عوام پر میڈیسن بم گرا دیا گیا۔۔۔۔حکومت بے بس؟

وزارت صحت کے ذیلی ادارے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی لاپرواہی کے باعث ملٹی نیشنل کمپنیوں نے غریب عوام پر میڈیسن بم گرا تے ہوئے مختلف بیماریوں کی ادویات کی قیمتوں میں 15فیصد سے70فیصد تک اضافہ کر دیا ہے جس سے غربت ،بے روز گاری اور مہنگائی کے مارے عوام کی پریشانی میں اضافہ جبکہ علاج و معالج کی سہولیات مشکل بنا دی گئی ہیں جبکہ اب حکومت کے بار بار کہنے کے باوجود کمپنیوں نے دواؤں کی قیمت واپس لینے سے صاف انکار کر دیا ہے جبکہ اس معاملے میں حکومت سے مذاکرات بھی نہیں کر رہے ہیں وفاقی وزیر صحت برائے قومی امور سائرہ افضل تارڈ کی بلائی گئی میٹنگ میں انڈسٹری کے گیارہ میں سے صرف ایک نمائندہ پیش ہوا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دوا ساز کمپنیاں حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے پر تلی ہوئی ہیں ،صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھاری منافع کمانے والی یہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے قیمتوں میں اضافہ بلا جواز ہے اگر ان کمپنیوں کے خلاف کاروائی نہ کی گئی تو مقامی فارما انڈ سٹری بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ادویہ میں اضافہ کرے گی ،اگر ڈرگ اتھارٹی قانون نافذ نہیں کر سکتی تو اس ادارے کو بند کر دینا چائیے جبکہ دوسری طرف فارما نے مصنوعی قلت پیدا کر دی گئی جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے فارما نے تین سال قبل بھی بغیر کسی منظوری کے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تھا اگر اس وقت حکومت کی طرف سے موثر کاروائی ہوتی تو ان کا حوصلہ نہ بڑھتا مگر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے پر سرار خاموشی اختیار کر لی ،ہمارے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ہر بات پر بھارت کی مشال دیتے ہیں تو راقم ان کی توجہ بھارت کی طرف لے جاتا ہے جہاں پر جان بچانے والی ادویات کی قیمتیں پاکستان کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم ہیں شاہد پاکستان کا شمار جنوبی ایشیا میں پہلے نمبر پر ہے جس میں ادویات کی قیمتں سب سے زیادہ ہیں جبکہ ہمارے ملک میں کبھی نرسیں ہڑتال پر ،کبھی ینگ ڈاکٹرز ہڑتال پر ،کبھی پیرا میڈیکل اسٹاف اور کبھی سینئر ڈاکٹرز بلیک میل کرتے نظر آتے ہیں ،ہر روز لمبی لمبی میٹنگ صحت کے مسائل پر ہوتی ہیں ،کبھی ان میٹنگوں میں گوروں کو بلا کر مدد لی جاتی ہے ،اور کبھی خود میاں صاحب اپنی دانش مندی کے جوہر دکھاتے ہیں ،کے پی کے میں کبھی ڈاکٹر ہڑتال پر ہوتے ہیں تو کبھی وزیراعلی کے پی کے مذاکرات کرتے ہیں ،پنجاب میں میاں شہباز شریف صاحب اور کبھی ان کے وزراء آج تک کوئی کھلی کچری لگانے کو تیار نہیں کھلی کچری ایک چڑیا تھی جو کب کی اس ملک سے اڑ گئی ہے صرف پنجاب ہی نہیں سندھ میں ’’سائیں سرکار‘‘ کے اہسپتالوں میں ننھے منے بچوں کی وارڈ پر چوہے حملہ آور ہو کر ان کے نرم ونازک حصوں کو نوچ ڈالتے ہیں ،کے پی کے ،بلوچستان سمیت آزاد جموں و کشمیر ،گلگت بلتستان میں کوئی وزیر اعلی یا کوئی وزیر کسی بھی سرکاری ہسپتال کے باہر کھلی کچری تو لگا کر دیکھیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ لوگ کتنے بھرے بیٹھے ہیں ،آپ کی ترجیحات میں کیا صرف اور صرف موٹر وے اور اورنج ٹرین ،میٹرو بس ہے ،آپ کو پتہ نہیں ہے کہ جس کا نوجوان بھائی ،بیتا ،والد ،والدہ ،بہن،اور ماں وینٹی لیٹر نہ ملنے سے مر جائے وہ ساری عمر اس غم میں کو نہیں بھول پائے گا اسے تو ہسپتال کے نام سے خوف آئے گا ،جناب وزیراعظم پاکستان اور وزراء اعلی صاحبان