بہادر شاہ ظفرؔکے ہم عصر شعرا : اثرات و نتائج
(Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi, Hyderabad)
ابو ظفر سراج الدین بہادر شاہ ہندوستان کے
آخری مغل بادشاہ اور کلاسیکی شعرا میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ بد قسمتی
سے انھیں اردو شاعری میں وہ مقام نہیں ملا جو ملنا چاہے تھا۔ ان کی شاعرانہ
عظمت نظر انداز کرنے کے اسباب میں محمد حسین آزادؔ کی پیدا کردہ غلط فہمی
ہو یا حالیؔ جیسے مشہورشاعر و ادیب کی یاد گار غالبؔ میں آزادؔ کے بیان کی
تائید،۔ یا پھر 1857ء کے بعد کے واقعات جن کی وجہ سے لوگ بادشاہ سے کسی بھی
قسم کا تعلق اور عقیدت رکھنے سے گھبراتے تھے۔ تذکرہ نگاروں اور نقادوں نے
بہادر شاہ ظفرؔ سے عجیب بے اعتنائی برتی اور انہیں مکمل طور پرنظر انداز کر
دیا۔رام بابو سکسینہ کی ’’تاریخ اردو ادب‘‘ ظفر ؔکی شاعرانہ خوبیوں کے بیان
سے خالی ہے۔ جب کہ محمد حسین آزادؔ کی ’’آب حیات ‘‘میں ظفرؔ کے شعری
کارناموں پر پانی پھیرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ آزادؔ نے ظفرؔ کے متعلق جو
بدگمانیاں پھیلائیںوہ آج تک اردو شاعری کے ہم جیسے ادنا طالب علموں کے لیے
ایک مسئلہ بنی رہی ہے۔ویسے یہ باتیں ظفرؔ کے شاعرانہ قد کو چھوٹا نہیں
کرتیں، ایسا ہر دور میں ہوتا آیا ہے۔ مومن خان مومنؔ کی مثال بھی کچھ ایسی
ہی ہے اور ماضی قریب اور حال میں بھی کئی اہم اردو شاعروں کے ساتھ بھی اسی
طرح کی نا انصافی ہوئی اور ہورہی ہےجو اہلِ نظر پر روشن ہے۔ظفرؔ کے بارے
میں آزادؔ کی لن ترانیوں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے مرزا حیرت ؔدہلوی
نےاپنی کتاب ’’چراغِ دہلی ‘‘ میں یوں اظہارِ خیال کیا ہے : ’’ یہ جو مشہور
ہے کہ استاد ذوق ؔ اشعار کہہ دیا کرتے تھے اور بہادر شاہ اپنے نام سے محفل
میں سنادیا کرتے تھے محض غلط اور بالکل لَغوہے ، جس کو کچھ بھی شعر گوئی
اور شعر فہمی کا مذاق ہوگا وہ سمجھ سکتا ہے کہ ذو قؔ اور ظفرؔ کے رنگ میں
زمین اور آسمان کا فرق ہے جب معمولی سے معمولی کنجڑے چھوکرے ، بھٹیارے اور
قصائی اشعار موزوں کرلیتے تھے تو کیا بہادر شاہ ظفر ایک شعر بھی موزوں نہیں
کرسکتے تھے ۔ شاعری کے معاملے میں بہادر شاہ کے متعلق یہ خیال بہت ہی رکیک
ہے۔‘‘ اسی طرح جب سرسید کے سامنے ظفر اور ذوق پر بحث ہوئی تو انھوں نے کیا
کہا اس پر روشنی ڈالتے ہوئے باباے اردو مولو ی عبدالحق نے "چند ہم عصر" میں
یوں اظہارِ خیال کیا ہے:" ایک بار ظفرؔ اور ذوقؔ پر گفتگو چھڑ گئی اور وہی
پرانی بحث دہرائی گئی کہ ظفر ؔکے سب دیوان ذوقؔ کے لکھے ہوئے ہیں سید صاحب
اس پر چیں بہ جبیں ہوئے اور فرمایا کہ وہ بادشاہ کاکلام تو کیا لکھتا قلعہ
کے تعلق سے خود ذوق کو زبان آگئی۔"
بہادر شاہ ظفرؔ جس دور میں پیدا ہوئے وہ مُغَلیہ سلطنت کا انتہائی زوال کا
