الطاف بھائی سے الطاف صاحب تک
(Irfan Mustafa Sehrai, Lahore)
پاکستان کو بنے 68 سال کا عرصہ گزر چکا ہے،
عوام نے یہاں بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے، مشکلات برداشت کیں ،جان ومال
گنوایا،ہر طرح کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کیا،مگر عوام کے نام نہاد
ٹھیکے داروں نے ہمیشہ ان کے معصوم جذبات کا مذاق اُڑایا ہے ۔ان سب باتوں کے
با وجوداس قوم میں اتنی خداداد صلاحتیں موجود ہیں کہ کئی طوفانوں کے تھپیڑے
کھاکربھی محبّ وطن رہے،لیکن حکمرانوں کی ذاتی مفادات کی دوڑنے ہمیشہ انہیں
نا قابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔عوام نے جب بھی کسی سیاسی قائد پر اعتبار
کرتے ہوئے اقتدار پر بٹھایا کہ یہ ہمارے مسائل حل کرے گا،اس نے عوام کو
دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ہر دور میں بے یقینی کی دھند نے ہر شے کو لپیٹ
میں لئے رکھاہے، دیکھنے والی آنکھیں بھی دھندلا رہی ہیں اورمنظر بھی دھندلا
ہے ……،اﷲ بھلاکرے اندھا دھند چلنے والوں کا ،اندھا دھند زبان چلانے والوں
کااور اندھا دھند حکم دینے والوں کا کیا ہو گا،وہ ملک ،قوم کے ساتھ کیا
سلوک کریں گے……؟جو کچھ بھی کرگزرنے پر قادر نظر آتے ہیں۔
گزشتہ دنوں سابق میئر کراچی مصطفی کمال آناً فاناً دوبئی سے کراچی پہنچ کر
میڈیا پر چھاگئے۔اپنے سابق قائدتحریک الطاف حسین کو آڑے ہاتھوں لیا،کل تک
الطاف بھائی پکارتے جن کی زبان نہیں تھکتی تھی ،انہیں الطاف صاحب کہہ
کرمخاطب کرتے رہے، مصطفی کمال اور انیس قائم خانی دونوں ہی ایم کیو ایم کے
ایک اہم رہنما رہ چکے ہیں ،اس لئے اس تنظیم کے ہر پہلو کو بخوبی جانتے اور
پہچانتے ہیں۔وہ بہت سے انکشافات کر رہے ہیں،جیساکہ الطاف حسین عرصہ 20 سال
سے ’’را‘‘کے ایجنٹ کے طور پر پاکستان میں کام کر رہے ہیں،اپنے مفاد میں ایم
کیو ایم کے کارکنوں کو استعمال کیا جاتا ہے،جو انہیں مسیحا سمجھتے ہیں،
انہیں دہشت گرد ،قاتل اور مجرم بنا دیا گیاہے،اپنے مفاد میں ہزاروں لاشیں
بچھائی گئیں، لوگوں سے عطیات وصول کر کے دوسرے ممالک میں ذاتی پراپرٹی
بنائی گئی ، عسکری ونگ بناکربھتہ خوری ،ٹارگٹ کلنگ اوراغوا برائے تاوان
جیسے گھناؤنے جرم کروائے جاتے رہے ہیں۔شراب کے نشے میں دھت رہنے والا لیڈر
بغیر سوچے سمجھے ملک و قوم کو داؤ پر لگا رہا ہے۔ جب بھی کسی نے ان کے خلاف
آوازاٹھائی،اس کی آواز کو اسی وقت بند کر دیا گیا،جو ان کے مقابلے میں آیا
وہ دنیا سے گیا۔مصطفی کمال نے ڈاکٹرعمران فاروق کے قتل سے لے کرمنی لانڈرنگ
اور ’’را‘‘ کا ایجنٹ ہونے تک کی کہانی عوام کو بتا کر اپنے ضمیر کو مطمئن
کر لیا ہے، نئی سیاسی پارٹی کا اعلان اور منشور بھی بتا دیا ہے۔اگرچہ مصطفی
کمال نے جتنی باتیں بھی کی ہیں،ان سے اہلِ وطن ،سیاستدان،حکمران اور افواج
