ساحرؔ: احترامِ انسانیت کا شاعر

سرزمین پنجاب کو یہ شرف حاصل ہے کہ قدرت نے جہاں اس کو زرخیز زمین عطا کی ہے،وہیں پر ایک پُرفضا ماحول ندیوں کا ایک شاندارسلسلہ صحت مند اور تواناانسانی نسل مذہبی اور صوفیانہ ماحول بھی بخشا ہے۔ ایک جانب بابا فریدرحمۃ اللہ علیہ اورگرونانک کی انسانی یکجہتی کی تعلیم سے سرفراز کیا ہے تو دوسری جانب اردو پنجابی زبانوں سے شعر وادب سے تعلق رکھنے والے آفتاب اور ماہتاب بھی پیدا کئے ہیں جنہوں نے شعر ی و نثری ادب سے لے کر فلمی دنیا تک میںاپنی فن کارانہ صلاحیتوںاور اپنی سحر بیانی کا لوہا منوایا۔عموماًپنجاب کی سرزمین خصوصاًلدھیانہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہیں پر اردو کے مقبول شاعروں میں ایک نامور سخن ور عبدالحئی نے 8 مارچ 1921ء کو ایک جاگیردار خاندان میں جنم لیا۔جوبعدمیںدنیاے شعر و نغمہ میں ساحرؔ لدھیانوی کے نام سے مشہور ہوا۔ساحرؔ کاتعلق کسی علمی اور ادبی گھرانے سے نہ تھا،اور نہ ہی اسے شاعری ورثہ میں ملی تھی ،انہوں نے جس ماحول میںا ٓنکھ کھولی اس میں ان کو بے اطمینانی بے چینی ذہنی خلفشاراور روحانی کرب کے سوا کچھ نہ ملا۔ اس کے باعث ساحر ؔاپنے آپ کواجنبی محسوس کرنے لگے۔معاشرہ کی مسلسل ناقدری کا زہر ان کے رگ و پَے میں سرایت کر گیا تھا۔جس کا علاج انھوں نے شاعری میں ڈھونڈا۔ساحرؔ کا مزاج ایک مبلغ اور مصلح کا رنگ رکھتا تھامگر ان کے اندر سماج کے بدنما ماحول کے خلاف بغاوت کا جذبہ بھی بدرجہ ٔ اتم موجود تھا۔وہ اپنے حساس ذہن کے اس بوجھ کواپنی شاعری کے وسیلے سے ہلکا کرتے تھے ۔ان کی شاعری میں جذبات اور احساسات کا ایک جہان پنہاں ہے جو زندگی کے چہرے کے بدنما داغوں کو نمایاں کرتا ہے ،اسی لئے وہ بے باکانہ انداز میںسماج پر طنز و نشتریت کاکاٹ دار وار کرتے ہیں۔مثال کے طور پر ؎
یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں
ساحرؔ کی بے پناہ مقبول نظموں میں ‘‘تاج محل’’ کو اتنا پسند کیا جاتا تھا کہ جب کبھی کسی مشاعرے میں ساحرؔ مائک پر آتے تھے تولوگ ‘‘تاج محل تاج محل’’ کہہ کر چلانے لگتے تھے۔ حالانکہ تاج محل پر ساحرؔ سے پہلے اور بعد میں بھی کئی شاعروں نے نظمیں لکھی ہیں، مگر اردو شاعر ی میں ساحرؔ تنہا ایسے شاعر ہیں جنہوں نے صدیوں سے محبت اور عظیم اور لاثانی یادگار مانے جانے والے ‘‘تاج محل’’ کے سائے میں اپنے محبوب سے ملنے سےانکار کردیا اور تاج محل کے بارے میں ایک بالکل نیا اور اچھوتا نظریہ عوام کےروبہ رو کیا۔ حالانکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس نظم کو لکھنے سے پہلے تک ساحر ؔنے تاج محل دیکھا بھی نہیں تھا۔اس نظم کے حوالے سے ساحرؔ کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ احمد ندیم قاسمی ؔ نظم تاج محل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:’’ یہ تاج محل کے بارے میں ایک نیا انداز فکر تھا، نئی سوچ تھی،جو نوجوانوں کے طبقہ میں بہت مقبول ہوئی۔‘‘ یہ نظم ساحرؔ کے شاعری کاشناخت نامہ ثابت ہوئی ۔پوری دنیا کے اردو داں حلقہ میں ساحر کے فن کو سراہا گیا۔جب ساحر نے گورنمنٹ کالج لدھیانہ کے مشاعرہ میں اپنی نظم تاج محل پڑھی تو ایسا محسوس ہواکہ پنجاب کے اس باغی شاعر نے شاہ جہاںکی محبت کی سب سے قیمتی یادگارتاج محل کو ڈائنا مائٹ لگا کر اڑا دیا ہواور اس مشاعرہ کی فضاؤں میں ایک اور تاج محل بلند ہوا جو ساحرؔ لدھیانوی کا تھا۔