سیّدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ افضل البشر بعدْ الانبیاء ہیں

علمائے اہلسنّت و جماعت کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ سرکار اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :سوائے نبی کے اور کوئی شخص ایسا نہیں کہ جس پر آفتاب طلوع اور غروب ہوا ہو اور وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے افضل ہو۔ مطلب یہ ہے کہ دْنیا میں نبی کے بعد اْن سے افضل کوئی پیدا نہیں ہوا اور ایک دوسری حدیث میں آقائے دوعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا ہے : حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لوگوں میں سب سے بہتر ہیں علاوہ اس کے کہ وہ نبی نہیں ہیں۔ ایک بار حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ منبر پر رونق افروز ہوئے اور فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ افضل الناس یعنی لوگوں میں سب سے افضل ہیں۔ اگر کسی شخص نے اس کے خلاف کہا تو وہ مفتری اور کذاب ہے۔ اس کو وہ سزا دی جائے گی جو افترا پردازوں کے لئے شریعت نے سزا مقرر کی ہے اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:اس امت میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ تعالی عنہما ہیں۔ علامہ ذہبی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا یہ قول ان سے تواتر کے ساتھ مروی ہے۔ (تاریخ الخلفاء ص ۳۱)

سیّدنا صدیق اکبررضی اﷲ عنہ کے فضائل و مرتب احادیث کے آئینے میں
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی فضیلت اور اْن کی عظمت کے اظہار میں بہت سی حدیثیں وار دہیں۔ ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ سرکار اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی شخص کے مال نے مجھ کو اتنا فائدہ نہیں پہنچایا ہے جتنا فائدہ ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے۔ (مشکوٰۃ شریف ص ۵۵۵ ) ٭ یہ حدیث شریف بھی ترمذی میں ہے کہ آقائے دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا : غارِ ثور میں تم میرے ساتھ رہے اور حوض کوثر پر بھی تم میرے ساتھ رہو گے٭ ترمذی شریف میں حضرت عائشہ صدیقی رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ میرے والد گرامی حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے فرمایا ’’ تمھیں اﷲ نے جہنم کی آگ سے آزاد کردیا ہے۔ ‘‘ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اسی روز سے میرے والد محترم کا نام عتیق پڑ گیا۔ ( مشکوٰۃشریف ۵۵۶ ) ٭ ابوداؤد شریف کی حدیث ہے کہ رسول کریم علیہ الصلوٰۃوالتسلیم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’ اے ابوبکر! سن لو کہ میری اْمت میں سب سے پہلے تم جنت میں داخل ہو گے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف ۵۵۶ ) ٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک چاندنی رات میں جبکہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا سرمبارک میری گودمیں تھا میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ! کیا کسی شخص کی نیکیاں اتنی بھی ہیں جتنی کہ آسمان پر ستارے ہیں۔ آپ نے فرمایاہاں۔ عمر کی نیکیاں اتنی ہی ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ پھر میں نے پوچھا اور ابوبکر کی نیکیوں کا کیا حال ہے ؟ حضور نے فرمایا عمر کی ساری نیکیاں ابوبکر کی ایک نیکی کے برابر ہیں۔ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما (مشکوٰۃ۵۶۰ ) ٭حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ابوبکر سے محبت کرنا اور اْن کا شکر ادا کرنا میری پوری اْمت پر واجب ہے۔ (تاریخ الخلفاء، ص ۴۰) ٭ حضرت ابو دردا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آئے اور سلام کے بعد اْنہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! میرے اور عمر بن خطاب کے درمیان کچھ باتیں ہو گئیں پھر میں نے نادم ہوکر اْن سے معذرت طلب کی لیکن اْنہوں نے معذرت قبول کرنے سے انکار کردیا یہ سن کر حضور نے تین بار ارشاد فرمایا کہ اے ابوبکر اﷲ تعالیٰ تم کو معاف فرمائے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی حضور کی بارگاہ میں آگئے ان کو دیکھتے ہی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چہرۂ اقدس کا رنگ بدل گیا۔ حضورﷺ کو رنجیدہ دیکھ کر حضرت عمر دو زانو بیٹھے اور عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول میں ان سے زیادہ قصور وار ہوں تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ جب اﷲ نے مجھے تمہاری جانب مبعوث فرمایا تو تم لوگوں نے مجھے جھٹلایامگر ابوبکر نے میری تصدیق کی اور اپنی جان و مال سے میری غمخواری و مدد کی۔ تو کیا آج تم لوگ میر ے ایسے دوست کو چھوڑ دو گے ؟ اور اس جملہ کو حضور نے دو بار فرمایا۔ (تاریخ الخلفاء، ص۷ ۳)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا عہد طفلی اور بت شکنی
زمانۂ جاہلیت میں بھی آپنے کبھی بْت پرستی نہیں کی ہے۔ آپ ہمیشہ اس کے خلاف رہے۔ یہاں تک کہ آپ کی عمر شریف جب چند برس کی ہوئی تو اسی زمانہ میں آپ نے بت شکنی فرمائی۔ جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت فاضل بریلوی علی الرحمۃ والرضوان اپنے رسالۂ مبارکہ ’’تنزیہ الکمانۃ الحیدریہ ‘‘ ص ۳ ۱؍میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے والد ماجد حضرت ابوقحافہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ (کہ وہ بھی بعد میں صحابی ہوئے ) زمانہ جاہلیت میں انہیں بت خانہ لے گئے اور بتوں کو دکھا کر ان سے کہا ’’ یہ تمہارے بلند و بالاخدا ہیں انہیں سجدہ کرو ‘‘ وہ تو یہ کہہ کر باہر چلے گئے۔ سیّدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قضا ئے مبرم کی طرح بت کے سامنے تشریف لائے اور برائے اظہارِ عجز صنم و جہل صنم پرست ارشاد فرمایا ’’ مَیں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے۔ ‘‘وہ کچھ نہ بولا۔ فرمایا ’’ میں ننگا ہوں مجھے کپڑا پہنا۔ ‘‘ وہ کچھ نہ بولا۔ صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک پتھر ہاتھ میں لے کر فرمایا میں تجھ پر پتھر مارتا ہوں اگر تو خدا ہے تو اپنے آپ کو بچا۔ وہ اب بھی نرابت بنا رہا۔ آخر آپ نے بقول صدیقی اس کو پتھر مارا تو وہ خدائے گمراہاں منہ کے بل گر پڑا۔ اسی وقت آپ کے والد ماجد واپس آرہے تھے۔ یہ ماجرا دیکھ کر فرمایا کہ اے میرے بچے تم نے یہ کیا کیا ؟ فرمایا کہ وہی کیا جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ آپ کے والد انہیں ان کی والدہ ماجدہ حضرت ام الخیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس (کہ وہ بھی صحابیہ ہیں ) لے کر آئے اور سارا واقعہ ان سے بیان کیا۔ انہوں نے فرمایا اس بچے سے کچھ نہ کہو کہ جس رات یہ پیدا ہوئے میرے پاس کوئی نہ تھا میں نے سنا کہ ہاتف کہہ رہا ہے ’’اے اﷲ کی سچی باندی !ً تجھے خوش خبری ہو اس آزاد بچے کی جس کا نام آسمان میں صدیق ہے اور جو محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یارو رفیق ہے۔

