کیا نعروں ،مظاہروں ، بات چیت ،
مصلحتوں، مفاہمتوں، سودابازیوں سے آزادی مل سکتی ہے۔ اس آزادی پر ایٹم بم ،
میزائل، توپ، ٹینک، سینسرز پہرہ دار ہیں۔ اس کے باوجود قوموں نے اسے بہر
صورت حاصل کیا۔ قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ اس جدوجہد سے بھری پڑی ہے۔
جس کی کامیابی اور ناکامی کی وجوہات و اسباب بھی ظاہر کئے گئے ہیں۔ ہر کوئی
اپنے نتائج اخذ کر سکتا ہے۔ اس سب کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ جو لوگ مخلص اور
سنجیدہ تھے، ان کا انجام ان سے بالکل مختلف تھا جو اپنی خواہشات اور مفادات
کے غلام تھے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ جب تک لوگ سب سے پہلے اپنی غلامی سے آزاد
نہ ہوں گے، وہ کسی بھی دوسری آزادی کے حق دار نہیں ہو سکتے۔یہ نفس کی غلامی
ہزار غلامیوں کا طوق گردن میں ڈال دیتی ہے۔
کنہیا کمار اس جمہوریت کا سیاہ داغ ہے۔جس نے تحریر وتقریر کی آزادی کے
مختلف مفہوم اور معنیٰ اپنا رکھے ہیں۔ اس میں حقوق کی بھی من پسند تشریح کی
جاتی ہے۔ مذہبی آزادی کے مطالب شخصیات اور مقامات سے منسوب ہیں۔ یہ جمہوریت
ایک جگہ طاقت اور توپ گولی سے قائم رکھی جاتی ہے تو دوسری جگہ اسے برقرار
رکھنے میں زیادہ پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے۔
سرینگر میں اس کا ایک مطلب ہے اور دہلی میں دوسرا۔ گجرات میں یہ کچھ اور ہے
اور ناگالینڈ میں کچھ اور۔ یہی وجہ ہے کہ ماؤ اور نکسلی تحریکیں چل رہی ہیں۔
سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ یہ سب قیامت تک ختم نہ ہوں۔ کیوں کہ ان کے
ساتھ اب ان کی معاشی خود کفالت اور روزی روٹی جڑی ہے۔ ان تحریکوں کو کچلنے
کے لئے دفاعی بجٹ میں اضافہ ہوتا ہے۔گولہ بارود کی خریداری ہوتی ہے۔ جس میں
بڑے پیمانے پر کرپشن کی جاتی ہے۔ یہ سب جواز ہیں۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی یا جے این یو بھارت کی ٹاپ یونیورسٹیوں میں شمار
ہوتی ہے۔ یہاں بھی طلباء کی سیاست ہے۔ سبھی قومی سیاسی پارٹیوں کی یہاں
طلباء ونگز ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کی ونگ کنہیا کمار چلا رہے ہیں۔ اسی طرح
کانگریس ، بی جے پی کی بھی شاخیں ہیں۔ کنہیا کمار کو یونیورسٹی طلباء نے
گزشتہ سال صدرمنتخب کیا۔ اس پر ان کے سیاسی حریف میدان میں آگئے۔ جب 9فروری
کو کشمیری طلباء نے افضل گورو شہید کا یوم شہادت منایا۔ وہاں کنہیا کمار نے
بھی تقریر کی ، نعرے لگائے۔ جس پر اسے ملک سے غداری اور بغاوت کا مرتکب
قرار دیا گیا۔ اس کی گرفتاری عمل آئی۔ تشدد ہوا۔ عدالت نے اب اسے مشروط
ضمانت پر رہا کیا ہے۔ عالمی یوم خواتین پر بھی کنہیار کمار نے کشمیر کی
خواتین کا ذکر کیا۔ بھارتی فوج پرخواتین کی بے حرمتی کا الزام لگایا۔ لیکن
جس طرح آزادی کا مفہوم تبدیل ہو جاتا ہے ، اس بے حرمتی کا مطلب بھی بدل
جائے گا۔ اس کنہیا کمار کی زبان اور سر قلم کرنے کے لئے ہندو دہشگرد
تنظیموں نے انعامات کا اعلان کیا ہے۔ کیوں کہ اس نے آزادی اور حرمت کے حق
میں بات کی۔ جو دہشت گردی کر رہے ہیں۔ سر قلم اور تشددکرتے ہیں، ان کو اس