ایک سال میں صرف سرکاری اور پرائیوٹ اہسپتالوں کا آڈٹ کرایا جائے کہ ایک سال میں کتنے افراد اہسپتالوں میں وینٹی لیٹر نہ ملنے پر ،ادویات نہ ہونے پر ،ڈاکٹروں کی غفلت سے ،غربت سے ،بروقت طبی امداد نہ ملنے پر ،نرسوں کی عدم توجہی سے کتنے مریض اور زخمی چل بستے ہیں ،اورنج ٹرین ،میٹرو بس ،موٹروے منصوبے درست فیصلے نہیں ہیں ابھی بھی وقت ہے کہ ان منصوبوں کو روک کر ان پیسوں سے نئے سرکاری اور جو پہلے سے قائم ہیں ان اہسپتالوں کو اپ گریڈ کیا جائے ،جناب وزیراعظم پاکستان اور چاروں وزرا ء اعلی ، اے جے کے اور گلگت وبلتستان کے کرتا دھرتا سے آپ کے علم میں ہو گا کہ اب آپریشن تھیٹر ز اسٹیل باڈی کے بنائے جاتے ہیں تا کہ انفیکشن نہ ہو،یہ آپریشن تھیٹرز بغیر مشنیری آلات کے دس سے بیس لاکھ روپے میں تیار ہو جاتے ہیں کینسر کی تشخص کے لئے Betاسکین میشنری صرف چالیس کروڑ روپے کی آتی ہے ،ایک جدید ترین آپریشن تھیٹر ز ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے میں تیار ہوتا ہے،آج سرکاری اہسپتالوں کے حالات بدترین ہیں جبکہ حکومت پاکستان سمیت چاروں صوبائی حکومتیں بھی غلط بیانی پر لگی ہوئی ہیں ،میان محمد نوز شریف اور چاروں صوبائی وزرا ء اعلی آپ صرف ایک بار بھیس بدل کر صرف ایک دفعہ ہماری درخواست پر کسی بھی سرکاری ہسپتال میں مریض بن کر جائیں آپ بھلے پاکستان کے تمام تاریخی مقامات گرا دیں اب ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں مگر میاں صاحب خدارا اہسپتالوں کے معاملات کو درست کریں ، اب آپ میاں صاحب 70برس بعد فرما رہے ہیں کہ محکمہ صحت کے نظام کو درست کرنے کے لئے ریٹائرڈ کرنلوں اور میجروں کو لے کر آ رہے ہیں جن کی تنخوائیں ایک لاکھ 30ہزار روپے ماہانہ مقرر کر دی گئی ہے آپ نے پورے پنجاب میں27سیٹوں کے لئے سپورٹ منیجر زکے عہدے کے لئے بی اے /بی ایس سی تعلیمی قابلیت رکھنے والے ریٹائرڈ کرنلوں اور میجروں سے درخواستیں طلب کی ہیں ، اور ان کی عمر کی حد55برس رکھی گئی ہے اور تنخواہ میں بھی اضافہ مزید ہو سکے گا ،اس سے قبل میاں صاحب آپ نے ہسپتالوں کے لئے ایم بی اے پاس ایم ایس لگانے کا منصوبہ بنا چکے ہیں ،محکمہ صحت کو دو حصوں میں تقسیم کر کے گریڈ 19،19کے دو دو سیکرٹری لگا چکے ہیں،ڈی جی ہیلتھ بھی گریڈ 19کے ہیں جبکہ یہ سیٹیں گریڈ20کی ہیں ،کم گریڈ کے افسران کو بڑے گریڈ کی سیٹوں پر بٹھانا بھی آپ کی حکومت کی شاندار روایت ہے تاکہ یہ افسر آپ کے احسان مند رہیں، وزیر اعظم پاکستان نے آزاد کشمیر میں قومی صحت پروگرام شروع کرتے ہوئے فرمایا کہ غریبوں کی زندگی میں اب سکون آنا چائیے ،پاکستان میں سب اچھا ہو گا ،غریب علاج کے لئے جائیدادیں نہیں بیچیں گے اورغریبوں کی فلاح وبہبود میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گیاور وہ سیاست کو سیاست نہیں عبادت سمجھتے ہیں ،میاں محمد نواز شریف ہمیشہ ایسی خوبصورت باتیں اور اعلانات کرتے ہیں مگر حقیقت میں عوام کو کیا ملتا ہے یہ سب جانتے ہیں ، مسلم لیگ (ن) کی حکومت مرکز اور پنجاب کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں بھی ہے اور کئی مرتبہ برسر اقتدار آئی ہے مگر کوئی ایسی اسکیم جو چلتی نظر آتی ہو جس کے ثمرات سے عوام کو فائدہ پہنچا ہو ،ایک لمبی فہرست حکومت کے ناکام منصوبوں اور اسکیموں کی ہے ،یےلو کیب پہلے ہی بری طرح ناکام ہوئی ،اب پھر شروع کر دی گئی ہے گرین رکشہ اور گرین پک اپ اور لوڈر شروع کر دئیے گئے ،ماضی میں موبائل ہیلتھ یونٹ،سستی روٹی کا منصوبہ بھی بری طرح ناکام ہوا،دانش اسکولز ناقص منصوبہ بندی کی ایک تصویر ہیں ،پہلے سے قائم اسکولوں کی حالت ٹھیک کرنے کی بجائے نئے اسکولز بنانے کی کہاں کی دانش مندی۔۔۔؟