پاکستان پہلے سے واقف ہیں،لیکن فرق صرف یہ ہے کہ پہلی مرتبہ اس تنظیم کی
اندر کی کہانی خود اس کے ایک اہم رہنما کی زبانی سامنے آئی ہے۔ایم کیو ایم
کے کئی رہنماؤ ں نے دونوں باغی رہنماؤں کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی
تردیدکرنے کی ہر ممکن کوشش کی،ایم کیو ایم کے ایک اہم اور فعال رہنما فاروق
ستار نے شعر کے ایک مصرعے کا استعمال کیا ،جس میں کسی حد تک دھمکی بھی پائی
جاتی ہے۔ یہ مصرع کچھ اس طرح ہے……’’خاک ہوجاؤ گے،افسانوں میں ڈھل جاؤ گے،……تھوڑے
سے اضافے کے ساتھ شاید وہ کہنا یہ چاہتے تھے:
خاک ہو جاؤ گے،افسانوں میں ڈھل جاؤ گے
متحدہ سے ہوئے الگ تو عمران فاروق بن جاؤ گے
سابق مئیرکراچی مصطفی کمال کے انکشافات ،ہمارے حکمران طبقے،افواج پاکستان،
دیگر ایجنسیوں اور قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے،ہم میں سے لاکھوں لوگ ایسے
لیڈر کی نہ صرف پیروی کرتے ہیں ،بلکہ اس کے ایک اشارے پر جان و مال اور سب
کچھ نچھاور کرنے میں بھی دریغ نہیں کرتے ،جبکہ وہ ہمارے دریرینہ دشمن بھارت
کی خفیہ ایجنسی کے لئے کام بھی کر رہا ہو۔ہمارے لئے اس سے زیادہ اورکیا
خطرناک بات ہو سکتی ہے،لیکن اس سے بڑھ کر فکر انگیز بات یہ ہے کہ یہ تمام
تر معلومات نئی نہیں ہیں، ہمارے فوجی ادارے ہوں یا جمہوری حکمران ،تمام
حقائق سے بخوبی آگاہ تھے،حیران کن بات یہ بھی ہے،کہ سب کچھ جاننے کے باوجود،
وہ کیسے ان کے ساتھ بیٹھ کر نہ صرف ملکی معاملات شیئر کرتے رہے،بلکہ حساس
معاملات پر ان سے مشاورت بھی کی جاتی رہی ہے۔اگرالطاف حسین ناراض ہو جاتے
تو حکمرانوں کی جان پر بن جاتی تھی ، اقتدار کے ان بھوکوں کو نہ ملک کی بقا
ء عزیزہے اور نہ ہی قوم کی سلامتی سے غرض ،انہیں صرف اپنے اقتدار کی فکر
ہے،جس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے ۔ملک میں جتنا بھی
ظلم وزیادتی ہوجائے، انہوں نے آنکھیں اور کان بند کر لینے ہیں،مگر جب اپنے
لئے سیاسی مفادات حاصل کرنے کی بات ہو، تو معمولی بات پر شور و غل کے ساتھ
ساتھ احتجاج بھی شروع کر دیا جاتا ہے۔اس میں چاہے ملک وقوم کا کتنا بڑا
نقصان کیوں نہ ہو ۔حقیقت بہت تلخ ہے ، ملک و قوم کے مفاد میں کسی معتبر
ادارے نے درددل سے نہیں سوچا ، اگر سوچا ہوتا تو آج ’’را‘‘کے ایجنٹ سیاسی
پارٹیوں کے لیڈر نہ ہوتے ، مختلف محکموں کی چھوٹی بڑی سیٹوں پر تعینات لوگ
مختلف بیرونی ایجنڈوں پر کام نہ کر رہے ہوتے ۔
پاکستان کلمہ حق پر قائم ہوا ہے ،یہی ایک وجہ ہے کہ یہ ملک قائم ہے،ورنہ
ہمارے نام نہاد لیڈروں نے اسے ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ،ان کا
مقصدِ حیات صرف لوٹ مار کرنا ہے،ان کا بس چلے تواس ملک کو قوم سمیت اُونے
پونے بیچ کر خاموشی سے وہاں چلے جائیں ،جہاں انہوں نے لوٹ مار کے سرمائے سے
