میڈیا کا اسلام مخالف منفی پروپیگنڈہ

دنیا کے ہر دور میں پیغام رسانی کے مختلف ذرائع استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ پرانے زمانے میں ایک علاقے کی خبر کئی دنوں کے بعد دوسرے علاقے تک پہنچ جایا کرتی تھی۔ جونہی دنیا ترقی کرتی گئی۔ مواصلات کا نظام تیز تر ہوتا گیا۔ گھوڑے کی جگہ گاڑی نے لی۔ تار کا متبادل ٹیلی فون اور موبائل آیا۔ ٹیلیگراف کو فیکس میں تبدیل کیا گیا۔ ای میل خط کا متبادل بنا۔ مہینوں کی مسافت دنوں میں اور پھر گھنٹوں میں طے ہونے لگی۔ جدید آلات کا ایجاد ہوا۔ کیمرے کی آنکھ سے مناظر محفوظ ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ اجسام کی حرکت کو محفوظ کیا جانے لگا۔
ترقی کی اس دور میں مذاہب اور تہذیبیں آگے بڑھتے رہی۔ جہاں سائنس نے ترقی کی وہاں میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہ رہا۔ رسائل اور جریدوں کی جگہ اخبارات نے لی۔ ریڈیو چینلز بنائے گئے۔ سیٹیلائٹ کے ٹیکنالوجی نے ٹیلی چینلز کا دوڑ شروع کر دیا۔ اگر اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت دنیا میں ان ائیر ٹی وی چینلز کی تعداد 10 ہزار سے بھی اوپر ہے۔ جبکہ نیوز ایجنسیوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔

میڈیا کے اس دوڑ میں یہودی لابی سب سے آگے ہے۔ اگرچہ تعداد میں وہ بہت کم ہے لیکن میڈیا کو قابو کیے ہوئے ہیں۔ دنیا کے ٹاپ نیوز ایجنسیاں، ٹی وی چینلز اور اخبارات ان کے پاس ہیں۔ ان کو وہ بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ ایسا ہتھیار جو ظاہری زخم تو نہیں دیتا لیکن ذہنوں پر مسلط ہوکر نظریات کو تبدیل کر دیتا ہے۔ اگر کسی ملک، مذہب یا قوم کے خلاف انہوں نے کچھ کرنا ہو تو میڈیا پر ان کے خلاف پروپیگنڈہ کر لیتے ہیں۔ بڑے بڑے نیوز ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے تمام ممالک کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھی انہوں نے اپنا غلام بنا دیا ہے۔ ہراخبار اور ہر چینل ان کے نیوز ایجنسیوں کا محتاج بن کر رہ گیا ہے۔ وہ ہر خبر کو ایک خاص انداز میں تیار کرکے شائع کرواتے ہیں جو غیر محسوس طریقے سے ذہنوں کو تبدیل کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

انیسویں صدی میں میڈیا کی دوڑ شروع ہوئی۔ برصغیر میں جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے میڈیا کا سہارا لیا گیا۔ یوں مسلمانوں میں تھوڑی بہت میڈیا سے مناسبت پیدا ہوگئی۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی میڈیا کا خوب استعمال کیا گیا۔ دوسرے جنگ عظیم کے بعد اخبارات کے ساتھ ساتھ ٹی وی کا استعمال کیا جانے لگا۔ جو کہ محدود علاقوں میں بلیک اینڈ وائٹ نشریات نشر کر تا رہا۔ رفتہ رفتہ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا۔ نشریات کا دائرہ کار وسیع ہونے لگا۔ کوریج میں اضافہ ہوتا گیا ۔ آواز کے معیار کے ساتھ تصویر بھی رنگین ہونے لگی۔ چند سالوں میں الیکٹرانک میڈیا مقبولیت کی بلندیاں چھونے لگا اور دنیا بھر میں کروڑوں افراد اس کے نشریات سے محفوظ ہونے لگے۔

بیسویں صدی کے آخری دہائی سے جہاں سائنس نے ترقی کی وہاں میڈیا کے میدان میں بھی ایک انقلاب آگیا۔ دنیا بھر کے اخبارات انٹر نیٹ پر آگئے۔ ریڈیو سٹیشنز کو انٹر نیٹ کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ ہزاروں نئے سیٹیلائٹ چینلز اور ویب ٹی وی وجود میں آئے جن کی لائیو سٹریمنگ دنیا کے ہر کھونے میں بذریعہ انٹر نیٹ بغیر کسی ڈش انٹینا یا سیٹیلائٹ ریسیور کی جاسکتی ہے۔