دور تھا۔ اورنگ زیب عالمگیرسے لیکر ظفر تک 130سال کے عرصے میں 13بادشاہ بدل
چکے تھے۔ لیکن اس کے باوجود مغلیہ خاندان کی روایات اپنی جگہ پر تھیں۔ اہل
علم اور اہل کمال کی اب بھی سرپرستی ایسے ہی کی جاتی تھی جیسے اکبر اور
جہانگیر کے دور میں ہوتا تھا۔ بہادر شاہ ظفر نے ایک علمی اور ادبی ماحول
میں پرورش پائی اور اپنے زمانے کے اہل علم اور اہل فن کی صحبت سے فیض یاب
ہوئے۔ ان کے ذاتی محاسن اور ذہانت نے ان کے شاعرانہ ذوق کو مزید جلا
بخشی۔انھوں نے نثر کے میدان میں بھی جولانی بکھیری۔ ولی عہدی کے زمانے میں
ہی شاہ ظفر ؔاپنے علمی ذوق کی وجہ سے شہرت پا چکے تھے اور شعرا کی ایک کثیر
تعداد ان سے وابستہ تھی ۔سر سید نے تو ظفرؔ کے عہد کی علمی اٹھان کو دیکھتے
ہوئے "آثارالصنادید " میں اس دور کو ہند کا شیراز تک کہا ہے۔
ایسے زرخیز ماحول میں بہادر شاہ ظفرؔ جیسے فطری شاعر کو بڑی جِلا ملی۔
ابتدا میں شاہ نصیرؔ کے شاگرد تھے۔کچھ عرصہ کاظم حسین بے قرار ؔسے بھی
اصلاح لی اور آخر میں ذوقؔ اور غالبؔ کے شاگرد ہوئے ۔ظفرؔ کے دور میں جن
شعرا کا غلغلہ بپا تھا ان میں ذوقؔ ، غالبؔ، مومنؔ ، آزردہؔ، شیفتہؔ،
آتش، مصحفیؔ جیسے قدآور شاعروں کا شمار کیا جاسکتا ہے۔ ظفرؔ نے ان شعرا
سے اثرات قبول کیے جس کے نتیجے میں ظفرؔ کے کلام میں رنگارنگی اور تنوع
آگیا۔ لیکن کہیں کہیں بالخصوص شاہ نصیرؔ کی تقلید میں جذبات کی گیرائی کے
باوجود تاثیر میں کمی دکھائی دیتی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ شاہ نصیرؔ کی شاگردی
سے ظفر کے کلام میں پختگی آ گئی۔ شاہ نصیرؔ کی پیروی کرتے ہوئےظفرؔ نے نہ
صرف یہ کہ اپنا مخصوص رنگ قائم رکھا بلکہ اپنے استاد سے کہیں آگے نکل گئے۔
ظفر نے مشکل اور سنگلاخ زمینوں میں بہت بڑی تعداد میں زوردار غزلیں کہی
ہیں۔چونکہ ذوقؔ خود بھی شاہ نصیرؔ کے شاگرد تھے اور ایک حد تک مقلد بھی، اس
وجہ سے ظفر ؔاور ذوقؔ کے کلام میں کئی باتیں مشترک نظر آتی ہیں۔ لیکن ظفر
ؔمحاورہ بندی کے استعمال میں ذوقؔ سے بہتر شاعر دکھائی دیتے ہیں۔ ظفرؔ
کےکلیات میں غزلوں کے علاوہ مستزاد ، مخمس، مسدس، تضمین ، قصائد، نعتیہ،
شہر آشوب، دوہے، ہولی، ٹھمری ، خیال بھجن ، گیت ، مرثیہ، سلام، مجرا،
سہرا، پنکھااور قطعات بھی شامل ہیں۔ فارسی، بھاکااور پنجابی زبان میں بھی
متعدد غزلیں اور گیت ہیں۔
ظفرؔ کے کلام میں وہ تمام خوبیاںموجود ہیں جو ان کے معاصر شعرا کے ہاں پائی
جاتی تھیں۔شَکوہ الفاظ، دھیما پن، عمدہ انداز بیان ، رعایت لفظی اور محاورہ
بندی ظفرؔ ؔکے کلام کی چند خصوصیات میں سے ہیں۔ ظفر ؔکی شاعری پرمعاصر شعرا
بالخصوص شاہ نصیرؔ اور ذوقؔ کے روایتی اثرات بہت گہرے ہیں، کہیں کہیں یہ
اثرات ظفرؔ کے یہاں نئے ، اچھوتے اور البیلےانداز سے دکھائی دیتے ہیں اور
بعض مقامات پر روایت ہی کو مزید پکا اور مضبوط کرتے ہیں۔ جب کہ کہیں کہیں
