شہیدِ راہِ حجازحضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی

(متولد۱۲۲۸ھ/۱۸۱۳۔متوفی ۱۲۷۹ھ/۱۸۶۳ء)
غیر منقسم ہندوستان میں علم و فضل کے صدہا چراغ روشن کرنے والی عظیم المرتبت شخصیات میں ایک نمایاں نام حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی کا بھی ہے۔ ’’تواریخِ حبیب ِ الٰہ‘‘ اور ’’علم الصیغہ‘‘ جیسی مشہورِ زمانہ اور تاریخی کتب آپ کی شخصیت کاشناخت نامہ ہیں۔ برصغیر کے جملہ مدارسِ اسلامیہ میں آپ کی یہ تصانیف آج تک پڑھائی جاتی ہیں۔ مفتی عنایت احمد کاکوروی بن منشی محمد بخش بن منشی غلام محمد بن منشی لطف اللہ نسلاً قریشی اور مذہباً حنفی تھے۔ آپ کے آبا واجداد میں امیر حسام نام کے ایک فرد بغداد سے ہندوستان آئے اور دیوہ ، ضلع بارہ بنکی میں فروکش ہوگئے۔ امیر حسام کے فرزند ضیاء الدین دیوہ کے قاضی مقرر ہوئے ۔ یہیں آپ کی ولادتِ باسعادت ۹؍ شوال المکرم ۱۲۲۸ھ کو ہوئی۔کافی عرصہ آپ اپنے والدین کے ساتھ دیوہ میں مقیم رہے۔ جب والدِ گرامی منشی محمد بخش نےاپنی سسرال کاکوری ضلع لکھنؤ میں نقل مکانی کی تو آپ بھی اپنی نانیہال میں مستقلاً رہنے لگے۔ اسی نسبت سے آپ ’’کاکوروی ‘‘کہلائے۔

آپ کی ابتدائی تعلیم اول تو دیوہ میں ہی ہوئی بعدہٗ جب والد صاحب کے ساتھ کاکوری منتقل ہوئے تو وہاں تحصیلِ علم کا سلسلہ جاری رکھا۔ مزید اعلیٰ تعلیم کےحصول کی غرض سے آپ نے رام پور کا رخ کیا ۔ جہاں مولانا سید محمد رام پوری سے صرف و نحو اور مولانا نورالاسلام و مولانا حیدر علی سے دیگر علوم و فنون کی کتابیں پڑھیں۔ اس کے بعد دہلی میں مولاناشاہ محمد اسحٰق دہلوی(متوفی ۱۲۶۲ء/۱۸۴۸ء) سے حدیث کا درس لیا ۔ مولانا شاہ محمد اسحٰق دہلوی نے آپ کو سندِ حدیث سے نوازا۔ دہلی کے بعد علم کی پیاس نے آپ کو علی گڑھ کا سفر اختیار کرنے پر مجبور کیا جہاں اپنے عہد کے مشہور عالم و فاضل ،حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی و حضرت شاہ رفیع الدین کے شاگردِ رشید مولانابزرگ علی مارہروی( متوفی ۱۲۶۲ھ/۱۸۴۸ء)سے جامع مسجد علی گڑھ میں جملہ علوم عقلیہ و نقلیہ کی تکمیل کی اور یہیں پر منصبِ تدریس پر متمکن ہوئے۔ درس و تدریس کادائرہ پھیلتا رہا اور آپ کی فقہی بصیرت و بصارت کو دیکھتے ہوئے ۔ جامع مسجد علی گڑھ کی مسندِ افتا پر آپ کو فائز کردیا گیا۔دارالافتاء جامع مسجد علی گڑھ سے آپ نے امت مسلمہ کے فقہی مسائل کے حل کا فریضۂ خیر بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا۔