یہودی لابی نے میڈیا کی پھیلاؤکو دیکھ کر مسلم مخالف پروپیگنڈہ شروع کیا۔ اپنے عقائد کی ترویج کا آغاز کیا۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد افغانستان میں اسلامی امارت کا قیام ہوا تو یہودی لابی کو محسوس ہوا کہ اسلامی نظام عدل کو دیکھ کر اسلام دنیا میں تیزی سے پھیلتا جائے گا۔ انہوں نے میڈیا کے ذریعے منفی پروپیگنڈہ شروع کیا۔ خواتین کے پردے کو قید دکھایا گیا۔ چوری کے سزا میں ہاتھ کاٹنے کو ظلم قراردیا گیا۔ زنا کی سزا سنگسار کو زمانہ جاہلیت کا نام دیا گیا۔ قتل کے بدلے قصاص کو انسانیت کا قتل ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ حکمرانوں کی سادگی کو نہیں دکھایا گیا۔ ان کے نظام عدل کو سکرین پر نہیں لایا گیا۔ قتل و چوری کے واقعات میں کمی ہائی لائٹ نہیں کی گئی۔ غیر ملکیوں کو قید میں رکھ کر ان کی مہمان نوازی کو نظر انداز کیا گیا۔ داڑھی، پگڑی اور سادہ لباس کو دہشت کی علامت ظاہر کیا گیا۔

9/11 کے واقعہ کو فورا مسلمانوں کے اوپر ڈال دیا گیا۔صدام حسین کے سنی حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کرکے اسے پھانسی کرایا۔ طالبان کے اسلامی امارات کو دہشت گرد اور عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دے کر ان پر چڑھائی کی۔ مشرقی وسطہ میں داڑھی اور پگڑھی کو اچالا گیا۔ مغربی دنیا میں اسلامی شعار دہشت کی علامت دکھائے جانے لگے۔ بین الاقوامی سطح پر مسلمان ہونا دہشت گردی کی دلیل بنایا گیا۔ خود وطن عزیز کے اندر داڑھی، پگڑھی اور مدارس کے اصطلاحات دہشت گردی کے نام پر استعمال کیے جانے لگے۔ جب بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے میڈیا بلا سوچے سمجھے علماء اور طلبہ کے خلاف محاذ کھول لیتے ہیں۔ واقعات کا گند فورا مذہبی طبقوں پر ڈالا جاتا ہے۔ حال ہی میں گلشن اقبال پارک لاہور میں دھماکے کے فورا بعد ایک شہید کی شناخت بطور خودکش بمبار کرکے اس کا شناختی کارڈ دکھایا گیا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا خبر لیک کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ یوسف کو خود کش قرار دینے کی وجہ صرف اور صرف اس کی داڑھی، بڑے بال اور سادہ لباس بنا۔

میڈیا کے ذریعے باقاعدہ طور پر ایسے ڈرامے اور فلمیں بنا کر دکھا ئی جاتی ہیں جن کے ذریعے غیر محسوس طریقے سے لوگوں کے ذہنوں میں دہشت گردوں کا ایسا حلیہ نقش کیا جاتا ہے جو قرآن و حدیث کے مطابق ایک مسلمان کا ہونا چاہیے۔ گویا آج اسلامی ممالک کے اندر ان کا اپنا میڈیا بھی اپنی مذہب کے خلاف منفی پروپیگنڈہ پھیلانے میں پیش پیش ہے۔ جب تک حقیقت کو میڈیا کے ذریعے سامنے نہیں لایا جاتا تب تک نہ مسلمان کو دہشت گرد ہی سمجھا جائے گا۔ داڑھی، پگڑھی اور مدرسے کی عظمت کی جگہ لوگوں کی دلوں میں وحشت بیٹھی گی ۔ ملک دشمن اور اسلام دشمن عناصر اسلامی لبادہ پہن کر اپنے دونوں مقاصد حاصل کرکے بد امنی پھیلاتا رہے گا۔
 

Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 76102 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.