شاہ نصیرؔ اور ذوقؔ کی طرح آورد و تصنع، کرتب اور بازی گری اور جذبات و
احساسات سے معرا موزوں گوئی بھی ملتی ہےجس کا حقیقی معنوں میں شاعرانہ
تخلیق سے کوئی تعلق نہیں جو کہ محض لفظی بازیگری ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں
جن میں آپ کو آورد اور تصنع کے ساتھ ساتھ روایتی اثرات صاف اور گہرے
دکھائی دیں گے ؎
لے گیا ایک ہی بار آنے میں دل اپنا ظفرؔ
ہوگا کیا دیکھیے جب وہ کئی بار آوے گا
رکھتا ہے راہِ محبت میں قدم گر اے دل
تو کمر بند سے ہمت کی کمر کھینچ کے باندھ
مرے مضمون سوزِ دل سے جل کے ہووے خاکستر
اگر نامے کو اپنے باندھ دوں بالِ کبوتر میں
مزید ایک غزل کے چند اشعار ؎
محبت چاہیے باہم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
خوشی ہو اس میں یا ہو غم، ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
ہم اپنا عشق چمکائیں تم اپنا حسن چمکاؤ
کہ حیراں دیکھ کر عالم، ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
ظفر سے کہتا ہے مجنوں کہیں درد دل محزوں
جو غم سے فرصت اب اک دم، ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
ظفرؔ کے کلام میں بہت سی ایسی خصوصیات ہیں جو اس زمانے کی شاعری میں عام
تھیں۔ان کے ہاں خوبصورت تشبیہات و استعارات کا استعمال ملتا ہے۔ محاورات
بھی مناسب انداز سے استعمال کیے گئے ہیں۔ظفر کے ہاں احساسِ جمال سوائے مومن
خان مومنؔ کے دیگر ہمعصر شعراسے بڑھ کر ہے۔ ظفرؔ کے اشعار میں دلکشی بھی ہے
اور اثر پذیری بھی ؎
کھول کر زلف سیہ اس نے جو دیکھا آئینہ
صاف دریا پر نظر کالی گھٹا سی آ گئی
زلف اس کی ہم سے بل کرنے لگی نا حق ظفرؔ
ورنہ کوئی وجہَ ایسی کج ادائی کی نہ تھی
نہ کر خیال کہ آئی گھٹا بہت سی ہے
ابھی تو شیشے میں مَے ساقیا بہت سی ہے
جب ہم ظفرؔ کی شاعری پر ہم عصر شعرا کے اثرات ونتائج کا جائزہ لیتے ہیں
توہمارے سامنے تین ادوار آتے ہیں۔پہلے دورکوتو نصیرؔ و ذوقؔ کے اثرات کا
کہہ سکتے ہیں جس کے نتیجے میں آورد ، تصنع، جذبات و احساسات سے معرا محض
لفظی بازی گری، سنگلاخ زمینوں ،مشکل ردیفوں اور ادق قوافی کااستعمال ظفر
ؔزیادہ کرتے ہیں،بہ قول خلیل الرحمٰن اعظمی :" جن کا حقیقی معنوں میں
شاعرانہ تخلیق سے کوئی تعلق نہیں۔" مثال کے طور پر چند ردیفیں نشانِ خاطر
کریں : ارض و مسا کے فلق ۔ قل اعوذ برب الفلق/ ہارون کی ارث ۔ مدفون کی
ارث/ مغرور کی گردن ۔ زنبور کی گردن/ سیارے جھڑے ۔ فوارے جھڑے/ گیسوے مشک
ناب کا قرص ۔ طباشیرِ آفتاب کا قرص / تری چشمِ مگس ۔ قفسِ چشمِ مگس/ رستم
کے دانت ۔ ضیغم کے دانت/ چسیدہ آنکھ ۔ طرۂ پیچیدہ آنکھ / چکن کی بوٹی ۔
خطِّ ذقن کی بوٹی/ لٹاڑ کے گانٹھ ۔ اکھاڑ کے گانٹھ/ کوہ کن کی پوٹ ۔ نسترن
کی پوٹ ۔۔ وغیرہ غیرہ کہاں تک ذکر کیا جائے ۔ نصیرؔ و ذوقؔ کے دبستان نے