اورنج ٹرین نے پورے لاہور کاحلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے ،ہائی کورٹ کئی مرتبہ اس منصوبے پر اعتراض کر چکی ہے ،جلد بازی میں پل بنائے جارہے ہیں کہ صرف چند برسوں میں زمین پر آرہے ہوں گئے ،کئی مرتبہ نواز شریف اور شہباز شریف یہ اعلان کر چکے ہیں کہ غریبوں کا علاج ’’مفت‘‘ کریں گئے ،یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔؟جنرل مشرف کے دور میں سات کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے اب پاکستان کے انتہائی ’’قابل فخر‘‘وزیر خزانہ اسحاق دار فرماتے ہیں کہ دس کروڑ افراد کی روزانہ آمدنی ایک ڈالر سے بھی کم ہے ،یہیں سے آپ اندازہ لگا لیں کہ ترقی کا سفر کس قدر آگے جا رہا ہے ، 68برسوں میں ہم نے یہ کمایا ہے کہ آج ساراملک قرضے کے اندر ڈوبا ہوا ہے ،چین ،ترکی اور برطانیہ کئی دوسرے ممالک کی کئی کمپنیاں اس ملک میں کام کر رہی ہیں ،ہم تو اپنے ملک میں سفائی کا نظام بھی درست کرنے کے لئے بھی ترکی کی کمپنی سے مدد لے رہے ہیں ،پولیس کے نظام کو درست کرنے کے لئے بھی ترکی کی پولیس کی مدد لے رہے ہیں ،چین بجلی گھر اور پتہ نہیں کیا کیا کام کر رہا ہے ،برطانیہ سے اپنا تعلیمی معیار بہتر بنانے کے لئے معاہدے کئے جارہے ہیں ،ہمارے ساتھ ہم سے جدا ہونے والے مشرقی پاکستان ( اب بنگلہ دیش) نے ترقی کے زینے طے کر لینے ہیں اور ہم ترکی اور چین والوں کو بلا کر ان کے ساتھ ایم او یو اور دیگر معاہدے کر کے یوں تالیاں بجاتے ہیں جیسے ہم نے کوئی ملک فتح کر لیا ہو ، صحت کی سہولیات فراہم کرنے کی بجائے مگر حکمران یہ سمجھتے ہیں کہاورنج ٹرین اور میٹرو بس ہی ترقی کا زینہ ہے حالانکہ یہ ایک ناقص سوچ ہے ،پاکستان میں ہر سال لاکھوں افراد صحت کی سہولیات نہ ملنے پر خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں ،خطرناک بیماریوں میں انتہائی خطرناکامراض میں مبتلا ہونے والے سرطان’’Cancer‘شوگر،ہیپاٹائٹس شامل ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ ڈینگی بہت خطرناک اور جان لیو بیماری ہے اور یہ یہ بھی مانا کہ پنجاب میں اس پر شہباز شریف اور خواجہ سلمان رفیق نے بہت کام کیا اور اب پنجاب میں اس طرح ہیں کی خطرناک صورتحال پیدا نہیں ہوئی ہے ،پاکستان میں ہر سال کینسر کے پانچ لاکھ نئے مریض آرہے ہیں اور ساٹھ فیصد لوگوں کو علاج کی سہولت میسر نہیں ،آج ہر کوئی جانتا ہے کہ سرطان کا علاج کتنا مہنگا ہے ،حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کے مکان ،گاڑیاں اور موٹر سائیکل تک فروخت ہو گئیں ،جناب میاں صاحب آپ کے ہاں جو لوگ اس قسم کے فیصلے کر رہے ہیں یقینا وہ آپ کی حکومت کو بدنام کر رہے ہیں ،ہمیں معلوم ہے کہ آپ درددل رکھنے والے انسان ہیں مگر آپ کے اردگرد ہیں جو آپ سے غلط فیصلے کرا رہے ہیں ،حکومت کی ترجیحات میں صحت ،ہسپتال،نرسیں،وینٹی لیٹر نہیں مگر صرف اوررنج ٹرین اور میٹرو بس ہے ،کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایک میڈیکل سٹور پر لکھا تھا کہ آپ اپنے زیورات ،قیمتی اشیاء اور گھر کے کاغذات گروی رکھ کر ادویات حاصل کر سکتے ہیں ،اب اس ملک کی بے بس عوام علاج نہیں ادویات کے لئے زیورات اور گھر کے کاغذات رکھوا رہے ہیں ،اے وقت کے حکمرانوں ’’کوئی شرم ہوتی ہے ،کوئی حیا ہوتی ہے ،مگر لگتا ہے کہ ’’نہیں ہوتی ہے‘‘۔۔۔۔سول سوسائٹی جو ہر ایونٹ پر ’’موم بتیاں ‘‘ جلانے کی عادی ہے کیا وہ بھی اتنی سگندل ہو گی ہے کہ ’’سرکاری ہسپتال ‘‘ میں اے سی نہیں بجلی نہیں مگر سامنے میٹرو بس کے اسٹاپ پر اے سی چل رہا ہے ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 43916 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.