سہولت کار۔۔پولیس اہلکار۔۔؟

ملک میں بلاشبہ سیاسی سرپرستی میں ہونے والے جرائم کا خاتمہ ہوا ہے اور خاص طور پر کراچی میں خاتمہ رینجرز یعنی فوج نے کیا ہے پولیس کی کمانڈ اگر ایماندار اور پر عزم ہوتی تو یہ کام پولیس بخوبی کر سکتی تھی مگر نہ کر سکی اس لئے جولائی 2013ء میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے رینجرز کو میدان میں اتارا ،کراچی میں جرائم بڑھنے کا خدشہ اب اس لئے ہے کہ اہم عہدوں پر ’’مشکوک کردار‘‘ کے افسر لگا دئیے گئے ہیں ،قبلہ زرداری صاحب کی اقتدار پرستی اتنی قوی ہے کہ ایماندار پولیس افسروں کو نہ پسند کرتے ہیں اور نہ ہی اس پر اعتماد کرتے ہیں ،ورنہ اچھے افسروں کی کوئی کمی نہیں ہے ایک سے بڑھکر ایک ہے شاید دوسرے صوبوں سے زیادہ ،یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بیسویں صدی کا سب سے باکردار سیا ستدان پیدا کرنے والی دھرتی بانجھ ہو جائے اور وہاں سے دیانتدار اور باضمیر افراد پیدا ہونے بند ہو جائیں ،سپریم کورٹ میں ڈھول کا پول کھل گیا کراچی میں پولیس کی کارکردگی آشکار ہوگئی ،رینجرز نے پولیس کا کچاچھٹا کھول دیا ،سپریم کورٹ میں بدامنی کیس کی سماعت کے دوران رینجرز کی رپورٹ چشم کشا ثابت ہوئی جس میں انکشاف کیا گیا کہ پہلے سانحہ صفورا گوٹھ کے مرکزی ملزم پکڑے گئے سانحے سے قبل ہی مگر ناقص تفتیش آڑے آگئی آپریشن میں چھ ہزار ملزمان کو گرفتار کیا گیا لیکن اس میں سے سانحہ صفورا گوٹھ کے ملزم سمیت 1100خطرناک ملزمان کوپولیس نے رہا کردیا ،آئی جی اپنے موقف پر اڑے رہے کہ اور یہی راگ الاپتے رہے کہ کہ کراچی سے اغوا برائے تاوان کی واردتیں صفر ہو گئی ہیں ،عدالت نے سابق آئی جی کی سرزنش کی اور صاف صاف کہہ دیا کہ کراچی امن پولیس کی وجہ سے نہیں بلکہ رینجرز کی کاوشوں کی بدولت قائم ہوا ہے ،عدالت نے کہا کہ آپ سب کچھ جانتے ہیں کہ اس میں پولیس اہلکار ملوث ہیں اس لئے آپ خاموش ہیں ،یہ پولیس اہلکار لوگوں کو اٹھا کر تھانے لاتے ہیں اور پھر رقم لے کر انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے ،پولیس نے پرائیوٹ افراد پر مشتمل اپنی علحدہ سے فورس بنا رکھی ہے جو یہ واردتیں کر رہی ہے آئی جی نی اس ریمارکس کو غیر مناسب قرار دیا تو کہ عدالت نے کہاجو کارکردگی آپ کی ہے اس پر یہ ریمارکس درست ہیں ،سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی پر متعدد معاملات کی انکوائری اور سندھ ہائی کورٹ سمیت توئین عدالت کی کاروائی سپریم کورٹ میں ہے جس سے سندھ حکومت کو بھی پریشان کیا ہوا تھا اس پر اختیارات سے تجاوز ،جعلی بھرتیوں اور فنڈز میں خردبرد کے الزامات تھے ان کے جونیئر افسران نے ان کے خلاف رپورٹ جمع کرائی تھی جس پر عدالت عظمی نے ان کو ہٹانے کے احکامات دئے تھے ان کی جگہ پر اے ڈی خواجہ جو کہ اپنی دیانت داری اور قابلیت کی بناء پر پورے سندھ میں نامور ہیں ان کو نیا آئی جی سندھ مقرر کیا گیا ہے ان کے ساتھ ساتھ ایڈیشنل اائی جی ثناء اﷲ عباسی دیانت داری کے ساتھ ساتھ میرٹ پر کام کرنے کی بناء پر بہت ہی نیک نام ہیں اسی طرح ڈی آئی جی ڈاکٹر ولی اﷲ نیکی اور پارسائی میں اپنی مشال آپ ہیں ،ڈی آئی جی غلام نبی میمن انتہائی ایماندار اور باکردار افسر ہیں مگر آئی بی میں ہیں سندھ حکومت نے کبھی انہیں فیلڈ میں لگانے کی خواہش ظاہر نہیں کی ،ڈی آئی جی عبدالخالق شیخ ایمانداری اور پیشہ وارانہ قابلیت میں اعلی درجے کا افسر ہے مگر سندھ حکومت اسے چند ماہ سے زیادہ برداشت نہ کر سکی ،اسی طرح ڈی آئی جی امیر شیخ ،ڈی آئی جی مشتاق مہر ،سلطان خواجہ ،منیر شیخ ،اافتاب پٹھان،شرجیل کھرل،اور کئی نامور اور بہت اچھے پولیس افسر ہیں جن کا دامن مالی اوراور اخلاقی دونوں لھاط سے بے داغ ہو ،شاہد حیات اگر اپنی کچھ کمزرویوں پر قابو پالے تو وہ بہت اچھا اور موثر افس بن سکتا ہے ،ان لوگوں سے جونیئر رینک میں بھی بہت اچھے پولیس افسران ہیں جن میں سے جاوید اکبر ،عمر شاہد ،عرفان بلوچ،جاوید مہر ،تنویر ٹینو،پیر محمد شاہ اور ان جیسے کئی اچھے افسر ہیں ،بہت سے افسروں نے اندرون سندھ جرائم کو بہت اچھا کنٹرول کیا ہے ،سندھ میں ایک بھی اچھا افسر نہیں کیا ۔۔۔؟ مگر ان کو استعمال کرنے والوں میں نیک نیتی بھی تو ہو اب تک کراچی کو کیوں وارداتیوں کے سپرد کردیا گیا تھا،بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے سندھ کو کرپت اائی جی غلام حیدر جمالی سے نجات دلائی اور نیک نام پولیس افسر اے ڈی خواجہ کو نیا سندھ پولیس کا چیف مقرر کیا ہے جس سے اب پولیس میں ہائی لیول سے نیچے تک کئی پولیس افسرون کو ادھر سے ادھر کیا جائے گا،سابق آئی جی غلام حیدر جمالی نے جعلی بھرتیوں سے کئی سہولت کار پیدا کئے گئے جن کی عمر،اور فزیکل فٹنس کی مد میں کئی ’’بیماروں‘‘ کو بھی فٹ کر کے بھرتی کیا گیا جس کے ساتھ ساتھ کئی ڈی اائی جی اور ایس پیز بھی شامل ہیں ذاتی پسند اور ناپسند کے علاوہ پولیس کے فندز کو خردبرد کرنے کے لئے اے آئی جی فدا حسین نے بھی اپنا حصہ ڈالا ،اے ڈی خواجہ کا کہنا ہے کہ طاقت بہترین دلوں کو نشہ چڑھا دیتی ہے جیسے شراب بہترین دماغوں کو خراب کرتی ہے دینا میں کوئی ایسا اچھا انسان نہیں جسے لا محدود اختیارات دے دئے جائیں اور وہ بدمست نہ ہو لا محدود اختیارات اچھے سے اچھے اور خرد مند سے خرد مند انسان کا دماغ خراب کر دیتے ہیں، عہدہ امتحان ہوتا ہے آسائش نہیں اختیار عزت ضرور دیتا ہے مگر یہ بہت ہی مشکل آزمائش بنتا ہے کہ اﷲ اور عوام کے اعتماد و اعتبار کی امانت ہے اختیار عہدہ سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ہوتا ہے ذاتی جاہ و جلال ، مفاد کے لیے نہیں عہدہ تو جائے عجز و انکسار سے نہ کہ تکبر و افتخار سے ،عہدہ مشکل امتحان ہے جس میں کامیابی کے لیے اﷲ سے آہ و فغاں کے ساتھ دعا کی ضرورت ہوتی ہے شاہ دمانی و مسرت کی نہیں بعض شخصیات اور شاہکار ایسے ہوتے ہیں جن پرقمطرازی خاصا مشکل اور کٹھن کام ہوتا ہے یہ پاک سر زمین بہت زرخیز ہے اس دھرتی نے ایسے ایسے سپوتوں کو جنم دیا ہے کہ جو نہ صرف ستاروں پر کمند بلکہ تسخیر کائنات کی صلاحیت رکتھے ہیں عسکری شعبہ ہو یاسول ہمارے جرات مندوں اور جانبازوں نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں جس پر ملک اور پوری دنیا خراج تحسین پیش کرتی ہے۔۔۔یہ پاکستانی جن کی محنت،عزم اور حوصلے ،فولادی ارادوں کے مالک،ہمارے جفاکش ہر مشکل گھڑی میں سینہ چاک کرکے مقابلہ کرتے ہیں اس غیور قوم نے کبھی ملک کی بقاء اور سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا ہے ۔۔۔اور مادر وطن کے دفاع کے لیے ہر پاکستانی اپنی جان ہتھلیی پر لئے پھرتا ہے ملک کی ترقی اور خوشحالی میں جہاں دوسرے شعبے مصروف عمل ہیں وہاں پولیس فورس بھی شریک ہے اور یہ پولیس فورس کا ہی کمال ہے کہ آج پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے ماحول ساز گار اور مشالی ہے جس کی وجہ سے بڑی تعداد ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ۔پولیس سروس میں بے شمار افسران اپنے کارہائے نمایاں کی بدولت منفرد مقام رکھتے ہیں وہ جہاں بھی تعینات ہوئے صرف اور صرف اﷲ تعالی کی خشنودی حاصل کرنے اور اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے سرانجام دئیے کہ وہاں کے لوگوں نے ان کی ٹرانسفر کے بعد بھی ان کو یاد رکھا ان میں سے ایک پاکستان پولیس سروس کے ہیرو مجرموں کو ناکوں چنے چبوانے والا ،ہر پہلو سے بے داغ کردار کے حامل،کسی کی سفارش کو نہ ماننے والا ،جس کا سلوگن صرف اورصرف میرٹ ہے واﷲ رب العزت نے اپنے نا ئب اشرف المخلوقات حضرت انسان کو بے پناہ خوبیاں اور صلاحتیں ودیعت کی ہیں اب یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ اپنی صلاحتوں کاکیسے اظہار کرتا ہے اور انہیں کیسے استعمال کرتا ہے یہ اس کا وصف اور اوصاف کا امتحان ہوتا ہے انسان کو خود کو منوانے کے بے شمار مواقع ملتے ہیں جو لوگ اپنی بہترین صلاحتوں کا مظاہرہ کر کے ان مواقع سے استفادہ کرتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 24 Articles with 16139 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.