آپ کی خداداد صلاحیتوں ،محبت و خلوص اور درس و افتا میں مہارتِ تامہ کے سبب آپ کی شہرت اور نیک نامی دور دور تک پھیلتی گئی۔ آپ عوام و خواص کے مرجع بنتے گئے۔ یہاں تک کہ آپ کو گورنمنٹ کی ملازمت مل گئی ۔علی گڑھ میں بہ حیثیت جج آپ کا تقرر عمل میں آیا۔ پھر صدر امین بن کر بریلی تشریف لے گئے۔ علی گڑھ میں دورانِ تدیس جن طلبہ نے اکتسابِ فیض کیا اُن میںاستاذ الاساتذہ مفتی لطف اللہ علی گڑھی ( متوفی ۱۳۳۴ھ/ ۱۹۱۶ء) اور مولانا سید حسین شاہ بخاری چندے آفتاب چندے ماہ تاب بن کر دنیاے درس و تدریس میں چمکے ۔ اسی طرح قیامِ بریلی کے دوران صدرامین کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے آپ نے سلسلۂ درس و تدریس جاری رکھا۔یہاں آپ کے حلقۂ درس میں قاضیِ شہرقاضی عبدالمجید ، منصفِ شہر مولانا فدا حسین ، نبیرۂ حافظ رحمت خاں روہیلہ نواب عبدالعزیز خاں بریلوی جیسی مقتدر شخصیات شامل تھیں۔

حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی کو درس و تدریس سے بے پناہ لگاؤ اور شغف تھا۔ آپ عدالت میں جاری اجلاس کے دوران بھی اپنے طلبہ کو مقدمے سے فرصت ملتے ہی پڑھانے لگتے تھے۔ علم بانٹنے اور پھیلانے کی جو امنگ اور جوش وولولہ آپ کے اندر تھا نیز آپ کے تدریسی ذوق و شوق،طریقۂ تعلیم و تربیت، طلبہ سے محبت و مروت اور تقسیم علم کے جذبۂ خیر کااندازہ پروفیسر ایوب قادری بدایونی(کراچی) کی تحریر کردہ اس روایت سے ہوتا ہے:
’’مولانا سید حسین شاہ بخاری فرمایا کرتے تھے کہ مفتی صاحب مجھ کو ہدایہ اجلاس میں پڑھایا کرتے تھے۔ جیسے ہی کسی مقدمہ سے فرصت ہوئی ، اشارہ ہوا۔ میں پڑھنا شروع کردیتا ۔ پھر کوئی سرکاری کام آجاتا تو اس میں مصروف ہوجاتے ۔

اس دوگونہ مصروفیت کے باوجود مسائل اس طرح ذہن نشین کرادیئے کہ کبھی فراموش نہ ہوئے۔ آپ طلبہ سے خاص تعلق رکھتے تھے ۔ مولوی لطف اللہ صاحب کی تعلیم کے زمانہ میں ہی مفتی صاحب کا تبادلہ علی گڑھ سے بریلی ہوگیا تھا۔ مولوی لطف اللہ صاحب بریلی ساتھ گئے۔ وہاں جملہ کتبِ درسیہ ختم کیں۔

صبح کی نماز کے بعد مفتی عنایت احمد صاحب تلاوت کرتے تھے۔ مولوی لطف اللہ صاحب خدمت میں حاضر رہتے ۔دورانِ تلاوت کوئی مشکل صیغہ آتا تو مفتی صاحب خود حل کرکے بتاتے ۔ مفتی عنایت احمد صاحب نے فراغ کے بعد مولوی لطف اللہ صاحب کو اپنے ہی اجلاس کا سررشتہ دار مقرر کرلیا۔
(جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء ، از: پروفیسرمحمد ایوب قادری، بہ حوالہ : چند ممتاز علماے انقلاب۱۸۵۷ء،از: مولانا یٰسین اختر مصباحی، ص۱۱۸)