شاہجہاں کا تاج تو صرف آگرہ میں دریائے جمنا میں ہی اپنا عکس دیکھتا رہاجب کہ ساحرؔ کا تاج درۂ خیبر سے لے کرکنیا کماری تک پھیل گیا۔ظاہر سی بات ہے کہ ایک طرف اک شہنشاہ نے عورت کی محبت کا تاج محل بنایا تو اک شاعر نے اردو کی عظمت کا تاج محل بنایا اور دنیا دونوں کو لاثانی اور لافانی سمجھتی ہے۔مثال کے طور پر ایک بند حاضر ہے ؎
یہ چمن زار ہے یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش درودیواریہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
یہ نظم ایک تہی دست عاشق کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے ،ایک ایسا عاشق جس کے پاس اپنی محبوبہ کو دینے کے لئے سوائے خلوص اور سچائیوں کے کچھ بھی نہیں ہے۔نظم سے نظریاتی طور پر تو اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن جذبوں کی صداقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور یہ صداقت ہی نظم کو عام انسان کی نفسیات سے قریب کرتی ہے۔اس نظم کی زیریں رَو میں احترامِ انسانیت کا جو عنصر پنہاں ہے وہ قاری و سامع کو براہ راست متاثر کرتا ہے ۔
ساحرؔ کی شاعری محض زلف ورخسارکی آئینہ دار نہیں بلکہ پُر خیال ہے اور وہ انسان کو ذہنی خوراک مہیا کراتی ہے۔ اس کے دل ودماغ میں نئی نئی فکر کے بیج بوتی ہے، نئے نئے احساسات کو جنم دیتی ہے۔ وہ یقیناً ساحرؔ کی روح کی آواز ہے۔ وہ اس شاعر کی پکار ہے جس نے خوب دکھ سہے ، مصائب و آلام کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی شاعری کے حوالے سے ساری زندگی لمحہ لمحہ انسانی محبت کے چراغ روشن کرتے ہوئے گزاردی۔ساحرؔ نے اپنی شعری بصیرت سے احترامِ انسانیت کا ابلاغ کیا ۔ اُس کے اسلوب میں طرزِ احساس کی اک شایستگی ، دردمندی اور انسان دوستی کی خوب صورت پرچھائیوں کے ساتھ ساتھ سماج کے دبے کچلے طبقات پر ہونے والے مظالم کے خلاف صداے احتجاج بھی ابھرتی دکھائی دیتی ہے، ساحرؔ کی زبانی ؂
میَں شاعر ہوں مجھے فطرت کے نظاروں سے الفت ہے
مرا دل دشمنِ نغمہ سرائی ہو نہیں سکتا
مجھے انسانیت کا درد بھی بخشا ہے قدرت نے
مرا مقصد فقط شعلہ نوائی ہو نہیں سکتا
جواں ہوں میَں جوانی لغزشوں کا ایک طوفاں ہے
مری باتوں میں رنگِ پارسائی ہو نہیں سکتا
مرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے
کہ جب بھی دیکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو
غریبوں مفلسوں کو بے کسوں اور بے سہاروں کو
سسکتی نازنینوں کو، تڑپتے نوجوانوں کو
حکومت کے تشدد کو امارت کے تکبر کو
کسی کے چیتھڑوں کو اور شہنشاہی خزانوں کو
تو دل تابِ نشاطِ بزمِ عشرت لا نہیں سکتا
میَں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا
جہاں تک ساحر ؔکی مکمل شاعری کا تعلق ہے تو اس کو بہ قول جاں نثار اختر:ؔ ’’ایک مرصع سازی کہہ سکتے ہیں جس میں لفظ نگینوں کی طرح جَڑے نظر آتے ہیں ،وہ الفاظ کا انتخاب نہایت موزونیت کے ساتھ کرتے ہیں ،ان کے کلام میں کہیں بھرتی کے غیر موزوں الفاظ نہیں ملتے، نہ ہی ناروا تنقید ملتی ہے۔ساحر ؔکی لفظیات میں عام طور پر فارسی اور ہندی الفاظ کا متوازن امتزاج ملتا ہے ‘‘۔ساحر اپنی شاعری کے حوالے سے لوگوں کے دلوں کو ظلم وتشدد کے خلاف اٹھ کھڑ ا ہو نے کی ترغیب دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں عشقیہ رنگ کی آمیزش کرکے اسے مزیددلچسپ اور دلکش بنا دیا ہے ۔ساحر ؔشاعری کی فطری صلاحیت اور بے دریغ قوت لے کر آئے تھے ، وہ چاہے غزل کہیں یا نظم ہر حال میں شاعری کا پورا حق ادا کرتے نظر آتے ہیں ۔ساحر کی غزلوں میں فکر اور نظر کی وہی خوبیاںدکھائی دیتی ہیں جو ان کی نظموں میں کار فرما ہیں اور یہ ہر لمحہ اپنی تازگی اور توانائی کا احساس دلاتی رہتی ہیں۔غزلیں بھی نظموں کی طرح دقیع ہیں ،وہ اردو کے ساتھ ساتھ دیگر زبانوں کی لفظیات کے انسلاک سے اپنی شاعری میں تاثیر کارنگ بھرنے کا ہنر جانتے تھے اور اسی خوبی کے سبب وہ اپنے معاصر شعرا میں منفرد قرار دئیے جاتے تھے۔ ساحرؔ نے اپنی ابتدائی زندگی سے جن مجروح احساسات کے ساتھ زندگی گزاری ہے اُس نے ساحرؔ کی شخصیت اور شاعری دونوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ذاتی زندگی کی محرومیوں، شکستوں اور الجھنوں نے ساحرؔ کواس قدر پگھلا دیا تھا کہ ان میں صرف احساس ہی باقی رہ گیا تھا جس کے تار کسی مدھم سی تحریک سے جھنجھنا اٹھتے تھے جس کے نتیجے میں وہ ہر قسم کی ناانصافی کے صداے احتجاج بلند کرنے لگتے تھے ۔ان کی شاعری زندگی کے تجربات اور گھریلوحالات سے متاثر ہے،انہوں نے خود کہا ہے ؎
دنیا نے تجربات وحوادث کی شکل میں
جو کچھ دیا ہے مجھ کووہ لوٹا رہا ہوں میں
جہاں تک ساحرؔ کے مذہبی نظریات کا تعلق ہے تو وہ مذہب سے بے گانہ انسان تھا،ملحدانہ خیالات، باغیانہ افکار اور کمیونسٹ ذہنیت نے اسے مذہب سے بھی بغاوت پر آمادہ کر دیا تھاکیونکہ اس نے ایسے ماحول میں پرورش پائی تھی جہاں مذہبی اقدار کا فقدان تھا۔جب اس کا شعور پختہ ہوا تو اس کے ارد گرد کمیونسٹ احباب کا حلقہ تھالیکن مذہب سے بیگانگی کے باوجوداس کے دل میں انسانیت کا احترام اور درد تھا،وہ دنیا میں امن چاہتا تھا ،وہ آنے والے حادثات سے خوفزدہ تھا ، اسی لئے پریم کی جوت جگانا چاہتا تھا۔اس نے انسانیت اور محبت کی تبلیغ کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا،وہ امن عالم کا خواہاں تھے جس کی تکمیل کے لیے ساحرؔ کا عقیدہ تھا کہ جنگ و جدال کی چنداں ضرورت نہیں ؂
جنگ تو خود ہی اک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
کیوں کہ ساحرؔ کی نظر میں ؂
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
اسی لیے ساحرؔ ان لوگوں کو جو شرافت کا لبادہ اوڑھے پوری دنیا کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دینا چاہتے ہیں ، بڑے دل کش اندا ز میں کہتے ہیں کہ ؎
اس لیے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
ساحر کی شاعری کا محوراحترامِ انسانیت کا فروغ ہے،اس کے فلمی گیتوں کا مرکزی خیال بھی کم و بیش یہی ہے۔اس نے فلمی نغمہ نگاری کو ادب سے ہم رشتہ کیا ،یہ ساحرؔ کا بہت بڑا کارنامہ ہے ۔جہاں تک بالی ووڈ میں اردو شاعری کا تعلق ہے تو آرزوؔ لکھنوی کے بعد ساحر ؔاور مجروحؔ ہی تھے جو اپنی فلمی شاعری میں بھی اپنے ادبی آہنگ اور طمطراق کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے اور اپنے فن کو فلمی دنیا کی نذر نہیں ہونے دیا۔ساحر جب لاہور سے بمبئی آئے تو مجازؔ فلمی دنیا سے مایوس ہو کر واپس جا چکے تھے۔جاں نثار اخترؔ،کیفیؔ اعظمی وغیرہ کو محدود کامیابی ملی تھی، حسرت ؔجے پوری اور راجہ مہدی علی خاں کا بازار ٹھنڈا پڑ چکا تھا،شکیل ؔبدایونی اور راجندر ؔکرشن کو ساحر ؔسے سخت مسابقت کا سامنا تھا،ساحرؔ کی فلمی شاعری اِن شعرا سے قدرے آگے تھی۔
