گلشن اقبال کے لہو میں رنگے پھول

زندگی خوشی اور غمی کا نام ہے۔ کبھی خوشی قدم چومتی ہے تو کبھی غم ہمارے دامن آگرتے ہیں۔ خوشی کے موقع پر تو انسان ایک دوسرے کو بھول سکتا ہے مگر غم میں اپنے تو اپنے غیر بھی ایک دوسرے کاساتھ دیتے ہیں۔ آج کا انسان اپنی مصروف زندگی کی وجہ سے ان دونوں (خوشی و غمی) کو بہت جلد بھول جاتا ہے۔ آج پھر ایک ایسے سانحے نے ہمیں آرمی سکول، مدرسے میں ہونے والے واقعات یاد کرادیے جن کو شائد ہم بھول چکے تھے۔

اتوار کا دن اکثر میں گھر پر گزارنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ ہفتے میں ایک چھٹی ہوتی ہے اس کو گھر پر ہی انجوائے کیا جائے۔ اس اتوار کو میرے بھانجے کے بیٹے (پوتے)کی پہلی سالگرہ کا اہتمام کیا گیاتھا۔ گھر پر کافی مہمانوں کی آمد تھی۔ کافی رش لگا ہوا تھا ہر کوئی اپنے اپنے انداز سے سالگرہ کو انجوائے کررہے تھے۔ پارٹی سے تقریباً ساڑھے سات بجے فارغ ہوکر گھر واپسی کا پروگرام بنایا تو اسی وقت ایک ایس ایم ایس کے ذریعے نیوز آئی کہ لاہور میں دھماکا۔ میں نے نیوز کو پڑھا اور دل میں سوچا کہ کوئی چھوٹا موٹا دھماکا ہوگیا ہوگا ایک دوبندے زخمی یا شہید ہوگئے ہونگے بس۔ ایک بات واضح کردوں کہ میں نے بس اس لیے لکھا ہے کہ اب آئے روز پاکستان میں کہیں نا کہیں ایک دو موت واقع ہونا روز کامعمول بن گیا ۔ ایسی خبر سن کر اب ہمارا کسی کا دل نہیں دہلتا۔ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ پہلے دور میں جب کسی انسان کو ناجائز قتل کیا جاتا تھا تو آسمان سرخ ہوجاتا تھا تو کوئی کہتا لال آندھی آتی تھی۔اس بات سے تو میں خودبھی اتفاق کرتا ہوں کہ ایک بار ہمارے گاؤں میں ایک شخص کو ذاتی دشمنی کی بنا پر گولی ماردی گئی۔اس کے بعد میں نے خود دیکھا کہ ہمارے گاؤں کے سڑکیں سنسان ہوگئیں۔ہر طرف خاموشی ہی خاموشی تھی۔لوگ اپنے گھروں میں قید ہوکر رہے گئے تھے۔پورے گاؤں کی فضا غمگین ہوگئی تھی اوراب یہ حال ہے کہ ساتھ والے گھر میں میت پڑی اور دوسرے گھر میں میوزک چل رہا ہوتاہے۔ گلیوں میں وہی چہل پہل ہے۔ ہوٹلوں پر ٹی وی چل رہے ہیں۔ کسی کو اپنوں کے سوا دوسروں کی پروا ہ نہیں۔

سالگرہ سے فارغ ہوکر میں جب گھر پہنچا تو ایل ای ڈی(LED)آن کی تو سب سے پہلے نیوز چینل ہی آن ہوا جبکہ دل تو چاہا رہا تھا کہ انڈیا آسٹریلیا میچ دیکھنے کو چاہا رہا تھامگر میرے ہاتھ اگلا چینل تبدیل کرنے کے لیے اٹھے ہی نہیں۔ مجھ پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا ہو۔ اس وقت خبر چل رہی تھی کہ گلشن اقبال پارک میں دھماکا۔ دھماکے میں پندرہ سے زائد افراد کی ہلاکت کی نیوز بریک ہورہی تھی۔ نیوز دیکھتے ہی میرے ذہین میں گلشن اقبال پارک کا منظر گھومنے لگا کیونکہ میں تقریباًہر سال اپنے سکول کو ٹرپ پر گلشن اقبال پارک ضرور لیکر جاتا تھا۔ اس کے فوراً بعد میں نے فیس بک ، ٹیوٹر (سوشل میڈیا) کو آن کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے شہید لوگوں کی تعداد 65سے زائد ہوگئی۔ ہر چینل اپنے اپنے انداز میں رپورٹنگ کررہا تھا ۔ کہیں کچھ تعداد بتائی جارہی تھی اور کہیں کچھ۔