۱۸۵۷ء میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف شمالی ہندوستان میں انقلاب کی دستک ہوئی تو اس میں مفتی عنایت احمد کاکوروی نے نہایت اہم کردار ادا کیا ۔ آپ جہادِ آزادی کی تنظیم و تشکیل کے لیے شب و روز مصروف رہے ۔ بریلی ان دنوں آزادی کااہم مرکز تھا۔ اور آپ تحریکِ آزادی کے قائد و رہنما تھے ۔میاں عبدالرشید کالم نگار روزنامہ نواے وقت، لاہور کے بہ قول:
’’آپ بریلی میں نواب خان بہادر خاں روہیلہ کی زیرِ قیادت جہادِ حریت کی تنظیم کے لیے سرگرمِ عمل رہے۔ ان دنوں روہیل کھنڈ بریلی مجاہدینِ آزادی کا اہم مرکز تھا۔ اور مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے جد امجد مولانا رضا علی خاں بریلوی اس تحریک کے قائدین میں سے تھے۔ مفتی عنایت احمد نے مجاہدین کی تنظیم پرہی اکتفا نہ کیا بل کہ نواب خان بہادر خاں روہیلہ کے دستِ راست کی حیثیت سے مختلف معرکوں میں عملی حصہ بھی لیا۔‘‘ (جنگِ آزادی نمبر ، ترجمانِ اہل سنت کراچی ، شمارہ جولائی ۱۹۷۵ء)

مفتی عنایت احمد کاکوروی کی علمی صلاحیتوں اور لیاقتوں کی بنیاد پر اُن کو ۱۲۷۳ھ میں آگرہ کاصدرالصدور بنایا گیا ۔ آپ ابھی بریلی سے آگرہ جانے کی تیاریوں میں مصروف ہی تھے کہ مئی ۱۸۵۷ء کی جنگ کا آغاز ہوگیا اور آپ نے آگرہ جانا ترک کردیا اور بریلی و را م پور میں جنگِ آزادی کے لیے متحرک و فعال ہوگئے ۔نبیرۂ حافظ رحمت خاں روہیلہ نواب خان بہادر خاں نے روہیل کھنڈ کے علاقے میں انگریزوں کے خلاف ہندوستان کی آزادی کو جو پرچم اٹھارکھا تھا مفتی عنایت احمد کاکوروی اُس کے شانہ بشانہ تن من دھن سے شریکِ کار ہوگئےاور لوگوں کے اندر جذبۂ حریت کو بیدار کیا۔

مفتی عنایت احمد کاکوروی اپنے بریلی میں قیام کے دوران ’’جلسۂ تائیدِ دینِ متین‘‘ کے نام سے ایک تبلیغی و اصلاحی انجمن کی بنیاد ڈالی تھی۔ جس کے تحت آپ نے دینی لٹریچر کی نشرواشاعت کی۔اس انجمن کو بر صغیر کے مسلمانوں کا پہلا اصلاحی ادارہ کہاجاتا ہے۔جس بریلی ، بدایوں ، پیلی بھیت، مرادآباد ، آنولہ، امروہہ وغیرہ کے صاحبِ ثروت اور متمول افراد نے کافی مالی معاونت کی ۔ اس انجمن سے شائع ہونے والی کتب زیادہ تر مفتی عنایت احمد کاکوروی کی تالیف کردہ ہوتی تھیں ۔ یہ کتابیں اصلاحی اور تبلیغی موضوعات پر تھیں۔

