آخر کمانڈو جیت گیا!
(Shafique Shakir, Hyderabad)
تاریخ کے اسباق ایسی کسی شانت نگری کا پتہ نہیں دیتے جہاں کمزور صرف اس جرم کی سزا کھائے کہ وہ طاقتور کیوں نہیں ہے اور طاقتور صرف اس اعزاز کی وجہ سے ہر سزا سے بچ جائے کہ وہ کمزور نہیں ہے! اب کچھ دنوں تک وضاحتیں،تردیدیں،اگرچہ،مگر، چونکہ،چنانچہ،ایک دوسرے پر کیچڑ،میڈیا پر الزامات کی برسات ہوگی، اپنے پرانے اصول پسندانہ اور جرئتمندانہ بیانات سے انحراف کے لئے الفاظ چنے جائینگے اور بالآخر پاکستان کی تاریخ کا ایک اور سیاہ ترین باب یونہی بند ہوجائے گا۔تاریخ کو جلدی بھول جانے کی عادت ویسے بھی ہماری پرانی قومی بیماری ہے۔"رات گئی بات گئی" کا اصول ہماری وسیع رواداری اور درگذر کی اجتماعی صفت کا مظہر ہے۔ |
|
|
پاکستانی سیاسست کے شیروں کی عقابی نظروں
کے سامنے فاتحانہ انداز میں لانگ مارچ کرتے ہوئے ایک سابق فوجی کمانڈو بڑی
شان سے اڑن کھٹولے پہ بیٹھ کر کسی پریستان چلا گیا۔جمہوریت کے جانباز،قانون
کے پاسبان اور آئین کے علمبردار سب اسے حسرت، یاس اور بےبسی کے ساتھ دیکھتے
ہی رہ گئے۔آج کئی تلخ زبانیں خاموش،کئی اکڑی گردنیں جھکی ہوئی اور شوخ
نظریں نیچے تھیں،کسی کے زباں سے اگر کوئی الفاظ نکلتے تھے تو بس یہی کہ "
جو عدالتوں کی مرضی!" جیسے کسی کے انتقال پر تعزیت کرتے وقت کہا جاتا ہے کہ
" جو خدا کی مرضی!" بائیس کروڑ آبادی والے ملک کے ہیوی عوامی مینڈیٹ سے
منتخب ایک جمہوری وزیراعظم کے وزیرداخلہ بےبسی،لاچاری اور شرمساری کی تصویر
بنے عوام کا مورال بلند کرنے یا اپنی حکومت کا رہا سہا وقار بچانے کے لئےجب
پریس کانفرنس کررہے تھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ گویا زباں انکے دل کا ساتھ
نہیں دے رہی،جیسے مصلحتوں کے راکاس نے ان کے اعصاب شل کردئے ہوں پر کیا
کرتا پریس کانفرنس تو کرنی ہی تھی۔خدا بھلا کرے میڈیا والوں اور بلاول
زرداری کا جنہوں نے غصے سے لال چودھری صاحب کی توپوں کا رخ اپنی طرف کرکے
انہیں ہوائی فائرنگ کا موقعہ فراہم کردیا۔ایسے محسوس کرایا جارہا تھا گویا
پنجاب کے شیر پرویز مشرف کو پھانسی پر لٹکا چکے ہوتے مگرمیڈیا، عدالتوں اور
پیپلز پارٹی والوں نےسارا معاملہ خراب کردیا!پی پی پی کو مشرف کے ساتھ این
آر او کرنے پر بار بار طعنہ دینے والے جرئتمند حکمران مشرف سے دوسری بار
این آر او کرنے کے باوجود بھی اصول پسند سیاستدانوں کی فہرست میں ہی شامل
رہے۔شاید اس وجہ سے کہ بحالت مجبوری حرام کھانا بھی جائز ہو جاتا ہے۔یہ تو
ہونا ہی تھا جو ہوا، کون سے ظالم کو ان بےوفا حسیناوًں کے وعدوں پر اعتبار
تھا!یہاں کے محفل کی ریت و رسم سے سب واقف تھے،اس ملک کے عوام کو آداب
غلامی سب معلوم تھے۔مگر یہ انقلابی کہاں سے آئے جنہوں نے کہا کہ " میں نہیں
جانتا، میں نہیں مانتا"۔لیکن آج جب پھر انہیں یہ کہکر ان کی اقات یاد دلائی
گئی ہے کہ " تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھی،رقص زنجیر پہن کر بھی کیا
