پاکستان کی تاریخ اس وقت سے شروع ہوتی ہے
جب محمد بن قاسم نے دیبل (کراچی) کو فتح کرنے کے لیے برصغیر کی سرزمین پر
قدم رکھا۔ مظلوم مسلمان عورتوں کو بحری قزاقوں سے چھڑانے کے لیے 17 سالہ نو
جوان سپہ سالار نے نہ صرف ان کو آزادی دلا کر راجہ داہر کو شکست دی بلکہ پر
امن معاشرہ قائم کرکے لوگوں کو مذہبی آزادی دینے پر ان کے دلوں کو زیر کر
لیا۔
ظہور اسلام سے پہلے دنیا جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ لڑائی جھگڑا
زندگی کا معمول تھا۔ معمولی باتوں پر تکرار نسلیں پناہ کردیتی تھی۔ ایسے
میں اسلام کا دیا روشن ہوگیا جس نے پورے دنیا سے جہالت کی ظلمت کو ختم کر
دیا۔ جس نے انسان کو اس کا منصب سمجھا یا اور اشرف المخلوقات بنایا۔ پیغمبر
آخر الزمان ﷺ اور صحابہ رضوان اﷲ علیھم کے کردار کو دیکھ کر اولاد آدم
اسلام میں داخل ہونے لگی۔ صدیوں کی دشمنیاں بھائی چارے میں بدل گئی۔ بلاخر
جس قوم پر ان کی جہالت کی وجہ سے کوئی حکمرانی کرنا بھی نہیں چاہتا تھا ان
کی تہذیب عالم کے لیے مثال بن گئی۔
712ء میں محمد بن قاسم ایک فاتح کے طور پر سندھ میں داخل ہوئے اور امن کی
ایسی مثال قائم کی کہ لوگ خود بخود اسلام میں داخل ہونے لگے۔ یوں یہ بنجر
خطہ اسلامی تعلیمات کے ذریعے سیراب ہوتا گیا۔ آٹھویں صدی عیسوی میں برصغیر
پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی۔ 800 سال تک مسلمان یہاں حکمران رہے۔
مسلمانوں کے علاوہ ہندؤں، عیسائی، سیکھ اور دوسرے مذاہب کے پیروکار بھی
اسلامی حکومت سے خوش تھے۔ جب مسلمان حکمران اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کر عیش
و عشرت کرنے لگے اور شراب و کباب میں کھو گئے تو جگہ جگہ بغاوت شروع ہوگئی۔
انگریز نے موقع کو غنیمت جان کر قدم جمانا شروع کیا اور بلاخر 800 سالہ
مسلم حکومت کی عمارت کو زمین بوس کر دیا۔
مسلمانوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا۔ انہوں نے اپنی بچی کچی طاقت کو
جمع کرنا شروع کر دیا تھا۔ انگریز کے خلاف لوگوں میں شعور اجاگر کرنا اور
انہیں منظم کرنا ایسا کھٹن مرحلہ تھا کہ اس میں تقریبا 200 سال گزر گئے۔
آخر کار 1857ء میں تاریخی جنگ آزادی لڑی گئی۔ اس خون ریز لڑائی میں اطراف
سے زبردست جانی نقصان ہوا۔ جنگ آزادی میں اگرچہ برصغیر کی تمام اقوام شامل
تھیں لیکن اس میں ہندوؤں کی اسلام دشمنی کھل کر سامنے آگئی۔ اب مسلمانوں کو
احساس ہوچکا تھا کہ نہ صرف انگریزوں سے آزادی حاصل کرنی ہے بلکہ ہندوؤں سے
الگ ایک آزاد مسلم ریاست حاصل کرنا ہے۔ یوں ایک منظم تحریک شروع کر دی گئی۔
مسلمانوں نے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انگریز کو ملک چھوڑ نے پر مجبور
کر دیا۔
مسلمانوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ انگریز کے نکلنے کے بعد وہ ہندوؤں کے رحم
و کرم پر نہیں رہنا چاہتے ۔ اپنی مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے 23 مارچ
1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں ایک جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا ۔ اس جلسہ
میں مسلمانوں نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جسے تاریخ میں قرارداد پاکستان
کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
23 مارچ کو اس زمانہ کے بنگال کے وزیر اعلی مولوی فضل الحق نے قرار داد
لاہور پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل
عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے
جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ قرار داد میں کہا
گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ
ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں
آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت
اعلی حاصل ہو۔ مولانا ظفر علی خان اور قائداعظم محمد علی جناح، یوپی کے
مسلم لیگی رہنماچوہدری خلیق الزماں ، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے
سردار اورنگ زیب سندھ سے سر عبداﷲ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے
مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائیدکی۔ قرارداد23مارچ
کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔
اپریل سن 1941 میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو جماعت
کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع
ہوئی۔ لیکن اس وقت بھی ان علاقوں کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی تھی جن پر
مشتمل علیحدہ مسلم مملکتوں کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔ پہلی بار پاکستان کے
مطالبے کے لیے علاقوں کی نشاندہی7اپریل1946ء دلی کی تین روزہ کنونشن میں کی
گئی جس میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے مسلم لیگی اراکین نے شرکت کی تھی۔
اس کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبنٹ مشن کے وفد کے سامنے مسلم لیگ کا
مطالبہ پیش کرنے کے لیے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس کا مسودہ مسلم لیگ
کی مجلس عاملہ کے دو اراکین چوہدری خلیق الزماں اور حسن اصفہانی نے تیار
کیا تھا۔ اس قراداد میں واضح طور پر پاکستان میں شامل کئے جانے والے علاقوں
کی نشاندہی کی گئی تھی۔ شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں
پنجاب ، سرحد ، سندھ اور بلوچستان۔
یوں اس قرارداد کے نتیجے میں 14 اگست 1947ء کو وطن عزیز اسلامی جمہوریہ
پاکستان معرض وجود میں آیا۔ آزادی کا ستر سالہ سفر طے کرنے کے بعد آج بھی
وطن عزیز کو بہت سے بیرونی اور اندرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ جو ملک اسلام
کے نام پر حاصل کیا گیا تھا آج اس میں اسلامی احکام کے پامالی کا سلسلہ
جاری ہے۔ جس دین کو تقویت دینے کے لیے یہ وطن بنایا گیا تھا آج اس دین کے
شعائر داڑھی اور پگڑی کو دہشت گردی کی علامت سمجھا جارہا ہے۔ جن قوموں نے
اس وطن کو حاصل کرنے کے لیے خون کے دریا بہائے آج اس ملک میں ان کی زندگی
تنگ کی جارہی ہے۔ اج سے ستر سال پہلے زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے
نعرہ لگایا جارہا تھا ’’ پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔ لاالہ الا اﷲ‘‘۔۔۔۔۔اور آج
اس ملک میں یہ نعرہ بلند کیا جا چکا ہے ۔۔۔۔’’ پاکستان کی بقا۔۔۔۔۔لبرل
پاکستان‘‘۔ |