جذبات و احساسات کو چھو لینے کی طاقت رکھنے والی ساحر کی شاعری کو عام طور پر لوگ یہ سمجھ کر نظر انداز بھی کرتے ہیں کہ انھوں نے فلموں کے لیے نغمے لکھے ہیں ۔ لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ان کی شہرت فلموںمیں نغمے لکھنے سے قبل ہی عوام تک پہنچ چکی تھی ہاں! فلمی نغمہ نگاری سے ان کی شاعری کو کہیں نقصان نہیں پہنچا انھوں نے اس میدان میں قدم رکھتے ہوئے بھی اپنے نصب العین یعنی احترامِ انسانیت کے اظہاریےسے گریز نہیں کیا ۔ساحرؔ نے فلمی نغموں کو بھی ایک معیار عطا کیا ۔ ساحرؔ کے فلمی گیت کا صرف ایک بند ملاحظہ کریں جس میں ان کا انسانیت سے گہرا رشتہ صاف جھلکتا دکھائی دیتا ہے ؂
مالک نے ہر انسان کو انسان بنایا
ہم نے اسے ہندو یا مسلمان بنایا
قدرت نے تو بخشی تھی ہمیں ایک ہی دھرتی
ہم نے کہیں بھارت کہیں ایران بنایا
ساحر کی فلمی شاعری ہو یا سنجیدہ ہر جگہ ان کے فن کا احتجاجی طمطراق موجودہے ۔ ساحرؔ کے حوالے سے یہ کہا جا سکتاہے کہ انھوں نے تقریباً اپنے عہد کے تمام موضوعات کو اپنی شاعری میں سمونے کی کوشش کی ہے مگر کہیں بھی فن سےCompromiseنہیں کیا ۔ ان کا فنی شعور بہت بالیدہ اور جمالیات کا حامل ہے انھوں نے ترقی پسند عہد کے شعرا ء کا عمومی لہجہ کبھی اختیار نہیں کیا نرمیت وملائمیت ان کے اسلوب کی اہم خوبی ہے ۔وہ جنگ کی بات کریں یا زمانے کے کرب وانتشار ، یا محکومی اور استحصال کی ان کے لہجے میں کرختگی نہیں آتی ۔ان کے اشعار فنی رکھ رکھاو کے ساتھ ساتھ ادبی قدرو قیمت کے حامل ہوتے ہیں ۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ساحر ؔکا تعلق اگر تہذیبی اور ثقافتی اقدار سے ہے تو فنی اور جمالیاتی اقدار کے علمبرداروں میں سےبھی وہ ایک ہیں ؂
جوان رات کے سینے پہ دودھیا آنچل
مچل رہا ہے کسی خوابِ مرمریں کی طرح
حسین پھول، حسیں پتیاں، حسیں شاخیں
لچک رہی ہیں کسی جسمِ نازنیں کی طرح
ساحر کا کمال یہ ہےکہ انھوں نے اس انتشار کے عہد میں اپنی شاعری کو نعرہ بازی سے بچا لیا جب بلند آہنگی وقت کی ضرورت بھی تھی اور عہد کا رویہ اور رجحان بھی ۔ انھوں نے اپنے شعری اظہاریے میں جذبۂ احترامِ انسانیت کو ہمیشہ خوش اسلوبی سے برتا ۔بجائے اس کے کہ میں ان کی شاعری پر تبصرہ کروں چند مثالیں پیش کرتا ہوں تاکہ آپ خود ہی تجزیہ کر سکیں ؂
چرواہیاں رستہ بھول گئیں، پنہاریاں پنگھٹ چھوڑ گئیں
کتنی ہی کنواری ابلائیں ، ماں باپ کی چوکھٹ چھوڑ گئیں
افلاس زدہ دہقانوں کے ہل بیل بِکے ، کھلیان بِکے
جینے کی تمنا کے ہاتھوں جینے ہی کےسب سامان بِکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عصمتیں سر برہنہ پریشان ہیں
ہر طرف شور آہ و بکا ہے
اور میں اس تباہی کے طوفان میں
آگ اورخون کے ہیجان میں
سر نگوں اور شکستہ مکانوں کے ملبے سے پُر راستوں پر
اپنے نغمے کی جھولی پسارے
در بہ در پھر رہاہوں