صدیقی یقین کے نرالے نمونے
شب معراج کی صبح بہت سے مشرکین حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کو کچھ خبر ہے ؟ آپ کے دوست محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کہہ رہے ہیں کہ انہیں رات کو بیت المقدس اور آسمان وغیرہ کی سیر کرائی گئی ہے۔ آپ نے کہا کیا واقعی وہ ایسا فرمارہے ہیں ؟ ان لوگوں نے کہا ہاں وہ ایسا ہی کہہ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا۔ اگر وہ اس سے بھی زیادہ بعید از قیاس اور حیرت انگیز خبر دیں گے تو بیشک میں اس کی بھی تصدیق کروں گا۔ اور غزوۂ بدر میں آپ کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن کفار مکہ کے ساتھ تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اْنہوں نے اپنے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے کہا کہ آپ جنگ بدر میں کئی بار میری زد میں آئے لیکن میں نے آپ سے صرف نظر کی اور آپ کو قتل نہیں کیا۔ اس کے جواب میں صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا اے عبدالرحمن ! کان کھول کر سن لو کہ اگر تم میری زد میں آجاتے تو میں صرف نظر نہ کرتا بلکہ تم کو قتل کرکے موت کے گھاٹ اْتار دیتا۔

سیّدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی شجاعت
حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ سارے صحابہ میں سب سے زیادہ شجاع اور بہادر بھی تھے۔ علامہ بزار رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ اپنے مسند میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے لوگوں سے دریافت کیا کہ بتاؤ سب سے زیادہ بہادر کون ہے ؟ ان لوگوں نے کہا کہ سب سے زیادہ بہادر آپ ہیں۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا میں تو ہمیشہ اپنے جوڑ سے لڑتا ہوں۔ پھر کیسے میں سب سے بہادر ہوا۔ تم لوگ یہ بتاؤ کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے۔ لوگوں نے عرض کیا حضرت ہم کو نہیں معلوم ہے آپ ہی بتائیں۔ آپ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ شجاع اور بہادر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ہیں۔ سنو ! جنگ بدر میں ہم لوگوں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کیلئے ایک عریش یعنی جھونپڑا بنایا تھا تاکہ گرد و غبار اور سورج کی دھوپ سے حضور محفوظ رہیں۔ تو ہم لوگوں نے کہا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ کون رہے گا ؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان پر کوئی حملہ کردے۔ یعنی تو خدا کی قسم اس کام کیلئے سوائے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے کوئی آگے نہیں بڑھا آپ شمشیر برہنہ ہاتھ میں لے کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوگئے پھر کسی دشمن کو آپ کے پاس آنے کی جرأت نہیں ہوسکی اور اگر کسی نے جرأت بھی کی تو آپ اس پر ٹوٹ پڑے۔ اسلئے حضرت ابو بکر صدیق ہی سب سے زیادہ شجاع اور بہادر تھے۔ ( تاریخ الخلفاء،ص ۲۵)

صدیق کیلئے ہے خداکا رسول بس
حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ اﷲ کے راستے میں خرچ کرنے اور سخاوت کرنے کے بارے میں بھی سارے صحابہ پر فوقیت رکھتے تھے۔ حدیث شریف کی دو مشہور کتابیں ترمذی اور ابو داؤد میں ہے۔ حضر ت عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک روز ہم لوگوں کو اﷲ کی راہ میں صدقہ اور خیرات کرنے کا حکم دیا اور حسن اتفاق سے اس موقع پر میرے پاس کافی مال تھا۔ میں نے اپنے دِل میں کہا کہ اگر حضرت ابوبکر سے آگے بڑھ جانا کسی دِن میرے لئے ممکن ہوگا تو وہ آج کا دِن ہوگا۔ میں کافی مال خرچ کرکے آج ان سی سبقت لے جاؤں گا۔ حضرت عمر فرماتے ہیں تو میں آدھا مال لے کر خدمت میں حاضر ہوا۔ تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا اپنے گھر والوں کیلئے تم نے کتنا چھوڑا ؟ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ آدھا مال ان کیلئے چھوڑ دیا ہے۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ جو کچھ ان کے پاس تھا سب لے آئے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا اے ابوبکر ! اپنے اہل و عیال کیلئے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا کہ ان کیلئے میں اﷲ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ میرے اور میرے اہل و عیال کیلئے اﷲ و رسول کافی ہیں۔
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس صدیق کیلئے ہے خدا کا رسول بس
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی خصوصیات

حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ میں بہت سی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن میں سے چند خصوصیات کو ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ابن عساکر حضرت امام شعبی سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کو خدائے عزوجل نے ایسی چار خصلتوں سے مختص فرمایا جن سے کسی کو سرفراز نہیں فرمایا۔ اوّل : آپ کا نام صدیق رکھا اور کسی دوسرے کا نام صدیق نہیں۔ دوّم : آپ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ غار ثور میں رہے۔ سوّم : آپ حضور کی ہجرت میں رفیق سفر رہے۔ چہارم : سرکارِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ کو حکم فرمایا کہ آپ صحابۂ کرام کو نماز پڑھائیں اور دوسرے لوگ آپ کے مقتدی بنیں ، ایک بہت بڑی خصوصیت آپ کی یہ بھی ہے کہ آپ صحابہ ، آپ کے والد ابو قحافہ صحابی ، آپ کے صاحبزادے عبدالرحمن صحابی اور ان کے صاحبزادے ابو عتیق محمد صحابی یعنی آپ کی چار نسل صحابی ہیں۔ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
سایۂ مصطفیٰ مایۂ اصطفا : عزو نازِ خلافت پہ لاکھوں سلام
یعنی اس افضل الخلق بعد الرسل : ثانی اثنین ہجرت پہ لاکھوں سلام

