پل تعمیر کرنے کے بجائے دیواریں لگانا ان
کا مشن بن رہا ہے۔یہ قوموں کے درمیان دیواریں کھڑی کر کے حکمران بننا چاہتے
ہیں۔آج دہلی سے واشنگٹن تک اسی سوچ کے حامل لوگ قابض ہو رہے ہیں۔بند راستوں
کو کھولنے، شاہرائیں تعمیر کرنے کے حامی ترقی اورامن چاہتے ہیں۔دیوار برلن
، تاربندی ،سر حدوں کو بند کرنے والے جنگ اور تشدد کو فروغ دیتے ہیں۔
تارکین وطن کی سرزمین سے اگر تارکین کو نکال دیاجائے تو اس کا اپنا وجود ہی
مٹ جائے گا۔ امریکہ اسی راہ پر گامزن ہے۔ ری پبلک پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ
ٹرمپ کیانتخابی مہم جاری ے۔ وہ خود اپنے وجود کو مٹانے کے درپے ہیں۔ گو کہ
وہ کئی ریاستوں میں اپنی پارٹی کے امیدواروں سے آگے ہیں، مگر ابھی تک وہ
پارٹی امیدوار کے طور پر نامزدگی سے بہت دور ہیں۔ ٹرمپ کو ری پبلکن امیدوار
نامزد ہونے کے لئے 1237مندوبین کی حمایت درکار ہو گی۔ری پبلکن مندوبین
جولائی کنونشن میں اپنا فیصلہ سنائیں گے۔ جسے ٹرمپ قبول کرنے سے آج ہی
انکار کر رہے ہیں۔ وہ ریاستوں میں اپنی کامیابی پر انحصار کر رہے ہیں۔ ان
کے مدمقابل ری پبلکن امیدوارسینیٹرکروز، کسیک اور روبیو تھے۔ٹرمپ کو اب تک
316، کروز کو 226مندوبین کی حمایت حاصل ہو سکی ہے۔ روبیوکو ٹرمپ کامضبوط
حریف سمجھا جاتا تھا۔ یہ خیال تھا کہ وہی ٹرمپ کا راستہ روک سکتے ہیں۔ لیکن
وہ اپنی ریاست میں کامیاب نہ ہو سکے اور دلبرداشتہ ہو کر صدارتی دوڑ سے نکل
گئے ہیں۔ اوہائیو ریاست میں کامیابی نے کسیک کے حوصلے بلند کر دیئے ہیں اور
وہ آخری دم تک ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔
امریکہ میں انتخابات کے لئے وفاق کے اپنے قوانین ہیں۔ تمام امیدواروں کو
انتخابی مہم کے اخراجات کے متعلق فیڈرل الیکشن کمیٹی کو جانکاری دیناہوتی
ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کون کہاں اخراجات کر رہا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ ارب
پتی ہے۔ قانونی طور پر ڈونرز کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ انتخابی مہم کے لئے
ایک صدارتی امیدوار پر زیادہ سے زیادہ 2700ڈالرز خرچ کر سکتے ہیں۔
ہیلری کلنٹن کی مہم کے لئے تقریباً14کروڑ ڈالرز ڈونیشن جمع ہوئی ہے۔ ان کے
ڈونرز میں بڑے کمرشل بینک، سرمایہ کار صنعتیں، اور وکلاء ، لاء فرمیں شامل
ہیں۔ برنی سینڈرز نے بھی وال سٹریٹ کے سیاست پر اثر کے خلاف موقف اختیار
کیا ہے۔ برنی سینڈرز کے لئے تقریباً10کروڑ ڈالر جمع ہوئے ہیں۔ ان کے چھوٹے
ڈونرز ہیں۔ امریکی نرسوں کی سب سے بڑی تنظیم بھی ان کو دونیشن دے رہی ہے۔
ایک دوا ساز کمپنی کی ڈونیشن سینڈرز نے واپس کر دی۔ اس نے اپنی ادویات کی
قیمتوں میں بہت اضافہ کر دیا تھا۔ اسی طرح ٹیڈ کروز کو تقریباً6کروڑ ڈالرز
ڈونیشن ملی ہے۔ انہیں ڈونیشن کی زیادہ تر رقومات اپنی آبائی ریاست ٹیکساس
سے حاصل ہوئی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو تقریباً اڑھائی کروڑ ڈونیشن ملی ہے۔ ہیلتھ
اور ریئل اسٹیٹ پروفیشنل ان کے ڈونر ہیں۔ جان کسیک نے تقریباً87لاکھ ڈالر
جمع کئے ہیں۔ وہ اوہائیو کے گورنر، 9بار رکن کانگریس، انوسٹ منٹ بینکر،
فوکس نیوز کومنٹیٹر رہے ہیں۔ ساڑھے تین کروڈ ڈالر رقم جمع ہونے پر مارکو
روبیو نے انتخابی مہم چلائی۔ لیکن اپنی آبائی ریاست فلوریڈا سے ناکام ہونے
پر مہم ختم کر دی۔ ری پبلکن کے اب تین امیدوار ٹرمپ، کسیک اور ٹیڈ کروز
میدان میں ہیں۔ ریٹائرڈ لوگ بڑے پیمانے پر ڈونیشن دے رہے ہیں۔ ان کی سب سے
زیادہ ڈونیشن ڈیموکریٹ ہیلری کلنٹن ، بین کارسن اور ری پبلکن ٹیڈ کروز کو
ملی ہیں۔
دونوں پارٹیوں کے اب تک مضبوط امیدوار وں ہیلری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ کا