اُس دور کے ادبی مذاق کو انحطاط کے قریب لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی جس
کی وجہ سے شعرا حقیقی شاعری سے دور ہوتے چلے گئے اور اس قسم کی استادی اور
پہلوانی کو ہی فن کی معراج سمجھ رہے تھے۔ اس سے ظفرؔ بھی متاثر ہوئے بغیر
نہ رہ سکے اوران کی شاعری ذوقؔ کے رنگ میں رنگتی چلی گئی۔ میرے نزدیک ظفر
ؔکی شاعری کا یہی وہ دور ہے جس کی وجہ سے محمد حسین آزادؔ نے انھیں تنقید
کا نشانہ بناتے ہوئے ظفرؔ کے کلام کو ذوقؔ کا کلام کہہ دیاشاید ان کے سامنے
ظفر ؔکی حقیقی شاعری نہیںتھی۔شاعری میں اس قسم کی لفظی کرتب بازیاں عارضی
طور پر تو اس زمانے میں پسند کی جاتی رہیں لیکن اب تو ایسی شاعری کوپڑھنے
سننے والے بھی نہیں ملتے۔ جب کہ اُس زوال پذیر ادبی مذاق کے زمانےمیں غالبؔ
جیسے عظیم شاعر کوبھی ناقدری کا شکار ہونا پڑالیکن آج تو اردو شاعری میں
غالبؔ ، غالب دکھائی دیتے ہیں۔اسی طرح ظفر ؔکا وہ کلام جو نصیرؔ و ذوقؔ کے
رنگ و آہنگ سے مملو ہے اسے بھی کوئی نہیں پوچھتا۔ جسے بعض ناقدین نے ظفر
ؔکی شعری کائنات میں بدنما داغ تک بھی قرار دیاہے۔
دوسرا دور: غالبؔ ، مومنؔ ، آتشؔ ،مصحفیؔوغیرہ کے اثرات کا دور کہہ سکتے
ہیں جس کے نتیجے میں ظفر ؔکی شاعرانہ صلاحیت نکھرکر سامنے آتی ہے ۔ اب
ظفرؔ کے اندر موزوں گوئی آتی ہے اور وہ جذبہ وتخیل کو بروے کار لاتے ہوئے
حقیقی شاعری کی طرف راغب ہوتے ہیں ۔زبان کی صفائی اور روزمرہ کی خوبی
پیداہوتی ہے۔ مضمون آفرینی اور تازگیِ خیالات سے ظفر ؔکے اشعار سجنے
سنورنے لگتے ہیں۔ ظفرؔ کی عام طور پر کامیاب اور شگفتہ غزلوں کو دیکھا جائے
تو ان پر اسلوبیاتی لحاظ سے مصحفیؔ اور آتشؔ کے ساتھ غالبؔ اور مومن ؔ کا
اثر معلوم ہوتا ہے۔ مصحفیؔ کے یہاں جو ایک طرح کی حسی کیفیت، لطافت، رنگ ،
خوشبو اورجذبات کی دھوپ چھاؤں اور آتش کی زبان میں جو تازگی ، شادابی ،
پختگی اور شیفتگی کی پرچھائیاں ابھرتی ہیںنیز غالبؔ کے ہاں زبان وبیان میں
ندرت اور ایجازو تراکیب کا جو معنیاتی و ساختیاتی نگار خانہ آراستہ ہے،اور
مومنؔ کا سب رنگ تغزل ،عشقِ مجازی کا آہنگ اور احساسِ جمال کی دل آویزی
کےگہرے نقوش ظفرؔ کے یہاں نمایاں طور پر ملتے ہیں۔ یہ بات اس لیے بھی قرینِ
قیاس ہے کہ ظفرؔ نے مصحفیؔ ،آتشؔ، غالبؔاور مومنؔ کی زمینوں میں بھی طبع
آزمائی کی ہےاور ذوقؔ و نصیرؔ کی طرز سےہٹ کر جہاں انھوں نے یہ روش اپنائی
وہاں ایک طرح سے انھیں اپنا فطری رنگ مل گیا۔ ظفرؔ کی اس قبیل کی شاعری میں
ہلکے اور گہرے ہر طرح کے رنگ ہیں ان کی وجہ سے ان کے کلام میں ایک پرلطف
تنوع اور ہمہ گیریت پیدا ہوگئی ہے ، اس اسلوب کی چند مثالیں نشانِ خاطر
کریں ؎
سوتے تھے چین سے ہم خوابِ عدم میں لیکن
شورِ ہستی نے ہمیں آہ ، جگا کے مارا
کوچے میں ترے تنہا ہر شب مجھے ہو جانا
دوچار گھڑی اپنا دل کھول کے رو جانا
