یوم تجدید عہد وفا

دو قومی نظریہ ایک خوش نما خواب ضرور ہے لیکن عملی طور پر یہ اُن لوگوں کیلئے عبرت ناک تعبیر ہے جنھوں نے اپنا سب کچھ پاکستان پر لٹا دیا اور آج تک کوئی انھیں تسلیم نہیں کرتا۔ہم آج بھی دو قومی نظرئیے کے گیت گاتے ہیں ، لیکن اس کی اصل روح کو سمجھنے کے بجائے پاکستانی کو محب وطن بنانے کے بجائے غدار کہلانے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ مجھے موجودہ پاکستان میں لسانیت ، صوبائیت ، فرقہ واریت اور قوم پرستی تو نظر آتی ہے ، دو قومی نظریہ کہیں نظر نہیں آتا ۔ جب اسلامیان ِبر صغیر نے جناح کی زیر قیادت آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر آزاد اسلامی مملکت کے قیام کیلئے اپنا انقلابی منشور پیش کیا تو ایسے مقبوضہ ہندوستان کی پریس ، انگریز حکومت اور کانگریس نے "دیوانے کی بڑ"قرار دیا۔مگر قائد اعظم محمد علی جناح نے ، مصور پاکستان اقبال کے افکار کی روشنی میں واضح طور پر دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ رکھ دیا تھا کہ یہ ایک خطے میں محض روایتی نہیں ، بلکہ انسانی حقوق کی بنیادوں پر عالمی سیاسی مسئلہ ہے۔ جیسے اقوام وعالم کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔بلکہ حقائق کی روشنی میں مسلم لیگ کے نکتہ نظر سے اس کا حل نکالنا ناگزیر ہے۔قائد اعظم نے واضح کردیا تھا کہ" مسلم و ہندومحض مذاہب پر مبنی قومیں نہیں بلکہ معاشرتی لحاظ سے درحقیقت دو مختلف معاشرتی نظام ہیں۔اس لئے اس حقیقت کو خواب و خیال ہی کہنا چاہیے کہ دونوں قومیں ملکر ایک مشترکہ قومیت تخلیق کرسکیں گے۔"قائد اعظم نے اس کی وضاحت یوں کی کہ ایسی دو قوموں کو ایک ریاست اور ایک حکومت کی مشترکہ گاڑی کے دو پہیے بنانے اور انہیں باہمی تعاون کے ساتھ قدم بڑھانے پر آمادہ کرنے کا یہ نتیجہ ہوگا کہ دونوں کے دلوں میں بے صبری بڑھتی چلی جائے گی ، جو انجام کار تباہی لائیگی۔"انہوں نے اپنی تقریر میں بر صغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ خطے کی جغرافیائی حدود کا بھی تعین کرکے کہہ دیا تھا ہندوستان کے وسیع علاقے مسلمانوں کے قبضہ میں ۔ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے مثلا بنگال ، پنجاب ، سرحد بلوچستان ؛ بالاآخر یہی علاقے پاکستان بن کر دنیا کے نقشے میں ابھرے ، بدقسمتی سے اندرونی و بیرونی سازشوں نے ملک کو دو لخت کردیا اور پاکستان کے نظرئیے اور اساس کو دریا ئے بنگال میں ڈبو دیا ۔ آج بھی بد قسمتی ہے کہ متحدہ قومیت کے پرچارک اپنے قول و فعل کی تضاد کی بنا پر پاکستان کو ایک بار پھراسی موڑ پر لے آئے ہیں جہاں ، پاکستان سے زیادہ اپنے فروعی نظریات کو فوقیت دی جاتی ہے۔پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ تو اس قدر منقسم ہوگئی کہ قائد کی مسلم لیگ کہلانے کے بجائے اپنے اپنے ناموں کی تشہر کیلئے اربوں روپوں کے اخراجات کرنا ان کی اولین ترجیح بن چکی ہے۔سیاسی جماعتوں کی جانب سے قوم کی خدمت کے بجائے اقتدار کی ہوس نے پاکستان کو شدیدمشکلات میں پھنسادیا ہے جس سے نکلنے کے لئے ہمیں قائد اعظم اور مفکر پاکستان کی اساس کو اپنانا ہوگا ۔ بلا شبہ پاکستان اب جناح کا وہ پاکستان نہیں رہا جس کا خواب اقبال نے اور تعبیر جناح نے دی تھی اب کوئی قائد اعظم نہیں بن سکتا ور نہ ہی مفکر پاکستان اقبال کی خاک پا ۔لیکن جہاں ہم نظریاتی طور پر مغربی ممالک کی نقول میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ، اگر پاکستان کی اساسی نظریات کو اپنے منشور میں پہلی ترجیح دیتے ہوئے کوشش کریں تو ممکن ہے کہ آنے والے نئی نسل پاکستان میں وہ نظام لا سکتی ہے جس کی جدوجہد میں لاکھوں انسانوں نے اپنی جان کی قربانی دیں۔