افغان امن مذاکرات...ٹیڑھی کھیر

پچھلے دنوں واشنگٹن میں پاک امریکااسٹرٹیجک مذاکرات کے چھٹے دورمیں جب سرتاج عزیز سے پوچھاگیاکہ افغانستان میں امن کے قیام اورطالبان کومذاکرات کی میزپرلانے کے سلسلے میں پاکستان کس حدتک طالبان پردبا ؤڈال سکتا ہے کہ وہ کابل سے امن مذاکرات کریں؟اس پرانہوں نے کہا:ان کی قیادت اوران کے خاندان یہاں کچھ طبی سہولیات حاصل کررہے ہیں،ہمارا ان پرکچھ اثرہے،اس لیے ہم انہیں مذاکرات کی میزپرلانے کیلئے زورڈال سکتے ہیں لیکن پاکستانی حکومت افغان حکومت کی جانب سے طالبان سے مذاکرات نہیں کرسکتی۔یہ افغان حکومت کافرض ہے کہ وہ آپس میں بات چیت کریں۔

تجزیہ نگاروں کی جانب سے سرتاج عزیزکاافغان طالبان کی پاکستان میں موجودگی کوایک کھلااعتراف تصورکیاجارہاہے جبکہ ماضی میں پاکستان اس بات کی تردیدکرتارہا ہے،سوائے افغانستان کی سرحد کے ساتھ واقع نیم خومختار قبائلی علاقوں کے علاوہ ان کے پاکستانی سر زمین پرکوئی ٹھکانے ہیں۔سرتاج عزیزکایہ بیان اس علاقے میں۲۰ماہ سے جاری فوجی آپریشن کے تناظر میں سامنے آیاہے،جس کے متعلق پاکستانی فوج کاکہنا ہے کہ اس نے ملک سے تمام عسکریت پسندوں کے مضبوط ٹھکانوں کاخاتمہ کردیاہے۔

یادرہے کہ پاکستان نے انتھک محنت اورکافی کوششوں کے بعدمری میں گزشتہ برس جولائی میں افغان طالبان کوامن مذاکرات کی میزپرلے آیاتھاجسے اس خطے میں امن کی جانب مثبت پیش قدمی قراردیاگیاتھالیکن بھارت کوہمیشہ سے یہ خطرہ لاحق ہے کہ افغانستان میں امن کی صورت میں یہ تمام مجاہدین بھارت کارخ کرسکتے ہیں،اس نے سازش کے تحت افغانستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ناقابل اعتبارکابل اسٹیبلشمنٹ کواستعمال کرتے ہوئے ملاعمرکی کراچی کے ایک ہسپتال میں انتقال کی خبرجاری کردی جس سے نہ صرف پاکستان کو شرمندگی کاسامناکرناپڑابلکہ طا لبان کی صفوں میں بھی انتشارپیداہوا جن میں سے کچھ نے تنظیم کی موجودہ قیادت پرمبینہ طورپرپاکستانی فوج کی ایماء پر تین سال سے چالاکی سے خبرچھپانے کاالزام لگایا۔اس بات کے اظہار کی دیگر کئی مثالیں ملتی ہیں کہ طالبان رہنما پاکستان میں کام کرتے رہے ہیں۔اس کی ایک اورواضح مثال ۲۰۱۳ء میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں حقانی نیٹ ورک کے رہنمانصیرالدین حقانی کی ہلاکت ہے۔یہ تاثر بھی بڑے پیمانے پرموجودہے کہ مری میں جولائی۲۰۱۵ء میں افغان حکام کے ساتھ امن مذاکرات کے پہلے دورمیں شرکت کرنے والے طالبان مندوبین بیرونِ ملک سے سفرکرکے نہیں آئے بلکہ پاکستان کے اندرسے ہی آئے تھے۔بہرحال سرتاج عزیزکایہ بیان اس سلسلے میں پاکستان کے انحراف کے حوالے سے کردارکو ختم کرنے میں مددگارثابت ہواہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ تمام ترکوششوں کے بعدبالآخرافغان مذاکرات کی ٹیڑھی کھیرکامسئلہ کچھ اس طرح حل ہوتاہوادکھائی دے رہاہے کہ مذاکرات کے درمیان فاصلوں اوررکاوٹوں کودورکرنے کیلئے بالآخرقطرسے مددلینے کافیصلہ کیاگیا کیونکہ قطرمیں امریکی اورافغان طالبان کے نمائندے موجودہیں۔ کیونکہ طالبان کاشروع دن سے یہ مؤقف ہے کہ امریکاکوافغانستان سے نکالنااشرف غنی کے بس کی بات نہیں لہنداامریکا سے براہِ راست بات کرناچاہتے ہیں،اس کے بعدچار فریقی مذاکرات میں شمولیت اختیارکریں گے۔اس حوالے سے پچھلے دنوں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے قطرکادورۂ ایسے موقع پرکیاجب کابل میں چہار فریقی ممالک کااجلاس ہورہاتھاجس میں ایک مرتبہ پھرطالبان کے کسی بھی گروہ یانمائندے نے شرکت نہیں کی ۔ادھرافغان حکومت نے طالبان اوردیگر مزاحمتی گروہوں سے مذاکرات کیلئے شمالی اتحادکے کے سربراہ یونس قانونی کوہٹاکر غیر جانبدار سابق جہادی رہنماء پیرسید احمد گیلانی کو مصالحتی کمیشن کا سربراہ اورکریم خلیلی کونائب امیرمقررکردیاہے۔
 