کہوں میں کیا ترے احسانِ تیغ اے قاتل
کہ زخم زخم کے منھ سے دعا نکلتی ہے
صحبتِ گل ہے فقط بلبل سے کیا بگڑی ہوئی
آج کل سارے چمن کی ہے ہوا بگڑی ہوئی
پاسکے رمز و کنایہ کوئی کیا اس کے ظفر
جس کی اک بات میں سو طرحَ کے پہلو نکلے
تمہارے نقشِ کفِ پا کے بوسے لینے کو
زمیں پہ سایہ کے مانند آفتاب آیا
اب ظفرؔ کی ایک غزل ایسی بھی ملاحظہ کرتے چلیں جس کی فضا میں مصحفیؔ کا
پورا لب و لہجہ صاف جھلکتامحسوس ہوتا ہے ؎
پہلے تو ہم کو تری عشوہ گری نے مارا
اور اگر اس سے بچے کم نظری نے مارا
خوب پھڑکا تو مجھے کنجِ قفس نے مارا
شوقِ پرواز سے بے بال و پری نے مارا
ہمسری کا تری رفتار سے جب فتنہ نے
قہقہہ طنز سے اک کبکِ دری نے مارا
شفقِ صُبحَ سے ہے غرق بہ خوں چرخ ظفر
تیر ایسا تری آہِ سحری نے مارا
فراقؔ گورکھپوری نے اپنے ایک مضمون میں مصحفیؔ کی ایک خصوصیت پر خاص طور پر
زور دیا ہے۔اور وہ ہے ترستے رہنےکی کیفیت (ٹینٹالائزنگ) یعنی کسی کام کا
ہوتے ہوتے رہ جانا ۔ بہ قول خلیل الرحمٰن اعظمی : "یونان کی مائتھا لوجی
میں ایک دیوتا کی کہانی ہے جسے ایسی جگہ قید کردیا گیا تھا جس کے ایک طرف
پانی کا چشمہ اور دوسری طرف انگور کے خوشے تھے یہ پیاسا دیوتا ان دونوں کی
طرف بار بار لپکتا تھا لیکن یہ نعمتیں اس کی دسترس سے باہر تھیں۔ اس دیوتا
کا نام ٹینٹالوس تھا ۔" فراق نے یہ اصطلاح وہیں سے لی ہے۔مصحفیؔ کی یہ
شاعرانہ کیفیت ظفرؔ کے یہاں ایک مکمل حقیقت بن گئی ہے اوراس کے کردار کاایک
اہم عنصر ۔ اس کیفیت سے متعلق ظفرؔ کے اشعار نشانِ خاطر کریں ؎
دل میں ہے اپنے حسرتِ نظارۂ چمن
صیاد رکھ قفس کو ہمارے چمن کے پاس
حسرت اے طاقتِ پرواز کہ ہم اڑ نہ سکے
گر کے پھڑکا کیے دیوارِ گلستاں کے تلے
گزر جاتی ہے ساری رات کہتے کہتے ہم کو یہ
اب آتے ہیں اب آتے ہیں اب آتے ہیں اب آتے ہیں
کھلی ہوئی ہیں مری زیرِ خاک بھی آنکھیں
کسی کا آہ یہاں تک ہے انتظار مجھے
مہرباں صیاد ہوکر ہوگیا نامہرباں
دام سے ہم کو رہائی ہوتے ہوتے رہ گئی
نہ ملا قطرۂ مَے دور میں تیرے ساقی
خونِ دل بیٹھ رہے اپنا ہی پی کر جی میں
ظفر نے آتشؔ کی مشہور غزل ؎
یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
رات بھر طالعِ بیدار نے سونے نہ دیا
پر جو غزل لکھی اس کے چند شعر ملاحظہ ہو ں جس میں آتش کے رنگ و آہنگ کے
اثرات نمایاں دکھائی دیتے ہیں ؎
رات بھر مجھ کو غمِ یار نے سونے نہ دیا
صبح کو خوفِ شبِ تار نے سونے نہ دیا
شمع کی طرح مجھے رات کٹی سولی پر
چین سے یادِ قدِ یار نے سونے نہ دیا
اے دل آزار تو سویا کیا آرام سے رات
مجھے پل بھر بھی دلِ زار نے سونے نہ دیا
میں وہ مجنوں ہوں کہ زنداں میں نگہبانوں کو
میری زنجیر کی جھنکار نے سونے نہ دیا
اسی طرح غالبؔکے شعر ؎
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
کے تتبع میں لکھی گئی ظفرؔ کی غزل کےچند اشعار دیکھیں اورغالبؔ کے اثرات