اس حقیقت سے کوئی بھی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان کے قیام کے لئے جتنی قربانی اقلیتی صوبوں میں رہنے والے ہندوستان کے مسلمانوں نے دیں ، وہ اکثریت پر مبنی مسلمان صرف اس کا تصور ہی کرسکتے ہیں اور آج ان کی تصاویر دیکھ کر نئی نسل صرف آگاہ ہوسکتی ہے ۔ لیکن یہ ہمارا المیہ ہے۔پاکستان کے لئے جن لوگوں نے اپنی قیمتی جانوں اور مال و اسباب کی قربانیاں دیں انھیں ، موجودہ پاکستان میں دیوار سے لگایا جا رہا ہے ، کبھی انھیں ان کی پرانی نسبت سے یاد کیا جاتا رہا تو کبھی ان کے لئے نفرت پر مبنی نئے نئے الفاظ تراشے جاتے رہے ، قومیتوں کو آپس میں لڑانے کی سازشیں ، انتخابی کامیابی کیلئے ناگزیر ہوگئیں۔کسی بھی سیاسی جماعت سے اختلاف ، ہو سکتا ہے ، کسی بھی جماعت کی سر گرمیوں پر اعتراض ہوسکتا ہے ، لیکن ان سب معاملات کیلئے عدلیہ کے دروازے کھلے ہیں ، عوام کے شعور کیلئے میڈیا آزاد ہے ، ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرکے کوئی بھی اپنی اصلاح کرنا چاہتا ہے تو کیا ایسے سمندر برد کردیا جائے ۔ یقینی طور پر ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ الیکشن کے دنوں میں صرف پوائنٹ اسکورنگ کیلئے بانیاں پاکستان کے خلاف سازشوں سے قائد کی روح اور اقبال کی فکر مذاق کا نشانہ بن کر تڑپ اٹھی گی۔ بلکہ سقوط ڈھاکہ کے بعد تو ان کے اوراح اب پیشمان ہونگی کہ یہ کیسے جانشین تھے جنھوں نے پاکستان کی بھاگ دوڑ اور اقتدار پر قبضے کی خواہش نے دو قومی نظرئیے کو ہی دریا برد کردیا ۔جب پاکستان کی تقسیم کی سیاسی جماعت کی ناقابل معافی غلطی کو معاف اور فراموش کیا جا سکتا ہے ، جب قائد اعظم و اقبال کے فرمودات پر مبنی آئین و نظریہ پاکستان سے اغراض برتنے والوں کو معاف کی جا سکتا ہے ، جب پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ ہونے کے اعلان کرنے والوں کو سروں پر بیٹھایا جاسکتا ، جب پاکستان کی مخالف ترین جماعت کو دھرنوں ، ریلیوں اور کئی بار اقتدار میں آمریت کی گود میں بیٹھ کر عوام پر حکمرانی کا حق دیا جاسکتا ہے ، جب ہندوستان کی تقسیم کو آج تک تسلیم نہ کرنے والوں کو گلے سے لگایا جاسکتا ہے تو بھائی ، جنھوں نے پاکستان بنانے کیلئے سب سے زیادہ قربانیاں دیں ، اپنی جاں ، مال عزت وناموس کو پاکستان پر وار دیا، تو بغض معاویہ میں ان کے ساتھ غیر مساویانہ سلوک کرکے ہم دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ۔کہ بچا کچا پاکستان ، پاکستان کیلئے قربانی دینے والوں کیلئے نہیں بلکہ جنھیں ، گھر بیٹھے پاکستان جیسی نعمت ملی ، اس پر ان کی اجارہ داری ہے تو ، کم از کم میں پاکستانی پختون ہونے کے ناطے اس بات کو کبھی بھی ، مرتے دم تک تسلیم نہیں کرسکتا کہ پاکستان کے نظریات کیلئے سب کچھ قربان کردینے والے پاکستان کے مخالف ہوسکتے ہیں ، ہجرت کا درد ، ہم نے سوات ، قبائل سے گھر چھوڑنے پر محسوس کیا ہی نہیں برداشت بھی کیا ہے اور آج بھی ہمارے رونگٹے اپنی تکالیف کو یاد کرکے ، کھڑے ہوجاتے ہیں ، ہمارے بچے محض چند سال کی جانے والی ہجرت کے نفسیاتی سحر سے باہر نہیں نکل سکے،لاشوں کے انبار ہم نے بھی دیکھے ہیں ، ہم نے بھی اپنے اداروں پر کافی دلخراش اعتراضات کئے ، لیکن جنھوں نے پاکستان بنایا ، خدارا ان کے درد کو محسوس کریں ۔ انھیں خود سے جدانہ سمجھیں ، یہی تو سچے پاکستانی ہیں۔کسی بھی جماعت سے سیاسی اختلاف ضرور رکھیں ،یہ سب کا جمہوری حق ہے ، لیکن یوم پاکستان کے دن اس عہد کی تجدید کرلیں کہ ہماری قومییت بلاشبہ جداگانہ ہوسکتیں ہیں ، رنگ و نسل ، زبان مختلف ہوسکتی ہیں ، لیکن با لحاظ امت ہم مسلم ، اور بحیثیت قوم پاکستانی ہیں۔ ہمیں ایک بار پھر پاکستان کی بقا کیلئے ، پاکستانی بننے کا عہد کرنا ہوگا ۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744131 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.