بھارت نے منافقانہ رویہ کی ایک اور مثال قائم کر دی
(abdulrazzaq choudhri, lahore)
پاک بھارت تعلقات پر مبنی تاریخ کے اوراق
کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ریاستوں کے قیام سے لے کر آج
تک باہمی تعلقات نشیب و فراز کا شکار رہے ۔ کبھی دوستی کے ترانے گائے گئے
اور کبھی نفرت کی ایسی آندھی چلی کہ نوبت جنگ تک پہنچ گئی ۔ مستقل دوستی کا
پودا کبھی پروان چڑھا ا اور نہ ہی دشمنی کی فضا ہمیشہ قائم رہی ۔ ان دنوں
بھی نواز شریف حکومت دوستی کے پودے کی آبیاری میں مگن ہے ۔ بھارت سے ہر سطح
پر تعلقات میں بہتری کی خواہاں ہے اور اس خواہش کی تکمیل کی خاطر اقدامات
بھی اٹھا رہی ہے ۔ کبھی نریندر مودی کو پاکستان کی سر زمین پر والہانہ خوش
آمدید کہا جاتا ہے اور کبھی پٹھانکوٹ حملے کے مجرموں تک رسائی کے لئے بھر
پور تعاون فراہم کیا جاتا ہے ۔ اور کبھی طوفانی دھمکیوں کی باز گشت میں بھی
قومی کرکٹ ٹیم کو بھارت روانہ کر دیا جاتا ہے اور یہ سب اقدامات اٹھانے کے
پیچھے خواہش یہی کار فر ما نظر آتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح بھارت سے تعلقات
کی گرمجوشی بر قرار رہے اور یہ تعلقات کہیں سرد مہری کی لپیٹ میں نہ آجائیں
۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک جانب تو پاکستان بھارت سے خوشگوار تعلقات
کا خواہشمند ہے تو دوسری جانب بھارت جب چاہتا ہے ایسا اقدام اٹھاتا ہے جس
سے حکومت پاکستان کو دوستی کے سلسلہ میں کی گئی اپنی کاوشوں پر ندامت
اٹھانا پڑتی ہے ۔ مثال کے طور پر 19مارچ کو پاک بھارت کرکٹ میچ کے موقع پر
ہندوستان میں متعین پاکستانی سفارتی عملہ میچ دیکھنے کا خواہشمند تھا ۔
حکومت پاکستان نے سفارتی عملہ کو میچ دیکھنے کی اجازت بھی دے دی لیکن بھارت
نے پاکستانی سفارتی عملہ کے میچ دیکھنے پر پابندی عائد کر دی ۔ اگرچہ
پاکستان نے بھارت کے اس عمل پر بھر پور احتجاج ریکارڈ کروایا ہے لیکن سوچنے
کی بات ہے کہ بھارت آخر ایسے حالات ہی کیوں پیدا کرتا ہے جو دونوں ملکوں کی
حکومت اور عوام کے باہمی اعتماد کی فضا کو داغدارکرنے کا سبب بنتے ہیں اور
دونوں ملک باہم قریب ہونے کے بجائے ایک دوسرے سے دور چلے جاتے ہیں ۔ یہ تو
بھارتی مخا صمانہ اور منافقانہ رویہ کی تازہ ترین مثال ہے جو ہماری آنکھوں
کے سامنے ہے ایسی سینکڑوں مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے جب ہندوستان نے اپنے
متعصبانہ رویہ کی بدولت پاکستان اور بھارت کے درمیان جنم لینے والے اعتماد
اور محبت کے رشتہ کو نفرت کی فضا میں بدل دیا ۔بھارت میں کسی فساد یا بم
دھماکے کے نتیجے میں کوئی چوہا بھی مر جائے تو بھارت کی کوشش ہوتی ہے کہ
کسی نہ کسی طرح اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر اسے بدنام کر ے اور عالمی سطح
پر اس کے وقار پر کاری ضرب لگائے ۔ بھارت ہمیشہ پاکستان کو ہزیمت سے دوچار
کرنے کی کوششوں میں لگا رہتا ہے ۔ پاک بھارت سیریز کے انعقاد کے ضمن میں
بھارت نے جو رویہ اختیار کررکھا تھا حکومت پاکستان کی آنکھیں کھول دینے کے
لیے کافی تھا ۔ کبھی بھارت سیریز کے انعقاد سے متعلق مثبت اشارہ دیتا اور
کبھی سرے سے ہی انکاری ہو جاتا ۔ اور جس بھونڈے طریقے سے پی سی بی کے
عہدیداروں کے وقار کو مجروع کیا گیا وہ بھی قابل مذمت عمل تھا۔
حیران کن امر ہے کہ ایک طرف تو بھارت پاکستانی سفارتی عملہ کو میچ دیکھنے
کی سہولت دینے تک تیار نہیں ہے اور دوسری جانب دونوں ملکوں کے درمیان دوستی