کومحسوس کریں ؎
جو دل میں رکھے اور کرے منھ سے بیاں اور
ہر بات پہ اس کی ہو مجھے کیوں نہ گماں اور
کچھ چشمِ تر اور سوزِ جگر پر نہیں موقوف
افشاے محبت کے بہت سے ہیں نشاں اور
یہ شوقِ شہادت کی ہے تاثیر کہ قاتل
ہوتی ہے مرے خوں سے تری تیغ رواں اور
مینھ خوب برستا ہے جو ہوتی ہے ہوا بند
بہتے ہیں ظفرؔ اشک دمِ ضبطِ فغاں اور
مصحفیؔ اور آتش سے ہٹ کر ظفرؔ کی شاعری میں ایک اور لَے ہمیں ملتی ہے ۔
جسے ہم درویشانہ لَے کہہ سکتے ہیں ۔ اسمیں کچھ ضبطِ غم، کچھ سوگواری اور
کچھ بے نیازی کی ملی جلی کیفیت ہے ۔ اس کیفیت کا مکمل رچاؤ تو میر تقی
میرؔاور درؔد کے یہاں ملتا ہے ۔ لیکن ظفرؔ نے بھی لمبی بحروں میں اس کیفیت
کو سمونے میں خاصی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان غزلوں میں شاعر کا لہجہ ان
سادھوؤں اور جوگیوں کا سا ہے جو اپنے غم کو بھلانے کے لیے دیس دیس گھومتے
پھرتے رہتے ہیں۔ یہ لہجہ مومنؔ و غالبؔ کے عجمی لہجے سے ہٹ کر خالص
ہندوستانی آہنگ رکھتا ہے ، اور یہ ظفرؔ کے یہاں میرتقی میرؔاور دردؔ کی
تصوف رنگ شاعری سے اثرات قبول کرنے کے نتیجے میں آیا ہے ۔درویشانہ لَے سے
مملو چند اشعار ؎
مری آنکھ بند تھی جب تلک وہ نظر میں نورِ جمال تھا
کھلی آنکھ تو نہ خبر رہی کہ وہ خواب تھا کہ خیال تھا
پسِ پردہ سن کے تری سدا ، مرا شوقِ دید جو بڑھ گیا
مجھے اضطرابِ کمال تھا ، یہی وجد تھا یہی حال تھا
نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا
غمِ عشق تو اپنا رفیق رہا کوئی اور بَلا سے رہا نہ رہا
ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا ، وہ ہو کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
دنیا دارو! دنیا چھوڑو دنیا میں بدنامی ہے
اس دنیا کے ترک کیے سے ہوتی نیک نامی ہے
کس کی حمایت ڈھونڈیں ہم اور کس سے مرہم چاہیں ظفر
رکھتے نظر ہیں اپنے خدا پر وہ ہی ہمارا حامی ہے
یہی کیفیت ظفرؔ کو بھجن جیسی صنف کی طرف لے گئی اور وہاں اس کے لہجے میں
اور بھی نکھا رآگیا ؎
پیہم اگن نت مو ہے جراوے یا کا بھید کہوں کاسے
پی ہو پاس تو جی ہو ٹھنڈھا اپنی بپتا کہوں واسے
علاوہ ازیں ظفرؔ نے مصحفیؔ ، آتشؔ اور غالبؔ کی اور بھی کئی زمینوں کے
تتبع میں خوب صورت اور شگفتہ غزلیں لکھی ہیں ۔ اسی طرح میر ؔاور سودا ؔکی
غزلوں پر بڑی اچھی تضمینیں بھی لکھی ہیں جو ظفرؔ کا اپنے پیش رو اور ہم
عصرشعرا سے اثرات قبول کرنے کا ایک الگ اور اچھوتاانداز ہے ۔
تیسرا دور: ظفرؔ کا خود کااپنا رنگ اور لب و لہجہ ہے جو شاہ نصیرؔ اور ذوق
ؔکے دبستان سے نہ صرف یہ کہ الگ ہوجاتا ہے بلکہ تغزل ،شاعرانہ کیفیات اور
جمالیاتی رچاؤ کے اعتبار سے اب ظفرؔ کا کلام اردو غزل کےاس سرمائے کے قریب
آجاتا ہے جس کی آبیاری میرؔ ، قائمؔ ، یقینؔ، دردؔ، مصحفی ؔ، سوزؔ اور
