دین خانقاہی اور دین اسلام (گزشتہ سےمنسلک قسط نمبر7)

اگر کوئی شخص مزاروں'خانقاہوں کا سفر کرتا ہے تو وہ ہمارے بیان کردہ واقعات کے ایک ایک حرف کو سچ پائے گا۔
جب”مزار“زمین سے اوپر کو ابھرنا شروع ہوا:تصوف جو کہ کرشموں اور طلسمات کی دنیا ہے‘ اس کا ایک کرشمہ ملاحظہ ہو :بابا اصحابی کے پردہ کرنے کے بہت عرصہ بعد آپ کا مزار شریف منہدم ہو کر ناپید ہو چکا تھا -اس اثناء میں حافظ عبد اللہ شاہ گجراتی کو( عبدالقادر جیلانی) کی بشارت ہوئی کہ” میری اولاد کی مبارک قبر مکلی ٹھٹھہ میں واقع ہے‘ اس کو نمودار کرو-چنانچہ مراقبہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ پورے مکلی کے اولیائے کرام کی محفل لگی ہوئی ہے اور سب کی صدارت سیدالاولیاء سید عبداللہ شاہ اصحابی فرما رہے ہیں-مراقبہ سے فارغ ہو کر آپ سب کو لیکر مکلی کی طرف روانہ ہوئے اور آکر ( اپنے ) مزار مقدس کو نمودار کیا....

قارئین کرام ! یہ مزار تو بقول ان کے ابھر چکا ‘ نمودار ہو چکا -مگر اب یہاں جو کچھ نمودار ہوتا ہے اس سے شاید شیطان بھی پناہ مانگتا ہو گا کہ جب 15-14-13 شعبان کو یہاں بابا کا عرس ہوتا ہے -مگر آج جب ہم بابا کے دربار پہ پہنچے تو یہ عرس کا دن نہ تھا -ایک عام دن تھا‘ اس کے باوجود کافی تعداد میں لوگ موجود تھے -
بال کھولے گریبان چاک کئے ایک لڑکی: ایک نوجوان لڑکی اپنے بال کھولے ہوئے‘ گلہ چاک کئے ہوئے‘ دیوانہ وار بابے کے دربار پہ کبھی اس طرف دوڑ کر چلی جاتی ‘ کبھی کھڑکی کے سریے کو تھام لیتی اور صحابی بابا کا نام چیخ کر پکارتی -لوگ یہ منظر ملاحظہ کر رہے تھے اور دوسری طرف ایک لڑکی اپنے بال کهولے ڈهول کی تهاپ پر دیوانوں کی طرح گهوم رہی تهی اور کثیر مجمع اس بے حیائی کو دیکهنے میں مشغول تها. اگر تصوف(صوفیت) اس چیز کا نام ہے تو مبارک ہو ان کو-اور ہمیں دین محمدی ہی کافی ہے.اس کے علاوہ جنہیں جادو اور جنات کا مرض ہوتا ہے ‘وہ بھی یہاں آتے ہیں‘ اور کیا مرد اور کیا نوجوان عورتیں سب مداریوں کی طرح بازیاں لگاتے ہیں‘ اور پھر ایک جم غفیر ہوتا ہے جو یہ بازیاں ملاحظہ کرتا ہے-

لڑکی یہاں چھوڑ جاو ! جن نکال دیں گے-مجاوروں کی یقین دھانی : ہم نے دیکھا کہ ایک اچھا خاصا کھاتا پیتا گھرانہ اپنی نوجوان بچی کو یہاں لایا اور دربار کے مجاوروں سے کہا کہ” اس بچی کو جنات کی کسر ہے“ انہوں نے کہا کہ” یہاں چھوڑ جاو ٹھیک ہوجائے گی-“ محکمہ اوقاف کی ایک ملازمہ عورت بھی یہاں موجود تھی- جب ہم نے اس سے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے تعجب کا اظہار کیا تووہ کہنے لگی” یہاں ایسے ہی ہوتا ہے اور جو بھی آتی ہے -یہاں رہ کر وہ ٹھیک ہوجاتی ہے -“ اس خرانٹ عورت کے اشارے اور انداز تکلم یہ بتلا رہا تھا کہ یہ لڑکیاں پھر ہٹے کٹے مجاوروں کے ہاتھوں ٹھیک ہوتی ہیں - آہ !....آج سے تیرہ سوسال قبل جب محمد بن قاسم رحمہ اللہ یہاں آیا تھا تو ہندوں کے مندروں سے اس نے ہزاروں ہندو لڑکیوں کو آزاد کیا کہ جنہیں ہندوں نے مندروں کی نذر کردیا تھا -اور پھر پنڈت انہیں دیو داسیاں قرار دے کر ان کی عزت و آبرو کے مالک بن بیٹھتے تھے ....آج پھرابن قاسم رحمہ اللہ کے دیس میں تقدس کے پردے میں ....مگر اسلام کے نام پر ہم پهر وہی حرکتیں دیکھ رہے تھے- جن کے مناظر ہم آپ کو آگے دکهایئں گے.....

خانقاہی دربار کی نمودار ی کے ابھار ملاحظہ کر رہے تھے کہ جنہیں ہم نے ابن قاسم بن کر مٹایا تھا - درباری چلن یہ ہے کہ صاحب دربار کے درباری صحن میں اس کی اولاد جو کہ تقدس کا روپ دھار کر خانقاہی خلافت کی وارث اور سجاد ہ نشین بن کر فوت ہوتی ہے ‘اس کی قبریں بھی موجود ہوتی ہیں- زائرین بڑی قبر کے بعد ان چھوٹی قبروں کی خاک بھی چھانتے ہیں کہ شاید یہیں سے کچھ مل جائے اور اس”شاید“ کے چکر میں وہ بیسیوں دربار خانقاہیں گھومتے ہیں اور ہر چوکھٹ پہ اپنا سر جھکاتے چلے جاتے ہیں کیونکہ جو اللہ تعالی کا در چهوڑ دیتا ہے تو در بدر کی ٹهوکریں اس کا مقدر بن جاتی ہیں.-جاری ہے....
عمران شہزاد تارڑ
About the Author: عمران شہزاد تارڑ Read More Articles by عمران شہزاد تارڑ: 43 Articles with 42526 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.