جب ہندوستان میں پہلی جنگِ آزادی کی روح بیدار ہونا شروع ہوئی تو اس وقت انگریزوں کے خلاف علَمِ جہاد بلند کرنےاور مجاہدین کے لیے مالی امداد و اعانت پر ایک اہم فتویٰ بریلی میں جاری ہوا تو اس پر مفتی عنایت احمد کاکوروی نے اپنے دستخط ثبت کیےاور عوام و خواص میں روحِ آزادی پھونکنے میں عملی کردار ادا کیا۔ انگریزوں نے جب انقلاب ۱۸۵۷ء کو ناکام بنانے کے بعد علماے کرام اور قائدینِ انقلاب کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنا شروع کیاتو اس دوران بریلی کے اسی اہم فتویٰ کی بنیاد پر مفتی عنایت احمد کاکوروی کے خلاف بھی مقدمہ چلایا گیا دکھاوے کی خاطر معمولی سی سطحی عدالتی کارروائی کے بعد آپ کو سزاے کالا پانی کے طور پر جزیرۂ انڈومان بھیج دیا گیا۔ جہاں آپ نے چار سال تک قید و بندکی سخت مشقتیں جھیلیں۔انگریزوں کی طرف سے دیگر علما و قائدین کی طرح آپ پر بھی طرح طرح سے مصائب کے پہاڑ توڑے گئے۔حالتِ اسیری میں ابھی دوسال ہوئے تھے کہ ایک انگریز نے آپ سے مشہورِ زمانہ کتاب ’’تقویم البلدان‘‘کے ترجمہ کی خواہش ظاہر کی جسے آپ نے قبول فرماکر دوسال میں مکمل کردیا۔ اس اہم علمی کام سے متاثر ہوکر اُسی انگریز نے آپ کی رہائی کی راہیں ہموار کیں اور آپ ۱۲۷۷ھ/۱۸۶۰ء میں جزیرۂ انڈمان سے آزاد ہوکر ہندوستان واپس آئے۔

جزیرۂ انڈومان میں سزاے کالا پانی کے دوران مفتی عنایت احمد کاکوروی کی طرح قائدِ تحریکِ آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی بھی محبوس تھے ۔ ان دوعظیم المرتبت علماے کرام کی موجودگی سے انڈومان کا قید خانہ بھی علم و فضل اور دین و دانش کا ایک مرکز بن گیا۔ہمارے ان مقتدر اسلافِ کرام نے بہ حالتِ اسیری دین و ادب کی خوب خوب خدمت انجام دی۔ تصنیف و تالیف اور تحقیق و تفحص کاسلسلۂ خیر جاری رکھا جس کے نتیجے میں کئی اہم کتب و رسائل منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے۔ جزیرۂ انڈمان میں مفتی عنایت احمد کوروی اورعلامہ فضل حق خیرآبادی کی تاریخی وعلمی خدمات کے بارے میں مولانا عبدالشاہد شیروانی رقم طراز ہیں:
’’علامہ (فضل حق)جزیرۂ انڈمان پہنچے۔مفتی عنایت احمدکاکوروی صدرامین بریلی وکول،مفتی مظہر کریم دریابادی اور دوسرے مجاہدین علما وہاں پہنچ چکے تھے۔ان علما کی برکت سے یہ جزیرہ دارالعلوم بن گیا تھا۔ان حضرات نے تصنیف وتالیف کا سلسلہ وہاں بھی قائم رکھا۔خرابیِ آب وہوا،تکالیف شاقہ وجدائی احباب واعزہ کے باوجود علمی مشاغل جاری رہے۔

مفتی صاحب (مفتی عنایت احمد کاکوروی)نے ’’علم الصیغہ ‘‘ جیسی صَرف کی مفید کتاب جو آج تک داخلِ نصاب ہے وہیں لکھی ۔ سرکاری ڈاکٹر حکیم امیر خاں کی فرمایش سے ’’تواریخِ حبیبِ الٰہ‘‘ (1275ھ) بھی تالیف کی۔ ان دونوں کتابوں کے دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ ان حضرات کےسنیےمیں علم کے سفینے بن گئے تھے۔ تاریخی یادداشت ، ترتیبِ واقعات ، قواعدِ فنون ،ضوابطِ علوم سبھی حیرت انگیز کرشمے دکھارہے ہیں ۔ ‘‘
(باغی ہندوستان: ترجمہ: مولانا عبدالشاہد خاں شیروانی ، ص۲۲۵)

