضرور ہوا ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم نے یکجہتی کے
نام پر مطاہرے شروع کر دئیے ہیں ،جس سے کراچی میں رینجرز اور پولیس نے امن
وامان قائم کرنے کی جو کوششیں کیں ہیں وہ متاثر ہو سکتی ہیں ،بعض سیاسی
قائدین کی طرف سے الطاف حسین پر اور ایم کیو ایم پر بھارتی ایجنٹ ،قتل
وغارت گری ،منی لانڈرنگ کے جو الزامات لگائے گے ہیں ان سے تحقیقات کرائی
جائیں اور ایسا کرنے کے لئے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے مگر وزیر داخلہ کا
کہنا ہے کہ مصطفی کمال ،انیس قائم خانی اور اب ڈاکٹر صغیر احمد کی پریس
کانفرنس زیادہ تر لفاظی ہے ان میں ثبوت دیں تو کاروائی کی جاسکتی ہے ،بیانات
اور الزامات سے سیاسی فضا مکدر ہوگئی ہے ،کسی چیز کی ایک حد ہوتی ہے ایم
کیو ایم ہی نہیں کسی اور سیاسی جماعت پر ایسے الزامات ہیں تو ان کی بھی
عدالتی تحقیقات کرائی جائیں تا کہ اصل حقائق عوام کے سامنے آسکیں ،اگر ان
کی آبیاری اچھی ’’جمہوری روایات قائم کر کے کی جاسکتی ہے ،کسی لیڈر کی چاہے
وہ کوئی بھی ہو اس کی کردار کشی زیب نہیں دیتی ،اور یہی جمہوری روایت ہے اس
کی اجازت دی جاسکتی ہے یہ تو وہ نظام ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن کو ایک
گاڑی کے دو پہیہ قرار دیا گیا ہے،اہم ترین بات جس دن گورنر سندھ عشرت
العباد سامنے آئیں گئے تو وہ کسی کے ساتھ نہیں بیٹھیں گئے بلکہ ان کے ساتھ
لوگ آ کر ملیں گئے اور اس دن الطاف حسین کی قیادت ختم ہو گی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
|