گذشتہ ہفتہ رائیونڈ میں دعوت و تبلیغ کے
کام سے منسلک ان لوگوں کا اجتماع تھا جنہوں نے اس کام میں چار ماہ لگائے
ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد صرف پاکستان میں لاکھوں ہے جبکہ بیرون ملک
سے بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ آنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ لیکن ویزے کی سختی
کے باعث چار ماہ والوں کے جوڑ میں امسال سینکڑوں کی تعدا دمیں شریک ہوئے
جبکہ 1700کی تعداد میں غیر ملکی ہماری وزارت داخلہ کی سُستی کے باعث نہ
آسکے۔ دو سال قبل 4ماہ والوں کا جوڑ 10دنوں کا ہوتا تھا لیکن اب اسے 5دنوں
تک محیط کردیا گیاہے۔ اس جوڑ میں اندازے کے مطابق 5سے 6لاکھ افراد نے شرکت
کی ۔ شرکاء کی تعداد میں آئے روز اضافہ کے باعث چار ماہ کے جوڑ کیلئے بھی
دو اجتماعات کرنے پڑیں گے۔ اجتماعات کا انعقاد بسا اوقات کرنے کا مقصد دعوت
وتبلیغ کی اہم ذمہ دارکی تجدید اور شکراء کی ٹیوننگ ہوتی ہے۔ جسطرح گاڑی
کچھ عرصہ چلنے کے بعد اپنی دیکھ بھال جس میں سروس وغیرہ شامل ہے چاہتی ہے
انسان کی مثال بھی ایسی ہی ہے ایک محنت تو دعوت کی ہے تو دوسری محنت شیطان
کی ہے۔ جس کی ہر وقت یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو (جسے سجدہ نہ
کرنے کے باعث وہ عرش سے فرش پر پھینکا گیا اﷲ کے دربار سے تکبر کے باعث
ٹھکرایا گیا) جہنم کی طرف مائل رکھے ۔ اسے گناہوں میں مبتلا رکھے ۔ شیطان
اور نفس کے خلاف مجاہدے کیلئے سب سے کارآمد نسخہ امر بالمعروف ونہی عن
المنکر کی محنت ہے۔ اسی محنت کو بہتر انداز میں کرنا ہے ، کی تربیت کیلئے
رائے ونڈ اور دیگر مراکز میں اکثر اوقات جوڑ کا اہتمام کیاجاتاہے۔ جسکے بعد
سینکڑوں کی تعداد میں جماعتیں اندرون و بیرون ملک سال، سات ماہ، چلہ وغیرہ
کیلئے نکلتی ہیں اور کلمے کے پیغام کو گلی گلی، قریا قریا پہنچاتی ہیں۔ 5دن
کے اجتماع میں اس ماہ کے آخری دن بعد از نماز مغرب مولانا طارق جمیل کا سحر
انگیز بیان سننے کا موقع ملا۔ مولانا کے بیان کا صبح سے ہی پنڈال میں چرچہ
تھا۔ مولانا کے بیان کی خبر پنڈال سے نکل کر اردگرد کی آبادی و مضافات تک
میں پھیل گئی جس کے باعث عوام کا جم غفیر جو پہلے ہی موجو تھا، میں بعد میں
زیادہ اضافہ ہوگیا۔ انہوں نے اڑھائی گھنٹے تک بیان کیا۔ مولانا کیوں کہ
صاحب علم اور صاحب عمل شخص ہیں اسی وجہ سے ان کے انداز بیان میں ایک خاص
اثر ہے جو عمومی طورپر ہر واعظ اور مبلغ میں نہیں ہوتی ۔ علم کا سمندر تو
وہ ہیں ہی ۔ وہ اپنے وعظ کے دوران کسی بھی لمحے شرکاء کو بوریت محسوس نہیں
ہونے دیتے۔ وقتا فوقتا شگفتہ انداز میں ان کی مسکراہٹوں کا سامان بھی اپنی
گفتگو میں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ مولانا کے اندر کی تڑپ اور آہیں
جو وہ اکثر امت کی شکستہ حالت کو محسوس کرکے بھرتے ہیں قابل دید ہوتی ہے۔
پرانو ں کے یعنی چار ماہ لگانے والوں کے جوڑ میں مولانا اکثر رائے ونڈ آتے
ہیں ان کا قیام اکثر ناول خان کی بلڈنگ میں ہوتاہے جہاں ان سے ملنے کیلئے
آنے والوں کا تانتا بندھا رہتاہے لیکن وہ دل کی بیماری اور اکثر خراب حالت