صدیقی تقویٰ کی چند نادر مثالیں
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ عرب کے مشہور تاجروں میں سے ایک تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اْنہوں نے اپنا مال جس طرح راہِ خدا میں لٹایا اس کی مثال نہیں ملتی۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ میں نے سب لوگوں کے احسانات کا بدلہ اس دنیا میں ادا کردیا ہے لیکن ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے احسان کا بدلہ نہیں دے سکا ، یہ بدلہ اسے میری طرف سے اﷲ تعالیٰ میدانِ قیامت میں عطا فرمائیگا۔ ‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ خلافت کے پہلے کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ جب خلافت کا کام سر پر آپڑا تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ ، حضرت عبیدہ رضی اﷲ عنہ وغیرہ سرکرہ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین نے باہم مشورہ کرکے حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کا وظیفہ بیت المال سے مقرر کردیا تاکہ کاروبار خلافت میں خلل نہ پڑے اور وہ اپنا سارا وقت اسی کام میں لگاسکیں۔ اس وظیفہ کی مقدار مہاجرین میں سے اوسط درجے کے آدمی کے اخراجات کے حساب سے مقرر کی گئی تھی۔ ایک دفعہ امیر المومنین رضی اﷲ عنہ کی بیوی نے کوئی میٹھی چیز کھانے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے فرمایا : میرے پاس قیمت ادا کرنے کو کچھ نہیں ‘‘ بیوی نے روزانہ کے وظیفے میں سے تھوڑا تھوڑا بچا کر کچھ پیسے جمع کئے۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ’’ اس تجربے سے یہ یقین ہوگیا کہ اگر ہمارا وظیفہ اتنا کم ہو جتنا تم نے روز بچایا ہے تو بھی گذارا ہوسکے گا ‘‘ یہ کہہ کر جمع شدہ رقم بیت المال میں واپس کردی اور آئندہ اتنی مقدار اپنے وظیفہ سے کم کردی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اْم المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو وصیت فرمائی کے میری وفات کے بعد بیت المال کی جو چیزیں میرے استعمال میں ہیں آنے والے خلیفہ کے سپرد کردی جائیں۔ چنانچہ ان کے بعد جب ایک اونٹنی ، ایک پیالہ ایک خادم اور ایک معمولی سا بستر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے سپرد کردیا گیا تو وہ روپڑے اور فرمایا : ’’ اﷲ تعالیٰ ابوبکر رضی اﷲ عنہ پر رحم فرمائے۔ اْنہوں نے اپنے بعد میں آنے والے کو ( زہد و تقویٰ کی یہ مثال قائم کر کے ) مشقت میں ڈال دیا ہے۔
آں مسلماناں کہ میری کردہ اند
در شہنشاہی فقیری کردہ اند

حکومت کا اسلامی دستور العمل
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد مجمع عام میں سب سے پہلی تقریر جو فرمائی وہ اپنی سادگی ، اثر اندازی اور جامعیت میں بے مثال ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ ایک مومن حاکم کی حکومت کی پالیسی کیا ہونا چاہئے آپ نے فرمایا : ’’ اے لوگو ! واﷲ میں نے کبھی خفیہ یا اعلانیہ حکومت کی تمنا نہیں کی۔ میں تم پر حاکم بنایا گیا ہوں ، در آنحا لیکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اب تمہارا فرض یہ ہوگا کہ اگر میں اچھا کام کروں تو میری اطاعت کرو۔ لیکن اگر میں ٹیڑھا ہوجاؤں تو مجھے سیدھا کردو ، یاد رکھو ، سچائی امانت ہے اور جھوٹ بد دیانتی ہے۔ ‘‘ تم میں سے کمزور ترین آدمی بھی میرے نزدیک طاقتور ہے جب تک کہ میں اس کا حق دلوا نہ دوں اور تم میں سے قوی ترین شخص بھی میرے نزدیک کمزور تر ہے جب کہ میں دوسروں کا حق اس سے حاصل نہ کرلوں۔ یادرکھو ! جو قوم اﷲ کی راہ میں جہاد کرنا چھوڑ دیتی ہے اﷲ اسے ذلیل و خوار کرتا ہے اور جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے۔ خدا اسے کسی عام مصیبت میں گرفتار کرادیتا ہے۔ اْٹھو ! اﷲ تم پر رحم کرے۔ اْٹھو نماز کی تیاری کرو۔

میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا حکم نہیں ٹال سکتا
جنگ موتہ ۸ ھ کے شہداء کے خون کا بدلہ لینے کیلئے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے وفات سے کچھ دِن قبل اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما کی سپہ سالاری میں ایک مہم روانہ فرمائی تھی۔ اس فوج میں بڑے بڑے آزمودہ کار اور جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین بھی شامل تھے۔ ابھی یہ لشکر روانہ ہی ہوا تھا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا اور عرب بھر میں فتنہ و فساد اور بغاوت کی ہوائیں تیزی سے چلنے لگیں اس صورتحال کے پیش نظر بعض صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی رائے تھی کہ اسامہ رضی اﷲ عنہ کے لشکر کو مرکز اسلام کی حفاظت کیلئے روک لیا جائے ، کیونکہ ایسے ناسازگار حالات میں فوج کو مرکز خلافت سے دور بھیج دینا اور مدینہ کو خالی چھوڑ دینا قرین دانش نہیں۔ علاوہ ازیں اس مہم سے پہلے دوسرے معاملات کا نپٹانا مثلاً مرتدین کی سرکوبی وغیرہ ضروری ہے ، لیکن جو کچھ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی نگاہ دوربین کام کررہی تھی۔ اس کا کسی کو اندازہ نہ تھا۔ اْنہوں نے شدت سے اس رائے کی مخالفت فرمائی تھی اور ہا ’’ واﷲ ! اگر مدینہ میں سناٹا چھا جائے اور وحشی درندے آکر میری ٹانگیں نوچ لیں تب بھی میں اس مہم کو نہیں روک سکتا جس کی روانگی کا حکم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم دے چکے ہیں۔ چنانچہ یہ مہم منزل مقصود کی طرف روانہ ہوئی اور سوا مہینے کے بعد فتح یاب ہوکر واپس لوٹی۔ عرب میں اس کا بڑا اثر ہوا اور دشمنان اسلام نے سمجھ لیا کہ مسلمانوں کے پاس اس قدر طاقت موجود ہے کہ وہ اتنی دور تک جہاد و قتال کیلئے لشکر بھیج رہے ہیں۔

مجاہدین کا ضابطہ اخلاق
جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما کے لشکر کو روانہ کیا اور خود پیادہ پا مدینہ سے باہر تک اسے رخصت کرنے کیلئے تشریف لائے۔ اسامہ رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا حضرت ! آپ سوار ہوجائیں یا مجھے پیدل ہوجانے کی اجازت دیں ، تو فرمانے لگے بیٹا نہ میں سوار ہوں گا نہ تم پیدل ہوگے۔ تم راہ میں جہاد کیلئے جا رہے ہو۔ میں چاہتا ہوں تمہارے گھوڑوں کا اْڑایا ہوا غبار مجھ پر پڑجائے اور میں بھی تمہارے اجر میں شامل ہوجاؤں۔ ‘‘ جب لشکر کو رْخصت کرنے لگے تو فرمایا ’’ اﷲ کا نام لے کر راہِ خدا میں جاؤ۔ امانت میں خیانت نہ کرنا ، مال غنیمت کو مت چھپانا،بد عہدی اور بے وفائی سے پرہیز کرنا، دشمنوں کے مردوں کا حلیہ مت بگاڑنا،بوڑھوں بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا، سر سبز اور پھلدار درختوں کو مت کاٹنا اور کھانے کی ضرورت کے سوا جانوروں کو ذبح مت کرنا۔

خدمت خلق کا جذبہ
حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نہایت متواضع اور سادہ مزاج تھے نہ صرف یہ کہ اپنے تمام کام خود ہی سر انجام دینے کی کوشش کرتے بلکہ گلی محلہ والوں تک کے کام کرنے میں عار محسوس نہ فرماتے تھے ،ہمسایوں کی خدمت گزاری کا جذبہ یہاں تک تھا کہ بعض دفعہ ان کے مویشی تک چراتے اور دودھ دوہ دیتے تھے۔ جب خلیفہ ہوئے تو آپ کے پڑوس میں ایک خاتون جس کی بکری کا دودھ آپ دوہا کرتے تھے ، بہت متفکر ہوئی کہ اب ہماری بکری کا دودھ کون نکالے گا ؟ آپ کو معلوم ہوا تو فرمایا ’’ خلافت مجھے خلق خدا کی خدمت سے باز نہیں رکھ سکتی ، یہ کام اب بھی میں ہی سر انجام دیا کرونگا۔ ‘‘
سچ ہے سید القوم خادمہم سروری در دین ما خدمت گری ست

Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 674921 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More