آتشؔ جیسے شاعروں نے کی اور جن کے کلام کا منتخب حصہ اپنے اندر ایسی
تازگی، دل کشی اور تاثیر کا عنصر رکھتا ہے جس کی اپنی دائمی حیثیت ہے۔یہاں
ظفر ؔکی شاعری میں ایسی نشتریت ، گداز، درد، کرب، یاسیت ، نرماہٹ، غم
انگیزی ، مٹھاس، اثر انگیزی ، قیدِتنہائی کا دکھ ، ویرانگی ، ٹوٹ پھوٹ ،
عرش سے فرش پر آنے کی کسک ہے جو اردو غزل کے سرمائے میں اپنا جواب نہیں
رکھتی ، یہاں ظفر ؔکا لب ولہجہ اور رنگ و آہنگ اتنا منفرد ہوجاتا ہے کہ اس
پر کسی معاصر شاعر کے نہ تو اثرات دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی ظفرؔ کسی کے
مقلد۔ یہاں ظفرؔ ایک ایسے شخص کے روپ میں سامنے آتے ہیں جن کی زندگی کا
ایک ایک لمحہ اپنے غموں کی زنجیر سے الجھا ہوا ہے ،ظفرؔکا یہ شعر خاطر نشین
کریں ؎
شمع جلتی ہے پر اس طرح کہاں جلتی ہے
ہڈی ہڈی مری اے سوزِ نہاں جلتی ہے
کہنے کو تو ظفرؔ نے اپنی زندگی کا آخری دور رنگون کے بالاخانے میں اسیری
کے عالم میں بسرکیا۔ لیکن خالص ان کے رنگ و آہنگ میں رچی بسی ان کی شاعری
کا جائزہ لینےپر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پوری زندگی ایک طرح کی روحانی
کشمکش اور ذہنی جلا وطنی میں گذری۔ ایک مسلسل کچوکے دینے والاعذاب اور
ہڈیوں کو پگھلادینے والاغم ان کی شاعری کا اصل محرک لگتا ہے اور اس آگ میں
جل بھن کر انھوں نے اس تیسرے دور میں اپنی قوتِ متخیلہ سے جن جذبات و
خیالات کو شعری پیکر میں ڈھالا۔وہ ہمارے سامنے ایک زبردست کربیہ کردار کو
پیش کرتے ہوئےخالص ظفرؔ کے اپنے رنگ کا اظہاریہ بن گیااور یہی رنگ حزنیہ
شاعری کے نام سے مشہور ہوا۔ اپنی آگ میں جلنا ہی ظفرؔ کی شاعری کے بنیادی
عناصر میں سے ایک عنصر ہے، چند مثالیں دیکھیے ؎
سوزِ غمِ فراق سے اس طرح دل جلا
پھر ہوسکا کسی سے نہ ٹھنڈا کسی طرح
پھرے ہے پارۂ دل دیدۂ پُر آب میں یوں
جلا کے چھوڑ دے جیسے کوئی بھنور میں چراغ
گرمیِ دل سے ہیں یہ سینہ و پہلو جلتے
کہ نکلتے مری آنکھوں سے ہیں آنسو جلتے
اور بھڑکی آتشِ دل اور غم بڑھنے لگا
سانس جو ہم ٹھنڈی ٹھنڈی دم بہ دم لینے لگے
دیکھنا اک دن جلا کر خاک کردے گا مجھے
کام ہی میرے کبھی سوزِ دروں آجائے گا
آہ کب سینے سے اے ہم نفساں نکلے ہے
دل میں اک آگ سلگتی ہے دھواں نکلے ہے
ظفرؔ کی شاعری کا ایک اور عنصر زنداں کی وہ دیوار ہے ،جو ان کی زندگی کے
آخری ایام میں ان کا مقدر بن گئی تھی۔ جس کی دیواروں سے ٹکرا تے ہوئے ان
کے جسم و جان خستہ ہوگئے۔زنجیر کی جھنکار ان کی شاعری میں ان کے درد و کرب
کا اظہاریہ بن گئی اور رہائی کے لیے جدو جہد کا حوصلہ بھی۔ اردو کے کسی غزل
گو نے زنداں اور زنجیر کو اس تواتر و تسلسل کے ساتھ بطور علامت استعمال
نہیں کیا ہے جیسا کہ ظفرؔ نے ؎
میں وہ مجنوں ہوں کہ زنداں میں نگہبانوں کو
میری زنجیر کی جھنکار نے سونے نہ دیا
ایسے دیوانے کوئی ٹھہرتے ہیں زنداں میں