پراپرٹی بنائی ہے اوراپنے کاروبار سیٹ کرلیے ہیں۔کیا دنیا کے کسی دوسرے ملک
میں ایساسوچا بھی جا سکتا ہے کہ ملک کا وزیر داخلہ ملک دشمنی کی معلومات سے
واقف ہو ،پھر وہ اس لیڈر سے دوستی کا ہاتھ ملائے اور حلیم ،بریانی کی
دعوتیں اُڑاتا پھرے، یہ سب ایک ہی تا لاب کے نہائے ہوئے لوگ ہیں، جو مغرب
کے نظریے اور مقاصد کی ترویج کے لئے اُن کے آلہ کار بن کر اپنے اقتدار کو
طو ل دیتے ہیں۔
ہمارے ملک میں تبدیلی کے لئے انقلابی سوچ لانا ہو گی، لیکن اس کے لئے ایسی
لیڈر شپ کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے پاس کوئی فکری اساس ہو، قوموں میں جتنے
بھی قابلِ ذکر یا تاریخی انقلابات رونما ہوئے وہ سب ان قائدین کے مرہونِ
منت تھے ،جن کی فکری اساس گہری تھی، ماؤزے تنگ ،چواین لائی ،قائداعظم
ؒ،علامہ محمد اقبالؒ،مہاتیر محمد ان تمام لیڈروں کی فکری اساس نہایت مستحکم
تھی ۔ہمیں فکری ، سماجی یا سیاسی انقلابی سوچ کے لئے بحیثیت قوم جرأت
مندانہ اور دانش مندانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔آج بھی ہم جاگیردارانہ سوچ
، جہالت اور قدیم رسومات کے سائے میں پل رہے ہیں۔ہمیں ان فرسودہ روایات سے
نکلنا ہو گا،کیا پاکستان کا کوئی بھی شہر یا قصبہ ایسا ہے جہاں با اثر
لوگوں اور مافیا کا راج نہ ہو ،اس ملک میں قانون کا جس قدر مذاق اڑایا جاتا
ہے ،اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔
ہم اپنے اعلیٰ معاشرتی معیار،روایات اور نظریات کو متاعِ گم گشتہ بنا چکے
ہیں ،حالانکہ ہم اسلام کے نام پر قائم قابلِ فخر مملکت کے وارث ہیں،جس کے
لئے ہمارے آباؤ اجداد نے بے شمارقربانیاں دی تھیں۔یہ وہ مملکت خدادادہے، جس
نے ہماری تمام تر غلطیوں کے باوجود ہمیں اپنے دامن میں پناہ دے رکھی ہے،اب
اس کا قرض اتارنے کا وقت ہے،ہمیں ایک صف میں کھڑے ہو کر اس کی سلامتی کے
لئے اپنے اندر سے تمام تر غلاظت کو باہر پھینکناہو گا ،ملک ،قوم کے مجرموں
پر رحم کرنے کی بجائے سخت سزا ئیں دینا ہوں گی ، اس احتسابی عمل میں بلا
امتیاز مفادات کی ہر دیوار کو پھلانگنا ہوگا۔ہمیں عہد کرنا ہو گا کہ ہم اُس
وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ،جب تک ان ناسوروں کوان کی غداری کی سزا نہ
مل جائے،تاکہ آنے والی نسلیں ان کے ہاتھوں دہشت گرد،قاتل اور مجرم نہ بنیں
،پھر کوئی قائدتحریک یا بھائی بن کرعوام کے معصوم جذبات سے نہ کھیل سکے،یہ
مشکل ضرور ہے،مگر ناممکن نہیں،مصطفی کمال نے کمال دلیری سے الطاف بھائی کی
دیوار کو گرا کراورنتائج کی پرواہ کئے بغیر الطاف صاحب کا لفظ استعمال کیا
ہے،یہ بظاہرچھو ٹی سی بات اس ملک میں انقلاب کی بنیاد بن سکتا ہے ،یہی وہ
تبدیلی ہے،جو آگے چل کرپہلے کراچی اور پھر سارے ملک کو قابض اورنام نہاد
لیڈروں کے قبضے سے نجات دلائے گی۔ |
|