گزشتہ سال جنوری میں صلاح الدین ربانی کے وزیرخارجہ بننے کے بعدطالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے سفارتی کوششیں تیزہوگئیں ہیں۔افغان سفیرنے کہاکہ یہ تقرریاں خاصے مشوروں کے بعدکی گئی ہیں اورجن لوگوں کونئی ذمہ داریاں دی گئی ہیں ان کاافغانستان میں اہم کرداررہاہے اوروہ مؤثرطریقے سے امن کیلئے کام کرسکتے ہیں تاہم استادکریم خلیلی کو ایران کے ایماء پرشامل کیاگیاہے کیونکہ ایران اپنے مقاصدکیلئے اس سے لاتعلق نہیں رہناچاہتاجبکہ کریم خلیلی اورپیرسیدگیلانی کے طالبان کے ساتھ ساتھ حزبِ اسلامی کے سربراہ حکمت یار سے بھی اچھے تعلقات ہیں اوران تعلقات کو مذاکرات کاکامیاب کرنے کیلئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے،اسی لئے سابق جہادیوں کوزیادہ سے زیادہ موقع دیا جا رہا ہے ۔

دوسری جانب چیف ایگزیکٹوعبداللہ عبداللہ نے بین الاقوامی اورمقامی افغان قیادت سے اپیل کی ہے کہ افغانستان کےامن مذاکرات کیلئے صرف طالبان کے ساتھ مذاکرات اورحزبِ اسلامی کونظراندازکرناافغانستان کے حل کامسئلہ نہیں۔عبداللہ عبداللہ نے اس موقع پراس بات کااعتراف بھی کیا کہ روسی انخلاء کے بعد افغانوں کے ساتھ دھوکہ ہوااور افغان مجاہدین کے زخموں پرمرہم رکھنے میں ناکام رہے،مجھ سمیت تمام مجاہدین رہنماؤں سے لوگ گلہ رکھتے ہیں کہ ہمیں شدیددھوکہ دیاگیا ،ہمیں اسلام اوردوستی کے نام پرفریب دیاگیا،ہم شہداء کے گھرانوں سے معذرت خواہ ہیں،ہم نے شہداء کے خاندانوں کی کوئی خدمت نہیں کی اوریتیموں اوربیواؤں کی دادرسی نہیں کرسکے لہندااب تہہ دل سے طالبان اورحزبِ اسلامی سے اپیل ہے کہ وہ مذاکرات میں حصہ لیں اورجونقشہ مصالحتی کمیشن نے بنایاہے ،اس سے فائدہ اٹھائیں ۔اگرہم خودآپس میں بیٹھ کر مذاکرات کریں توہمیں دوسری دنیاکے لوگوں کے تعاون اورمذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی لہنداضروری ہے کہ ہم آپس میں بات کریں۔

دوسری جانب طالبان اورحزبِ اسلامی نے امریکاکی موجودگی میں مذاکرات سے پھرانکارکردیاہے ۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہدنے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ہمارایہ مطالبہ ہے کہ امریکاافغانستان سے مکمل انخلاء کیلئے ہمیں فوری ٹائم ٹیبل دے جس کی ضمانت چین اور پاکستان کودینی ہوگی کہ امریکا افغانستان سے پانچ مہینے کے بعدنکلے گایاایک سال کے بعدلیکن امریکاکو افغانستا ن سے بہرحال نکلناہوگا۔اس دوران آئین میں تبدیلی،حکومت میں شمولیت اوردیگرمسائل پربات ہوسکتی ہے لیکن غیرملکیوں کی موجودگی میں چاہے کوئی بھی ہو،بات ہوسکتی ہے نہ بات چیت کامیاب ہوسکتی ہے،اس لئے ہمارامطالبہ ہے امریکاکے ساتھ براہِ راست مذاکرات کی صورت میں ہی ہمیں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء ،طالبان پرسفری پابندیاں اوران کے سروں کی قیمت واپس کرنے کے حوالے سے امریکیوں کی رائے معلوم ہوسکے گی کیونکہ یہ معاملات افغان حکومت حل نہیں کرسکتی ہے اورنہ ہی اس کے پاس ایسا کوئی اختیارہے،افغان حکومت کوبھی یہ بات امریکیوں کوسمجھانی چاہئے۔

حزبِ اسلامی کے ترجمان انجینئرولی کاکہناہے کہ مذاکرات سے نہ توپہلے انکارکیاہے اورنہ ہی اب کریں گے ۔مصالحتی کمیشن میں جن لوگوں کوشامل کیاگیاہے،ان پرنہ توپہلے کبھی اعتراض تھااورنہ ہی اب ہے، ہمارا مؤقف واضح اور دو ٹوک ہے کہ امریکی کب جائیں گے؟اگرامریکاکل جانے کااعلان کرے تو یقین جانیں ،ایک ماہ سے کم وقت میں تمام افغان مسائل خودبخودحل ہوجائیں گے لیکن اگرامریکا۲۰۲۴ء تک بیٹھارہاتوپھر بھی مذاکرات نہیں ہوسکتے، امریکااور قابض افواج کے خلاف افغانوں کی جدوجہد جاری رہے گی۔ادھرامریکی دفترِ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اگر معاہدے کی کوشش ناکام اور طالبان بات چیت کیلئے رضا مند نہیں ہوتے تو ہمیں اور افغان فوج کو آنے والے مہینوں میں تشدد میں تیزی کے لیے تیار رہنا ہو گا۔امریکا افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ہے لیکن یہ بات چیت افغان حکومت کی قیادت میں ہونی چاہیے۔سرتاج عزیزنے برطانوی وزیرِ خارجہ کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں امید ظاہر کی ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے مفاہمتی عمل آئندہ چند روز میں شروع ہو جائے گالیکن افغان طالبان کو سمجھنا ہوگا کہ ان کی شرائط مذاکرات کے نتیجے میں توپوری ہوسکتی ہیں،ان سے پہلے نہیں۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390431 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.