ڈونلڈ ٹرمپ کے نام کھلا خط

امریکا کے عہدہ صدارت کے متمنی
جناب ڈونلڈ ٹرمپ!
میں آپ کو یہ خط ایک صحافی کی حیثیت سے نہیں، بلکہ مسلم دنیا کے ایک عام مسلمان باشندے کی حیثیت سے لکھ رہا ہوں۔
محترم! رواں سال نومبر میں امریکا میں صدارتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں، جس میں آپ صدارتی امیدوار کے طور پر منتخب ہونے کی بھرپور تگ و دو میں مصروف ہیں۔ وائٹ ہاﺅس کا بادشاہ بننے کی دوڑ میں اترنے کے لیے آپ نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز ”دشمن“ کے خلاف ”جنگ“ کے عنوان سے کیا اور اسلام و مسلمانوں پر تابڑ توڑ ”حملے“ کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اسلام، مسلمان اور عالم اسلام آپ کے نشانے پر ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاس اسلام، مسلمان اور عالم اسلام کی مخالفت کے سوا کوئی موضوع ہی نہیں ہے۔ آئے روز آپ کے اسلام مخالف بیانات میڈیا کی ”زینت“ بنتے رہتے ہیں، جن کو پڑھ کر لگتا ہے کہ امریکا سمیت دنیا بھر میں موجود ہر برائی کے پیچھے کسی نہ کسی صورت میں مسلمانوں کا ہاتھ ہے۔ آپ نے مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی کا مطالبہ کیا۔ صدر بننے کے بعد امریکا میں موجود تمام مساجد کو بند کرنے کے احکامات جاری کرنے کا عندیہ دیا۔ مساجد اور مسلمانوں کی نگرانی اور مسلمانوں کے رجسٹریشن ڈیٹابیس کا بھی مطالبہ کیا اور اب آپ نے کہا ہے کہ ” اسلام امریکا سے نفرت کرتا ہے اور عالمِ اسلام کی اکثریت امریکا سے سخت نفرت کرتی ہے۔“

جناب ڈونلڈ ٹرمپ! اسلام کسی سے نفرت کرنا نہیں سکھاتا، بلکہ دنیا بھر کے تمام مذاہب کے لیے اسلام کا پیغام محبت ہے۔ اسلام کے ماننے والوں کے لیے کوئی بھی ملک نفرت کا معیار نہیں ہے اور یہی معاملہ امریکا کے بارے میں ہے۔ اگر کچھ مسلم ممالک میں امریکا کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے تو وہ مذہب کی بنیاد پر نہیں ہے، بلکہ امریکا کی پالیسیوں سے ہے۔ اگر امریکی پالسیاں مسلم دنیا کے لیے خونریز ثابت ہوں تو اس کے نتیجے میں نفرت کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ مسلم ممالک کے حوالے سے آپ کے ملک امریکا کی پالیسیاں انتہائی تباہ کن اور نفرت انگیز ہیں۔ گزشتہ صرف ایک سال کے دوران امریکا نے مسلم دنیا پر 23 ہزار بم برسائے ہیں۔ تھنک ٹینک کونسل آف فارن ریلیشنز (سی ایف آر) کے سینئر فیلو میکا زینکو کے مطابق: ”یکم جنوری 2015ءسے سال کے آخر تک امریکا نے عراق، شام، افغانستان، یمن، صومالیہ اور پاکستان پر 23 ہزار سے زیادہ بم برسائے اور یہ سب مسلم اکثریتی ممالک ہیں۔“ مسلم دنیا میں خونریزی کر کے اپنے خلاف نفرت کے بیج بونے کا یہ تو صرف ایک سال کا احوال ہے، جب کہ متعدد ممالک ایک عرصے سے امریکی جارحیت کا شکار ہیں اور گزشتہ دو عشروں میں بلامبالغہ امریکا نے مسلم دنیا پر لاکھوں بم برسائے ہوں گے۔

جناب! یہ حقیقت سامنے رکھیے کہ صدام حسین کے پاس ایٹمی اور کیمیاوی اسلحے کی موجودگی کے مفروضے پر آپ کے ملک امریکا نے عراق پر یلغار کر کے اسے راکھ کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ امریکا نے درجنوں ممالک کے گٹھ جوڑ سے افغانستان پر حملہ کر کے لاکھوں بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور پورے ملک کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ اپنے مفادات کے لیے شام کو جہنم بنا دیا ہے۔ شام کی بربادی کے لیے اسلحہ و پیسہ دے کر داعش ایسے گروہوں کو وجود بخشا، جو آج تک شام و عراق کو تباہ کرنے میں مشغول ہیں۔ پاکستان انتہائی پرامن ملک تھا، امریکا نے یہاں ڈرون حملے کر کے ہزاروں بے گناہوں کی جانیں لیں، جس کے نتیجے میں ملک دہشتگردی کی لپیٹ میں آگیا اور اب تک آپ کے ملک کی جنگ میں ساٹھ ہزار پاکستانی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک بدامنی کا شکار کوئی بھی مسلم ملک ایسا نہیں، جہاں بدامنی پھیلانے میں امریکا کا ہاتھ نہ ہو۔ ان کے علاوہ فلسطین، کشمیر، برما، چیچنیا اور بوسنیا سمیت کئی جگہوں پر مسلمان ایک عرصے سے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، لیکن امریکا نے یہاں مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دینے کے بجائے اپنے مفادات کی خاطر ظالموں کا ساتھ دیا ہے۔ یہ حقائق ثابت کرتے ہیں کہ خود آپ کا ملک امریکا مسلم دنیا کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔ اگر اس کے بعد مسلم دنیا میں آپ کے ملک کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے تو وہ بلاوجہ نہیں ہے، بلکہ اس کی وجہ مسلم دنیا کے حوالے سے امریکا کی غلط اور ظالمانہ پالیسیاں ہیں۔ اگر امریکا کسی بھی مسلمان ملک میں بمباری کر کے بے گناہوں کی جان لتا ہے تو اس کے نتیجے میں امریکا کے خلاف نفرت کا پیدا ہونا انسانی فطرت ہے، جس سے پالیسیاں تبدیل کر کے ہی نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔

جناب! آپ کا دعویٰ ہے کہ دہشت گردی میں ملوث افراد اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر عام شہریوں کا قتل عام کرتے ہیں، لیکن حقائق یہ بتلاتے ہیں کہ اسلام کے نام پر کی جانے والی زیادہ تر دہشتگردی میں داعش جیسے گروہ ہی ملوث ہیں، جن کو بنانے کا اعتراف خود امریکا کے ذمے دار لوگ کر چکے ہیں۔ دنیا میں دہشت گردی کو صرف مسلمانوں سے جوڑنا بالکل لغو ہے، کیونکہ دنیا میں زیادہ تر دہشتگردی میں مسلمان ملوث ہی نہیں ہیں، بلکہ دیگر لوگ ملوث ہیں۔ خود امریکا اور یورپ میں ہونے والی دہشتگردی کے 98 فیصد واقعات میں مسلمان ملوث نہیں ہوتے۔ دہشتگردی کا اسلام سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔ اسلام نے کبھی کسی کا ناحق خون کرنے کی ترغیب نہیں دی ہے۔ اسلام ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے۔ اسلام امن کا مذہب ہے اور ہمیشہ قیام امن کی ہی بات کرتا ہے، اسی لیے مسلمان علما، دانشور اور مسلمانوں کے نمایندے بارہا صراحت کے ساتھ یہ کہہ چکے ہیں کہ بے گناہ لوگوں کا خون بہانے والے عسکریت پسند گروہ کسی بھی طور پر مسلمانوں کے نمایندہ نہیں ہیں۔ جرم چاہے کسی بھی مذہب کا انسان کرے، وہ جرم ہی رہتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جرائم کرنے والوں کو ان کے مذہب سے نہیں، بلکہ ان کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے۔ غیر مسلم شہریوں کی کیتھولک یا پروٹسٹنٹ عیسائی، ہندو، یہودی، بدھسٹ یا دہریت کے حوالے سے شناخت نہیں کی جاتی، لیکن اگر کوئی شخص اسلام کے نام پر جرم کرتا ہے تو اس کو اسلام کی شناخت بنا دیا جاتا ہے، جو سراسر ناانصافی ہے۔ جس طرح کسی بھی جرم کا تعلق کسی مذہب سے نہیں، اس طرح دہشت گردی کو بھی قطعاً اسلام کے ساتھ نتھی نہیں کیا جانا چاہیے۔

جناب! دنیا کے ایک طاقتور ملک میں عہدہ صدارت کے متمنی کی حیثیت سے آپ کو چاہیے تھا کہ دنیا میں قیام امن کی بات کرتے اور مسلم دنیا میں بدامنی و دہشتگردی کی اس آگ کو بجھانے کی کوشش کرتے جو خود آپ کے ملک نے لگائی ہے، لیکن آپ نے تو اپنی توپوں کا رخ مسلمانوں کی طرف کر کے اسلام اور مسلم دنیا کے خلاف ہی گولہ باری شروع کردی۔ آپ کو مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی، مساجد کی بندش اور اسلام کو انتہاپسندی سے جوڑنے جیسے بیانات زیب نہیں دیتے۔ ہمارے ”انتہاپسند“ معاشرے میں تو اس قسم کے بیانات معیوب سمجھے جاتے ہیں، لیکن آپ کے ”معتدل“ اور ”مہذب“ معاشرے میں کھلے عام اس قسم کے انتہاپسندانہ بیانات دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ آپ ابھی صدارتی امیدوار کے لیے منتخب نہیں ہوئے تو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس قدر زہر افشانی کر رہے ہیں، اگر منتخب ہو گئے تو یقیناً آپ کا لہجہ جنگوں کو جنم دے گا، جو پوری دنیا کے لیے باعث تشویش ہونا چاہیے۔

جناب ڈونلڈ ٹرمپ! اسلام اور مسلمانوں پر لگائے جانے والے آپ کے تمام الزامات بے بنیاد ہیں، آپ کو اپنی ”اداؤں“ پر غور کرنا ہو گا، کیونکہ آپ کا رویہ پوری دنیا کو تباہی و بربادی کی جانب دھکیلنے جا رہا ہے۔
آپ کا خیراندیش
عابد محمود عزام۔پاکستان
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 703334 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.