تعلق نیو یارک سے ہے۔ سینڈرز ورمونٹ، کروز ٹیکساس اور کسیک کا تعلق اوہائیو
سے ہے۔ تا ہم ان سب میں مقابلہ آرائی کلنٹن اور ٹرمپ میں ہونے کے امکانات
ظاہر ہو رہے ہیں۔ ایک طرف شیکاگو کی کلنٹن سابق خاتو ن اول، سابق وزیر
خارجہ، اپنی ارکنساس لاء فرم کی پہلی خاتون شراکت دارہیں۔ دوسری طرف کوئینز
نیو یارک کے ٹرمپ رئیل اسٹیٹ کے ٹائیکون ، سابق رئیلٹی ٹی وی سٹار ہیں۔
کلنٹن کی حمایت خاتون ڈیموکریٹس اور اقلیتیں کرتی ہیں۔ ٹرمپ کی حمایت
کنزرویٹوم سفید فام ورکنگ اور مڈل کلاس لوگ ہیں۔ٹرمپ میکسیکو سرحد پر دیوار
بندی، لاکھوں غیر قانونی امیگرنٹس کو امریکہ سے نکالنے، چین کو چیلنج کرنے
امریکہ کو گریٹ بنانے کے دعویدار ہیں۔ کلنٹن وال سٹریٹ کی اصلاحات، گن لاز
کو سخت کرنے، یونیورسٹی سکالرشپ پھیلانے،غیر قانونی امیگرنٹس کی شہریت آسان
بنانے کے لئے اصلاحات چاہتی ہیں۔
زیادہ ترری پبلکن بھی ٹرمپ کا بظاہر راستہ روکنے کا عندیہ دیتے ہیں۔ کیوں
کہ وہ نسل پرست ہیں۔ امیگرنٹس کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کا امریکہ
میں داخلہ بند کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی فوج کو افغانستان میں رکھنے کی وکالت
کرتے ہیں۔ جس کا مقصد یہ کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کنٹرول کیا جا سکے۔
پاکستانی ایٹمی پروگرام پر نظر رکھنے کے لئے بھارت کو بڑا کردار دینے کے
اپنے موقف کو درست قرار دیتے ہیں۔
افغانستان کو امریکہ کا مستقل فوجی اڈہ بنانے کی مہم چلا کت ڈونالد ٹرمپ
مسلم دشمن لابی کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ اس لابی کی سرپرستی اسرائیل کرتا ہے۔
ٹرمپ اسرائیل کی سر پرستی میں کام کر رہے ہیں۔ تارکی وطن کی مخالفت اس کے
باوجود کرنا چاہتے ہیں کہ وہ خود امیگرنٹ ہیں۔ ان کے دادا جرمنی سے امریکہ
آئے تھے۔ یہ سوال بھی ہو رہے ہیں کہ اگر وہ جرمنی میں ہوتے تو انہیں جرمن
چانسلر بننے کے لئے انتخابی مہم چلانے کا موقع میسر آتا۔ ری پبلکن بھی اسی
وجہ سے ان کے خلاف ہیں۔ یہاں تک کے ری پبلکن کے سابق صدارتی نامز امیدوار
میٹ رومنی نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ ٹرمپ کی نامزدگی امریکہ کے
محفوظ اور خوشحال مستقبل کے امکانات کو بری طرح سے ختم کر دے گی۔ اس لئے ری
پبلکن ان کو نامز د نہ کریں۔ کیوں کہ وہ ایک فراڈ ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہو گا
کہ ری پبلکن جولائی کو ہونے والے کنونشن میں ٹرمپ کی قسمت کا کیا فیصلہ
کرتے ہیں۔ کیوں کہ اب سارا دارو مدار اسی کنونشن پر ہو گا کہ ری پبلکن
مندوب کسے پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار کے طور پر نامزد کریں گے۔
ٹرمپ کو امریکی مستقبل کے لئے خطرہ ہی نہیں بلکہ اسے امریکی کمانڈر انچیف
کے طور پر انفٹ قرار دیا جارہا ہے۔ یہ رائے سیکورٹی ماہرین کی ہے۔ جن میں
سابق ہوم لینڈ سیکورٹی سیکریٹری مائیکل چرٹوف اور تقریباً ایک سو دیگر شامل
ہیں۔ ٹرمپ کی مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلانے اور تجارتی جنگوں کی مہم پر
بھی امن پسند امریکیوں کو تشویش لا حق ہے۔ کیوں کہ وہ دیواروں کے بجائے پل
، شاہرائیں تعمیر کرنے کے حامی ہیں۔ سرحدیں بند کرنے، دیواریں لگا کر قوموں
اور علاقوں کو تقسیم کرنے والے کسی بھی طور پر امن اور ترقی کا راستہ روکنے
کی کوشش کرتے ہیں۔ باشعور اور خوشحال مستقبل کے متمنی امریکی ترقی کا راستہ
روکنے والوں کے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہوئے تو امریکہ کا مستقبل تابناک بنانے کا
خواب ادھورا رہ سکتا ہے۔
|