سزاے کالا پانی میں مفتی عنایت احمد کاکوروی کی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مرقومہ کتب اردومیں’’ تواریخِ حبیبِ الٰہ‘‘ اورفارسی میں ’’علم الصیغہ‘‘آپ نے بغیر کسی کتاب کی مدد سے محض اپنے خداداد حافظے کی بنیاد پر لکھیں۔ 1277ھ میں جب رہا ہوکر آپ واپس ہندوستان پہنچے اور ان دونوں کتابوں کا مواد اصل مراجع و مآخذ سے ملایا تو بالکل درست اور صحیح پایا۔ اللہ اللہ! اب اِن جیسی عظیم شخصیات اب کہاں؟

1277ھ/1860ء میں چار سالہ قید و بند کی صعوبتوں سے رہائی کے بعد ہندوستان آکر مفتی عنایت احمد کاکوروی نے کان پور کو اپنا دینی و علمی مرکز بنایا اور مدرسہ فیض عام ، کانپور کا قیام عمل میں لاکر ہمہ دم ہمہ تن درس و تدریس میں مشغول ہوگئے ۔مدرسہ فیض عام ، کان پور میں مسندِ تدریس آراستہ کرنے اور علوم و فنون کا فیض عام کرتے ہوئے دوسال ہونے کے بعد 1279ھ/ 1862ء میں اپنے دو عزیز شاگرد مولانا سید حسین شاہ بخاری کو صدر مدرس اور مولانا لطف اللہ علی گڑھی کو نائؓ صدر مدرس مقرر فرماکر حج و زیارت حرمین شریفین کے لیے سفر پر روانہ ہوئے۔ دیگر ہم سفروں نے آپ کے علمی جاہ و جلال کو دیکھتے ہوئے ’’امیر الحجاج‘‘ مقرر کیا۔ بڑے شوق و ذوق اور وارفتگی و شیفتگی کے ساتھ یہ مقدس سفر سوے حجاز روا ں دواں تھا ۔یہ قافلۂ حجاج بحری جہاز سے جوں ہی سرزمینِ حجاز کی سرحدوں میں داخل ہوا ایک سخت چٹان سے آپ کا جہاز ٹکرایا اور شدید ضرب سے پاش پاش ہوگیا۔حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی قدس سرہٗ باون برس کی عمر میں 17؍ شوال المکرم 1279ھ/ 17؍ اپریل 1863ء کو اپنے جملہ اہلِ قافلہ کے ساتھ شہید ہوکر رحمتوں کے سمندر میں ہمیشہ ہمیش کے لیے ڈوب گئے۔ خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔

حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی علم و فضل اور زہد و تقویٰ کے پیکر باعمل عالمِ دین تھے۔ آپ نے اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ دینِ متین کی خدمت اور تعلیم و تعلم میں بسر فرمائی۔ علوم و فنون کے جامع اور ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع المطالعہ اور ژرف نگاہ محقق و مصنف تھے۔ قوم و ملت کا درد اور انقلابِ امت کا جذبۂ خیر آپ کے سینے میں موجز ن تھا۔ آپ کی اصلاحی و تبلیغی تڑپ بھی نمایاں تھی۔ جس کے لیے آپ ہمہ دم ہمہ تن عملی کوششوں میں مصروف رہا کرتے تھے۔ آپ جہاں بھی رہے عوام و خواص کی توجہ کا مرکز رہے اوردینی و علمی کاموں میں نہایت فعال اور متحرک رہے۔

حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی کے کتب و رسائل کی تعداد تقریباً دودرجن ہے جو اس طرح ہیں:
علم الفرائض ، ملخصات الحساب ، تصدیق المسیح ردع کلمۃ القبیح، الکلام المبین فی آیاتِ رحمۃ للعالمین، نقشۂ مواقع النجوم۔ ان کے علاوہ شرح ہدایۃ الحکمۃ ، صدر شیرازی و تصدیقات حمداللہ و شرحِ چغمینی پر آپ کے جامع اور وقیع حواشی قابلِ دیداور فیض بخش ہیں۔