پاؤں پرتی ہے مرے آن کے زنجیر عبث
برپا نہ کیوں ہو خانۂ زنداں میں روز غل
میرے جنوں سے اب تو سلاسل پہ بن گئی
اے جنوں توڑ کے اب زنجیرِ درِ زنداں کو
جی میں ہے کھائیے اب چل کے بیاباں کی ہَوا
پڑا جو خانۂ زنداں میں غل خدا جانے
کہ میرے پاؤں کی زنجیر ہل گئی ہوگی
اس تیسرے دور میں ظفرؔ نے زنجیر و زنداں کے ساتھ ساتھ قفس و آشیاں اور
صیاد و عندلیب کوبھی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے، اردو کے اکثر شاعروں
نے ان کو رسماً استعارے کے طور پر برتا ہے جب کہ ظفرؔ کی یہ خصوصیت ہے کہ
ان کے یہاں یہ علامت ایک سچائی کے روپ میں منظر عام پر آئی ہے۔ جو ان کی
زندگی کی جیتی جاگتی حقیقت ہے ؎
دے اگر پروانگی صیاد تو دل کھول کر
اور بھی دوچار نالے ہم قفس میں کھینچ لیں
حسرت اے طاقتِ پرواز کہ ہم اڑ نہ سکے
گر کے پھڑکا کیے دیوارِ گلستاں کے تلے
مار ہی ڈالتا صیاد ہمیں پھڑکا کر
گر کبھی بھول کے ہم نامِ رہائی لیتے
نہ تنگ کیوں ہمیں صیاد یوں قفس میں کرے
خدا کسی کو کسی کے یہاں نہ بس میں کرے
ماحصل : اس تجزیے کے بعد اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ ظفرؔ کی شاعری میں
کئی طرح کی تبدیلیاں ہوئیں ۔ پہلے پہل ان کی شاعری پر شاہ نصیرؔ اور ذوقؔ
کے اثرات مرتَب ہوئے جس کے نتیجے میں ان کی شاعری میں جو آہنگ پیدا ہوا
اسکوبعض ناقدین نے ظفر کی شعری کائنات کا بدنماداغ قرار دیا ہے۔ جب وہ اس
حصار سے نکلے تو ان کے یہاں مصحفیؔ ،آتشؔ ، مومنؔ اور غالبؔ کارنگ چڑھنا
شروع ہوا اور ان کی شاعری ادب کے اس سرمائے سے قریب تر ہوگئی جس کی آبیاری
میرؔ ، قائمؔ ، یقینؔ، دردؔ، مصحفی ؔ، سوزؔ اور آتش جیسے شاعروں نے کی ۔
اس دور میں ظفرؔ کی شاعری میں تازگی، دل کشی اور تاثیر کا عنصر پیدا ہوگیا
۔ بعد ازاں جب ظفرؔ نے اپنے اندر کی آگ کو شعر ی پیکر میں ڈھالنا شروع کیا
تو ان کی شاعری میں ایسی نشتریت ، گداز، درد، کرب، یاسیت ، نرماہٹ، غم
انگیزی ، مٹھاس، اثر انگیزی ، قیدِتنہائی کا دکھ ، ویرانگی ، ٹوٹ پھوٹ ،
عرش سے فرش پر آنے کی کسک پیدا ہوگئی جو اردو غزل کے سرمائے میں اپنا جواب
نہیں رکھتی ، یہاں ظفر ؔکا لب ولہجہ اور رنگ و آہنگ اتنا منفرد ہوجاتا ہے
کہ اس پر کسی معاصر شاعر کے نہ تو اثرات دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی ظفرؔ
کسی کے مقلد ۔یہی شاعری ظفرؔ کی انفرادی شناخت بن گئی ۔بہ قول خلیل الرحمٰن
اعظمی :" کلام کی مقدار اصنافِ سخن کی رنگارنگی ، ہئیتی تنوع اور زبان و
بیان کے اعتبار سے اُس دور کا کوئی قادرالکلام استاد بھی ظفرؔ کی اس خصوصیت
کو نہیں پہنچتا۔ " ظفرؔ کا اردو شاعری پر بہت بڑا احسان ہے۔ ضرورت اس امر
کی ہے کہ بہادر شاہ ظفرؔ کو اردو ادب میں ان کا صحیح مقام دیا جائے۔اپنے
دور کے، غالبؔ اور مومنؔ کے بعد، بہادر شاہ ظفرؔ یقیناً تیسرے بڑے شاعر
ہیں۔ |
|