مجھے اس دھماکے کے رقت آمیز سین دیکھے نہیں جارہے تھے۔ کوئی فون پر اپنے گھر اطلاع دے رہا تھا تو کوئی پکنک پر آئے ہوئے اپنوں کو تلاش کررہا تھا۔ میں مسلسل ایل ای ڈی کے سامنے بیٹھا تازہ ترین صورتحال دیکھ رہا تھا ۔ میرے لیے یہ سانحہ کسی قیامت صغراںٰ سے کم نہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد کے ساتھ زخمیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا تھا۔ ہسپتالوں میں ایمرجنسی قائم ہوگئی تھی ۔ خون کی اپیلیں کی جارہی تھیں۔ میں نے اپنے لاہوری دوستوں کو بالخصوص جو مون مارکیٹ، گلشن اقبال کے نزدیک رہائش پذیر تھے ان سے بھی رابطے میں تھا۔ بقول میرے دوست کے کہ بھائی یہاں پر ننھے منھے بچوں کی لاشیں دیکھ کر دل خون کے آنسو رورہا ہے۔ آج جہاں چھٹی کادن ہے اور سونے پہ سہاگہ آج ایسٹر بھی منایا جارہا ہے اس لیے آج معمول سے زیادہ رش تھا اور دشمن اسلام ، دشمن پاکستان اور دشمن انسانیت نے آج اس موقع کا فائدہ اٹھا کرہمیں لہو لہان کردیا۔

میں ایسے منظر ٹی وی پردیکھ رہا تھا اس دوران میں نے چینل تبدیل کیا اور لاہور کا نجی چینل 42لگالیا ۔ ادھر جو دیکھااس پر مجھے بہت افسوس ہوا کہ کیا ہم لوگ کبھی اپنے وطن ، اپنی عوام اور اپنے آپ سے سیریس ہونگے یا ہر موقع پر سیاست ہی کرتے رہینگے۔ نجی چینل پرایک سیاسی پارٹی کے رہنما جائے وقوعہ پر پہنچنے کا منظر لائیو دکھا رہا تھا۔ وہا ں پر ایک نوجوان کو دیکھا جو دھاڑیں مارکر رورہا تھا اور وہ سیاسی رہنما سے پوچھ رہا تھا کہ اس سانحہ میں ہمارا کیا قصور تھا؟ہمارے بچے سیرو تفریح کے لیے آئے تھے یا موت کو گلے لگانے؟ اس پارک میں سیکورٹی کیوں نہیں تھی؟اس سانحے کے ذمہ دار کون ہے؟ لیکن افسوس اس نوجوان کو جواب دینے کی بجائے وہ سیاسی رہنما جان چھڑا کر نکل گیا اور ان کے کار خاص نے ’’گو نواز گو ‘‘ کے نعرے لگوانے شروع کردیے۔

ایک سوال یہ اٹھتا ہے آرمی سکول میں ہونے والے سانحے کے بعد پورے پاکستان کے سکولوں کو سیکورٹی کے نام پر ناکو چنے چبوائے گئے۔ سکول مالکان کو پٹواری سے لیکر اے سی تک ، ڈی پی او سے لیکر ڈی سی او تک سب نے گھما کر رکھا مگر اب ان پارکوں میں سیکورٹی کا ذمہ دار کون ہے؟ یہاں کسی کو سیکورٹی کے نام پر نچایا جائے گا؟ان پارکوں میں سیکورٹی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ کوئی گارڈ کسی کو چیک نہیں کرتا۔ یہ پارک فری ہونے کے ساتھ ساتھ کیا سیکورٹی فری بھی کردیے گئے تھے؟

آج وزیراعظم پاکستان نے ایک بیان دیا کہ ’’ یہ بچے جو شہید ہوئے ہیں وہ میرے بچے ہیں‘‘ایسا بیان وزیراعظم صاحب نے پہلے بھی دیا تھا۔کوئی میاں صاحب سے پوچھے کہ کون ظالم باپ ہے جو اپنے بچوں کوچند ماہ بعد شہید کرواتا ہے۔ خالی بیان دینے سے کسی کے بچے اپنے نہیں بن جاتے یا چند ٹکوں کے ذریعے کسی کی اولاد کو اپنی اولاد نہیں بنایا جاسکتا۔ حکومت کا ہر فرد اپنے گھر میں خوش و خرم رہ رہا ہے صف ماتم تو ان کے گھر میں ہے جن کے چرغ گُل ہوئے ہیں۔ جن کے گھر اُجڑ گئے ہیں۔ ممتا کی گو د خالی ہوگئیں۔ اب سوچنا یہ ہے کہ کیا ہم زبانی کلامی خرچ کرتے رہیں گے یا حقیقت میں بھی کوئی اقدام اٹھائیں گے؟
 

Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 234570 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.