کے باوجود خندہ پیشانی سے لوگوں سے ملتے ہیں۔ وہ ہر اہل فن کا احترام او
راہل علم کی تعریف کرتے ہیں۔ ان کے اخلاق، دردو فکر، غم کے باعث ہزاروں
لوگوں کی زندگی کا رخ تبدیل ہوگیا ۔ مولانا کے بیانات بھی اکثر اعلی اخلا ق
وکردار کے درس کے حامل ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج مسلمانوں میں جو کمی سب سے
زیادہ ہے وہ اعلی اخلاق ہیں۔ آج مسلمان اپنے معاملات اور برے اخلاق کے باعث
دین کی اشاعت میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ مولانا طارق جمیل پاکستان
کے ہر طبقہ فکر میں مرد، عورت، بچے، بوڑھے، غرض کوئی ایسا مکتبہ فکر نہیں
ہے جو مولانا کے بیانات کو شوق سے نہ سنتا ہو۔ مولانا نے تعلیمی اداروں،
ایوانوں، خانقاہوں، مدارس، مراکز، مساجد، ہر جگہ اپنے پر اثر اور دلائل سے
بھرپور بیانات کے ذریعے امت مسلمہ کی توجہ دعوت و تبلیغ کی بڑی اور اہم ذمہ
داری کی طرف مبذول کروائی ہے۔ وہ امت میں بھی اختلاف اور فرقہ واریت کے سخت
خلاف ہیں ۔ مولانا کے مطابق امت مسلمہ حالت نزع میں ہے اسے جوڑ کی ضرورت ہے
نہ کہ توڑ کی۔ مولانا نے اپنی اعلی اوصاف اور مثبت انداز بیان کے باعث ہر
مسلک کے آدمی سے تعلق رکھاہے۔ انہوں نے کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا مولانا
کو موسیقی اور غیبت سے سخت نفرت ہے۔ یہ دونوں برائیاں آج امت مسلمہ میں کوٹ
کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ موسیقی کو مولانا زنا کا منتر بتاتے ہیں۔ ان کے
مطابق موسیقی سے انسان اﷲ سے اتنی دور چلا جاتاہے کہ واپس آنا مشکل
ہوجاتاہے۔ فرمایا کہ موسیقی کفر کا اشتہار اور ہے قرآن ایمان کی اذان ہے ۔
بدقسمتی سے آج اغیار نے اتنی محنت کی ہے کہ ہماری مساجد بھی موسیقی کی
دھنوں سے محفوظ نہیں رہیں۔ حتی کہ اب تو نعت رسول مقبول ﷺ بھی پرانے مشہور
گاہوں کی دھنو ں پر پڑھی جارہی ہیں۔ مولانا طارق جمیل کو اﷲ نے صرف پاکستان
میں مقبولیت نہیں دی بلکہ دنیا بھر میں وہ جہاں بھی جاتے ہیں ان کو لینے
کیلئے لوگوں کا جم غفیر ہوتاہے۔ عربی زبان میں انہیں کمال حاصل ہے۔ عربی
میں بھی ان کے بیانات نہایت فصاحت و بلاغت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ وہ عربی
بولتے ہوئے عجمی نہیں بلکہ عربی نظر آتے ہیں۔ مولانا نے جہاں شب و روزدعوت
و تبلیغ کی محنت او ر کاوش میں لگے ہوئے ہیں وہاں وہ اپنی بے پناہ مصروفیا
ت کے باوجود مدارس کے احیاء، ان کے پھیلاؤ ، چلانے، نظم وضبط، اخلاق و
ایمانی تربیت کے امور سمیت تمام چیزوں پر مکمل دسترس رکھتے ہیں۔ ان کی
سرپرستی میں تین مدارس دینی خدما ت میں کوشاں و سرگرداں ہیں۔ مولانا طارق
جمیل کے بیانات بکھری ہوئی امت مسلمہ کو نہ صرف راہ ہدایت پر لانے میں اہم
کردار ادا کررہے ہیں ۔ وہاں وہ دوسری جانب بکھری ہوئی پاکستانی قوم کو جو
آج قومیت، علاقائیت، تعصب، رنگ و نسل ، زبان کی بنیاد پر بٹی ہوئی ہے کو
ایک قوم بنانے میں بھی مدد گار ثابت ہورہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اﷲ تعالی
مولانا کو بھی خیر کے ساتھ لمبی عمر عطا کرے اور وہ ایسے ہی امت محمدیہ کی
فلاح و بہبود کا فریضہ سرانجام دیتے رہیں۔
|