جاتا ہے" تو پتہ نہیں کتنے انا کے کھول شکستہ ہوکر بکھر گئے ہوں گے،کتنے بت
آئینے میں اپنی بدصورتی دیکھ کر اسی خوف سے ٹکڑے ہوگئے ہونگے۔اقتدار کے
کھیل میں رات کی تاریکیوں میں پیچھے والی گلی سے غیرسیاسی قوتوں کے باربار
قدم چومنے والے ہمارے بہادر اور بااصول سیاستدان جن کو کبھی بھی اپنی اس
ادا پر ندامت نہیں ہوئی،آج جب سنگدل وقت نے انہیں ان کی اوقات ایک بار پھر
بتادی ہے تو وہ اس وقت جو اذیت محسوس کررہےہیں ایسی کئی اذیتیں خلق خدا
زمانے سے سہتی آئی ہے۔ان بہادروں سے عوام کوئ وضاحت نہ توطلب کرے گا اور نہ
ہی قبول کرے گا کیونکہ اس ملک کے لوگ ازل سے جانتے ہیں کہ یہ ملک شروع
سےچند طاقتور پہلوانوں کا آکھاڑہ بنا ہوا ہے،ان پہلوانوں کے کھیل سے دور
رہنے میں ہی عوام اپنی عافیت سمجھتا ہے کیونکہ طاقت کے نشے میں چوران
پہلوانوں میں سے رساکشی کرتے ہوئے جب کوئی پہلوان اپنا توازن کھوکر گرتا ہے
تو ہمیشہ عوام کی گلی سڑی پسلیاں ہی توڑتا ہے۔جب یہ ریت قانون کی شکل
اختیار کرگئی ہو کہ یہاں بیلٹ نہیں بلیٹ زیادہ طاقتور ہے،فیصلے دلیل سے
نہیں ڈنڈے کی زور پہ کئے جاتے ہوں،قانون کمزور کے پاوًں کی بیڑی اور طاقتور
کے قدموں کا قالین بنا ہوا ہو،احتساب میں بھی انتخاب ہوتا ہو۔اس معاشرے میں
قانون کی بالادستی، معاشرتی یکجہتی،قومی اتحاد اور ہم آہنگی قائم ہوگی،
جمہوری اقدار فروغ پائینگی،دہشت گردی ختم ہوجائگی اور امن ہی امن ہوگا،ایسے
سہانے سپنے دیکھنے سے تو کوئی کسے روک نہیں سکتا مگر تاریخ کے اسباق ایسی
کسی شانت نگری کا پتہ نہیں دیتے جہاں کمزور صرف اس جرم کی سزا کھائے کہ وہ
طاقتور کیوں نہیں ہے اور طاقتور صرف اس اعزاز کی وجہ سے ہر سزا سے بچ جائے
کہ وہ کمزور نہیں ہے! اب کچھ دنوں تک وضاحتیں،تردیدیں،اگرچہ،مگر،
چونکہ،چنانچہ،ایک دوسرے پر کیچڑ،میڈیا پر الزامات کی برسات ہوگی، اپنے
پرانے اصول پسندانہ اور جرئتمندانہ بیانات سے انحراف کے لئے الفاظ چنے
جائینگے اور بالآخر پاکستان کی تاریخ کا ایک اور سیاہ ترین باب یونہی بند
ہوجائے گا۔تاریخ کو جلدی بھول جانے کی عادت ویسے بھی ہماری پرانی قومی
بیماری ہے۔"رات گئی بات گئی" کا اصول ہماری وسیع رواداری اور درگذر کی
اجتماعی صفت کا مظہر ہے۔وقتی جذبات یا عوام سے ووٹوں کی خیرات مانگنے کی
غرض سے ماضی میں جرئتمندانہ موقف اختیار کرنے پر تنہائی میں وہی پھنے خان
اپنے کان پکڑ کر کہہ رہے ہونگے کہ " کیسی غلطی شباب کر بیٹھا" اس سارے
ڈرامے کا المناک اور دلچسپ سین یہ ہے کہ نواز شریف حکومت کا وزیر داخلہ
پرویز مشرف کے ایک ترجمان کی طرح پرویز مشرف کی طرف سے قوم کو یہ یقین
دہانی کرا رہا تھا کہ پرویز مشرف نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ کچھ عرصے میں
علاج کرانے کے بعد واپس پاکستان لوٹ آئینگے اور آکر عدالتوں میں اپنے خلاف
تمام مقدمات کا سامنا کرینگے۔
یہ ہے ہماری جمہوریت،جمہوریت کے پاسبان ہمارے حکمران اور قانون و آئین کی
حکمرانی قائم کرنے کے صبح و شام دعوے کرنے والے ہمارے عظیم سیاستدان! |
|