کو پروان چڑھانے کا چرچاہے اور مذاکرات کے اک نئے دور کی باز گشت سنائی دے
رہی ہے خارجہ سیکرٹری سطح پر مذاکرات کے لیے کوششیں جاری ہیں جبکہ مذاکرات
کا دور چلنا کوئی نئی بات نہیں ہے عرصہ دراز سے یہ کھیل جاری ہے اور آئندہ
بھی جاری رہے گا ۔ بھارت عالمی طاقتوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے
مذا اکرات کی ٹیبل سجاتا ہے اور پھر ممبئی حملوں یا پٹھانکوٹ حملوں جیسے
واقعات کو جواز بنا کر ان مذاکرات کے سلسلہ کو ختم کرنے میں پل بھر کی دیر
نہیں کرتا اور عالمی سطح پر پاکستان کو رسوا کرنے کا قبیح عمل دھرانا شروع
کر دیتاہے ۔ان دنوں سر تاج عزیز اور سشماسو راج دونوں ملکوں کے درمیان
مذاکرات کے اک نئے دور کے آغاز کے لیے کوشاں ہیں اور بالخصوص پاکستانی سر
کاری عہدیداروں کی شدید ترین خواہش ہے کہ مذاکرات کا عمل جلد سے جلد شروع
ہو ۔ سوچنے کی بات ہے ان مذاکرات کا نتیجہ کیا ہو گا ۔ کیا بھارت ان
مذاکرات کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر پر اپنا موقف تبدیل کر دے گا ۔ کیا وہ
کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا مطالبہ تسلیم کر لے گا ۔ کیا وہ کئی دہائیوں
سے کشمیریوں پر روا رکھے گئے ظلم و ستم کا سلسلہ بند کر دے گا ۔ کیا وہ
کشمیریوں کو اپنی حسب منشا سمت اختیار کرنے کا حق تفویض کر دے گا ۔ سچ تو
یہ ہے کہ مذاکرات کا اک نیادور شروع ہو گا ۔ ہندوستان اپنے مطالبات دھرائے
گا ۔ پاکستان اپنا نقطہ نظر پیش کرے گا ۔ ہندوستان اپنی ہٹ دھرم سوچ پر
قائم رہے گا کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے جبکہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر بات
چیت کرنا چاہے گا اور بھارت اس موضوع کو چھیڑنا اچھوت خیال کرے گا اور یوں
مذاکرات بے نتیجہ ختم ہو جائیں گے اور ڈیڈ لاک کی صورتحال آنکھوں کے سامنے
رقص کناں ہو گی ۔ یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری
رہے گا آج ان مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھانے میں سر تاج عزیز اور سشماسو راج
پیش پیش ہیں تو ان سے قبل ان کے سابق ہم منصب یہ مشق دھراتے رہے ہیں ۔
پرویز مشرف دور میں وزارت خارجہ کے منصب پر مامور محمود قصوری کا کہنا ہے
کہ ان کے دور میں مسئلہ کشمیر حل ہونے کے قریب تھا کیونکہ دونوں ممالک کی
حکومتیں اس مسئلہ کو حل کرنے میں سنجیدہ تھیں اگر ہمیں تھوڑا ٹائم اور مل
جاتا تو یہ مسئلہ حل ہو جاتا ۔ میری دانست میں یہ سب باتیں بھی ہوا میں ہی
تھیں ۔ بھارت نہ اس وقت مسئلہ کشمیر حل کرنے کے موڈ میں تھا اور نہ آج ہے ۔
بھارت نے ہمیشہ پاکستان سے منافقت کی ہے اور منافقت کرتا رہے گا ۔ اس کی جب
مجبوری بنتی ہے وہ اپنے امیج کو بہتر بنانے کے لیے مذاکرات کا ڈرامہ رچا تا
ہے اور اسے جب اپنے مطلوبہ مقاصد میں کامیابی مل جاتی ہے تو کوئی عذر تراش
کر پاکستان کے خلاف زہر افشانی شروع کر دیتا ہے اور پاکستان کے خلاف سازشوں
میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ بھارتی منافقت کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ بھارت کب
،کہاں اور کس اہم فورم پر اپنا چہرہ بدل لے اس بارے کچھ نہیں کہا جا
سکتا۔لہٰذاحکومت پاکستان کو بھارت سے تعلقات استوار کرنے کے عمل میں نہایت
احتیاط سے کام لینا ہو گا کیونکہ دھوکہ دہی اور اپنی کہی ہوئی بات سے مکر
جانا بھارت کی ہمیشہ سے روش رہی ہے ۔ |
|