بریلی میں قیا م کی مدت میں بھی آپ نے تصنیف و تالیف کاسلسلہ جاری رکھا تھا جب کہ یہاں آپ کو بے پناہ مصروفیات تھیں۔ بریلی میں تالیف فرمودہ کتب اس طرح ہیں :
فضائل درود و سلام، بیانِ قدرِ شبِ برأت، فضائل علم و علماے دین، محاسن العمل الافضل مع التتمات، رسالہ در مذمتِ میلہ ہا، ہدایات الاضاحی، الدرالفرید فی مسائل الصیام والقیام و العید، ضمان الفردوس۔
علاوہ ازیں جزیرۂ انڈومان میں سزاے کالا پانی کے دوران تالیف کردہ کتب و رسائل کے نام یوں ہیں:
احادیث الحبیب المتبرکہ، تواریخِ حبیبِ الٰہ ، وظیفہ کریمہ، خجستہ بہار، علم الصیغہ، ترجمہ تقویم البلدان۔
سفرِ حج و زیارت کے دوران حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی اپنی ایک اہم ترین ’’بے نقطہ‘‘ کتاب’’ لوامع العلوم و اسرارالعلوم ‘‘ کا مسودہ ساتھ لے کر گئے تھے ۔ راستے میں نہایت عالمانہ و محققانہ انداز میں بڑی عرق ریزی اور جانفشانی اس کو مرتب فرمارہے تھے۔ افسوس ! کہ جہاز ٹکرانے سے یہ نہایت اہم ذخیرۂ علوم و فنون غرقِ سمندر ہوگیا اور دنیا ایک بڑے خزانے سے محروم رہ گئی۔
پروفیسرمحمد ایوب قادری اس کتاب کے بارے میں یوں لکھتے ہیں :
’’ اس میں چالیس علوم کا خلاصہ لکھنا پیشِ نظر تھا۔ ہر علم کا نام بھی بے نقطہ تھا۔ مثلاً علومِ التفسیر کانام علم کلام اللہ۔ علم حدیث کانام علم کلام الرسول۔ علم فقہ کا نام علم الاحکام ۔ وغیرہ۔
مفتی عنایت احمد صاحب نے چالیس فن کے ایک ایک مسئلہ کا انتخاب کیا تھا اور ہر مسئلہ پر چالیس ورق لکھنے کاالتزام اس صفت کے ساتھ کیا تھا کہ مسئلہ بھی بے نقطہ ہو اور اس پر پوری بحث بھی شگفتہ عبارت میں اسی التزام کے ساتھ کی جائے ۔ تفسیر میں وعلم آدم الاسماء کلہا کی آیت اور حدیث میں کل مسکرٍ حرام (رواہ مسلم) منتخب فرمائی تھی ۔ بڑا حصہ مکمل ہوچکا تھا ۔‘‘(جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء ، از: پروفیسرمحمد ایوب قادری، بہ حوالہ : چند ممتاز علماے انقلاب۱۸۵۷ء،از: مولانا یٰسین اختر مصباحی، ص۱۲۲)
اللہ کریم ہمیں اسلاف شناسی کے جوہر سے نہ صرف یہ کہ آراستہ فرمائے بلکہ اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بھی بخشے ۔ آمین!!

حاصلِ مطالعہ کتب:
(۱) تواریخِ حبیبِ الٰہ: مفتی عنایت احمد کاکوروی
(۲) بیانِ قدرِ شب برأت: مفتی عنایت احمد کاکوروی، مرتبہ: مولانا میثم عباس قادری رضوی
(۳) باغی ہندوستان(اردو ترجمہ): مولانا عبدالشاہد خاں شیروانی
(۴) قائدینِ تحریکِ آزادی(ہندی) : مولانا یٰسین اخترمصباحی
(۵)چند ممتاز علماے انقلاب ۱۸۵۷ء: مولانا یٰسین اخترمصباحی

 
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 650866 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More