کی آزادی ہے۔ کنہیا کمار کو ان کی اس آزادی کو چھیننے پر مظالم کا نشانہ
بننا پڑ رہا ہے۔
کنہیا کمار کون ہے۔ ایک طالب علم رہنماء۔ بی جے پی، آر ایس ایس کی طلباء
ونگ کے لوگ جو مرضی کریں۔ یہ تعلیمی اداروں میں مسلم، عیسائی، سکھ، کمیونسٹ
طلباء کو تشدد سے ہلاک کر دیں۔ اقلیتوں کے خلاف نعرے لگائیں۔ کوئی بات نہیں۔
اگر کنہیا کمار آزادی کی بات کرے۔ تو اس پر غداری اور ملک سے بغاوت کا کیس
بنتا ہے۔ اسے جیل میں ڈالا جاتا ہے۔ اس پر بھری عدالت میں بی جے پی کے
وکلاء تشدد کرتے ہیں۔ لیکن انہیں اس کی مکمل آزادی ہے۔ کیوں کہ ان کا تعلق
حکمران پارٹی سے ہے۔ کنہیا کمار کا قصور یہ ہے کہ وہ ایک بہاری ہے۔ اس نے
کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی۔ آزادی کے نعرے لگائے۔ مگر یہ کشمیر کی
آزادی کے نعرے نہ تھے۔ برادر شجاعت بخاری کے بقول سرینگر اور دہلی میں
آزادی کے نعروں کے مفہوم مختلف ہیں۔
سرینگر اور دہلی میں نعرے ہی نہیں بلکہ رویئے، حقوق، جمہوریت سب الگ الگ
ہے۔ ایک بات کے کئی مطالب پیش کئے جاتے ہیں۔ سب کی اپنی اپنی تشریح اور
تعبیر ہوتی ہے۔ کنہیا کمار نے رہائی کے بعد جس انقلاب زندہ باد کی بات کی
یا جس کرانتی کاری کا تذکرہ کیا، اس کا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ یہ
آزادی وہ نہیں جو کشمیری مانگتے ہیں۔ یہ آزادی زات پات، چھوت چھات، نا
انصافی، سماجی نابرابری، امتیاز، مذہبی منافرت سے ہے۔ کشمیری بھارت سے
آزادی چاہتے ہیں۔ کنہیا کمار بھارت کے اندر آزادی چاہتا ہے۔ ارون دھتی رائے
کشمیر سے بھارت کو آزاد کرنا چاہتی ہیں۔ سب کے اپنے مفہوم ہیں۔ کیا یہ
آزادی ملے گی۔
انا ہزارے کی تحریک کرپشن کے خلاف تھی۔ وہ بہت معروف ہوئے۔ ان کو دنیا میں
شہرت ملی۔ لوک پال بل پارلیمنٹ میں داخل کر کے بھارت نے اناہزارے سے جان
چھڑا لی۔ لیکن اس کی باقیات کیجریوال کی شکل میں موجود رہی۔ جس نے اس ساری
تحریک کو ہائی جیک کر لیا۔ اس تحریک کے ثمرات ہندوستانی عوام کو نہ مل سکے۔
یہ کیجریوال اور ان کے گروہ نے اپنے کھاتے میں ڈال دیئے۔ عام تاثر یہی ہے۔
کنہیا کمار بہار کا ہونے کی وجہ سے، اور کمیونسٹ پس منظر کے باعث اس شہرت
پر شاید نہ پہنچ سکے۔ کیوں کہ بائیں بازو کو بھارت میں اہمیت نہیں۔ انہیں
جن سنگھی روس اور چین کے ایجنٹ سمجھتے ہیں۔ یہ بھی بھید باؤ اور چھوت چھات
کا مرض ہے۔ جو انہیں لا حق ہے۔
جو بھارت کشمیر کے حق میں اپنے طلباء کی تقریر کو برداشت کرنے پر تیار
نہیں، اس کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت، بات چیت، انصاف پسندی کی توقعات کیسے
وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ یہ بات چیت ، مذاکرات، وفود کا آنا جانا، متاثرہ
فریق کی مجبوری ہے۔ بھارت ٹال مٹول، وقت گزاری، راہ فرار اختیار کر رہا ہے۔
وہ کشمیر کے اندر انتشار، مظام سے مسلہ کا حل چاہتا ہے۔ اگر مسلہ کشمیر
بھارتی معیشت کو تباہ کر دے یا جدوجہد سے بھارتی گردن دبوچنے کی کوئی سبیل
نکلے، ایسا راستہ جس میں نقصان صرف بھارت کو پہنچے،تب ہی ان کے مائینڈ سیٹ
میں تبدیلی کا امکان پیدا ہو سکے گا۔ |