مجھ کو امن اور تہذیب کی بھیک دےدو
ساحرؔ لدھیانوی کا اردو زبان سے ایک جذباتی رشتہ ہے اور یہ رشتہ غیر مشروط ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ایک بارشکیلؔ بدایونی نے یہ کہا کہ فلموں کے گیتوں کو آپ اردو نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس میں بہت سے ہندی برج اور کھڑی بولی کے الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔تو ساحرؔ نے کہا کہ فلمی گیتوں کی زبان صرف اردو ہے اور جو دیگر زبانوں کے الفاظ اس میں داخل ہو گئے ہیں وہ اردو کی ملکیت ہو گئے ہیں اور اس پر کسی اور زبان کا ٹھپہ لگانا ناانصافی ہو گی۔ساحرؔ کی اردو زبان سے وفاداری صرف زبانی جمع خرچ تک نہیں تھی بلکہ اس کے لئے انہوں نے عملی قدم بھی اٹھایا ۔’جب برسات کی رات ‘فلم کو سنسر بورڈ نے ہندی کا سرٹیفکیٹ دیا توساحرؔ نے احتجاج کیا اوراس کو اردو سرٹیفکیٹ دلوا کر ہی چین لیا۔
ساحر کے متعلق ایک بات کہی جاتی ہے کہ وہ اردو کے شاعر تھے اور ہندی کے نغمہ نگار،یہ عجیب معاملہ ہے کہ تخلیق جب مجموعوں کی زنیت بنی تو اردو رہی اور جب فلموں میں آ گئی توہندی ہو گئی ،آخرقومی پریس کی یہ کون سی منطق ہے جب کہ بحر ،علامتیں ،محاورہ اور استعارے سب کے سب اردو ہیں ۔ساحر سے جب ایک صحافی نے ہندوستان کے اردو کے مستقبل کے بارے میں پوچھا تو ان کا جواب تھاکہ اردو زبان کو مستقبل سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا،ہندوستان میں اردو کا وہی مستقبل ہے جو خود ہندوستان کا ہے یعنی جس رفتار سے تعصب اور تنگ نظری میں کمی ہو گی، اسی رفتار سے اردو اور ملک دونوں آگے بڑھیں گے۔کسی نے کہا ہے کہ ساحر ؔاردو شاعری کا پورا آدمی ہے کیونکہ ساحر نے ادب کے حوالے سے اپنے باغ بہشت سے نکل کر اذیتوں میں اپنی پناہ تلاش کی ،اور عوامی بھیڑ بھاڑمیں اپنے کھوئے ہوئے جذبے اور احساس دریافت کیا۔اگر ساحر اپنے جاگیر دار باپ کے گھر میں رہتے تو شاید زندگی کے بہت سارے تجربات اور حوادث سے محروم رہ جاتے،ساحر حقیقی معنوں میں ایک انسان تھااور اس دھرتی پر بسنے والے ہر انسان کا درد اس کا اپنا درد تھا۔اور اس کی خوشی بھی اس کی اپنی خوشی تھی ۔ساحر کی زندگی میں سرکشی تلخی دراصل ایک نفسیاتی رد عمل ہے۔۔۔۔اس سماج کے خلاف جہاں ایک باپ جبر اور اقتدار کی علامت بن کر ابھرتا ہے اور اپنی بیوی کو ایک پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے زوجیت کے حقوق سے محروم رکھتا ہے۔اسی لئے باپ سماج کے جس طبقے کا نمائندہ ہوتا ہے ،ساحر ؔکو اس طبقے سے نفرت ہو جاتی ہے ۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ساحر کی زندگی میں صرف ایک محبت ہے اور ایک نفرت ۔محبت صرف اس نے اپنی ماں سے کی ہے اور نفرت صرف اپنے باپ سے ۔اور محبت اور نفرت کی یہ دونوں علامتیں ساحر کی شاعری میں مختلف شکلوں میں نظر آتی ہیں۔ساحر لدھیانوی کی شاعرانہ شخصیت کا خمیر بذات خود تیار کیا ہوا ہے، وہ کسی کا مرہون منت نہیں ہے۔اسی لئے ساحر زمانے کے تقاضوں کے ساتھ خود نہیں بدلتے بلکہ زمانے کے تقاضوںکو بدلنے میں یقین رکھتے ہیں ۔
 
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 600956 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More