حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کے ساتھ ۹؍ سال رہیں اور ان ۹؍ سالوں میں آپ رضی اللہ عنہا نے خوب
خوب علم حاصل کیا ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ
سوالات کیا کرتی تھیں اور آپ ﷺ جو جوابات عنایت فرماتے انھیں یاد کرلیتیں
۔بل کہ خود نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی خصوصی
تربیت فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ سے کثیر تعداد میں احادیث مروی ہیں۔
آپ کا سوال کرنا بھی حکمت سے خالی نہ تھا کہ اس وجہ سے امت کو دینی احکام
و مسائل سیکھنے کو ملے۔ ذیل میں چند روایتیں نقل کی جاتی ہیں جو ہمارے لیے
بہترین سبق اور تعلیم ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے نبیِ کریم صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم سے سوال کیا کہ: ’’ یارسول اللہ! میرے دو پڑوسی ہیں ، فرمائیے کہ
مَیں ہدیہ دینے میں ان دونوں میں سے کس کو اولیت دوں ؟‘‘ نبیِ کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’ دونوں میںسے جس کے گھر کادروازہ تم سے
زیادہ قریب ہو اس کو اولیت دو۔‘‘ (بخاری شریف)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ :’’ ایک دن مَیں نے اور (حضرت
) حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے نفلی روزہ رکھ لیا پھر کھانا مل گیا جو کہیں سے
ہدیہ آیاتھا۔ ہم نے اس میں سے کھالیا۔ تھوڑی دیر بعد نبیِ کریم صلی اللہ
علیہ وسلم تشریف لائے ۔ میرا ارادہ تھا کہ مَیں آپ ﷺ سے سوال کروں مگر مجھ
سے پہلے حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے پوچھ لیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی
ہیں کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ یارسول اللہ! مَیں نے اور
عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے نفلی روزے کی نیت کی تھی۔ پھر ہمارے پاس ہدیۃً
کھانا آگیا جس سے ہم نے روزہ توڑ دیا۔ پس فرمائیے کہ اس کا کیا حکم ہے؟ ‘‘
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم دونوں اس کی جگہ کسی دوسرے
دن روزہ رکھ لینا۔‘‘
ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ :’’ قیامت کے دن لوگ
ننگے پاؤں ، ننگے بدن ، بغیر ختنہ اٹھائے جائیں گے ۔ (جیسا کہ ماں کے پیٹ
سے دنیا میں آتے ہیں) ‘‘ یہ سن کر ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا نے عرض کیا :’’ یارسول اللہ! یہ تو بڑے شرم کا مقام ہوگا ۔ کیا مرد و
عورت سب برہنہ ہوں گے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوں گے؟ ‘‘ اس کے جواب میں نبیِ
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ اے عائشہ ! قیامت کے دن کی
سختی اس قدر زیادہ ہوگی اور لوگ گھبراہٹ اور پریشانی سے ایسے بدحال ہوں گے
کہ کسی کو کسی کی طرف دیکھنے اور توجہ کرنے کا ہوش و حواس ہی نہ ہوگا۔
مصیبت اتنی زیادہ اور شدید ہوگی کہ کسی کو اس کا خیال بھی نہ آئے گا۔‘‘
ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ : ’’ اَلّٰلہُمَّ
اَحْیِینِی مِسکینًا وَّ وَاَمِتنِی مِسکینًا وَّ احْشُرْ فِی زُمرَۃِ
الْمَساکیِن ‘‘___ترجمہ: اے اللہ! مجھے مسکین زندہ رکھ اورحالتِ مسکینی میں
مجھے دنیا سے اٹھا اور قیامت میں مسکینوں کے ساتھ حشر فرما۔
یہ دعا سن کر ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے عرض کیا :’’
یارسول اللہ! آپ نے ایسی دعا کیوں فرمائی؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اس لیے کہ
بلاشبہ مسکین لوگ مال داروں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے ۔ ‘‘
پھر فرمایا نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ :’’ اے عائشہ! اگر مسکین
سائل ہو کر آئے تو مسکین کو کچھ دیے بغیر واپس نہ کرو اور کچھ نہ بھی ہو
تو کھجور کا ایک ٹکڑا ہی دیے دیا کرو۔ اے عائشہ ! مسکینوں سے محبت کرو اور
ان کو اپنے رب سے قریب کرو جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے روز
اپنے سے قریب فرمائے گا۔‘‘(ترمذی شریف)
بعض محدثین اور شارحین نے اس حدیث میںمسکینی سے مراد باطنی مسکینی لی ہے ان
کے مطابق نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعا فرمانا کہ :’’ مجھے مسکین
زندہ رکھ‘‘ یعنی آپ ﷺ کا باطنی مسکینی کو خشوع و خضوع کے ساتھ طلب کرنا ہے
۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مسکینوں اور فقرا کو نہ جھڑکیں اور اپنے باطن کو
مسکینیت سے سجائیں یعنی اللہ و رسول جل شانہٗ و صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت
و الفت میں جئیں اور مریں۔
ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ جو شخص اللہ
تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو پسند
فرماتا ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو نا پسند کرتا ہے اللہ
تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند فرماتا ہے ۔ ‘‘ یہ ارشادِ مبارک سن کر
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے عرض کیا :’’ یارسول اللہ! موت ہم سب کو
بُری لگتی ہے(لہٰذا آپ کے فرمان کا مطلب یہ ہوا کہ ہم میں کوئی شخص بھی
اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند نہیں کرتا لہٰذا اللہ تعالیٰ بھی ہم میں سے
کسی کی ملاقات کو پسند نہیں فرماتا )‘‘ ___اس کے جواب میں نبیِ کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اس کا یہ مطلب نہیں ہے جسے طبعی طور پر موت
بری لگی اللہ کواس کی ملاقات نا پسند ہے بل کہ مطلب یہ ہے کہ جب مومن کی
موت کا وقت نزدیک آجاتا ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اللہ تعالیٰ
کی طرف سے انعام و اکرام کی خوش خبری سنائی جاتی ہے لہٰذا اُس کے نزدیک
کوئی چیز اُس سے زیادہ محبوب نہیں جو مرنے کے بعد اُسے ملنے والی ہے۔ اس
وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی
ایسے بندوں کی ملاقات کو پسند فرمانے لگتا ہے۔ اور بلاشبہ کافر کی موت کا
وقت جب نزدیک آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے
سزا ملنے کی اس کو خبر سنائی جاتی ہے لہٰذا اُس کے نزدیک کوئی چیز اُس سے
زیادہ ناپسند اور بُری نہیں ہوتی جو مرنے کے بعد اُس کو ملنے والی ہے اسی
وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے ، چناں چہ اللہ تعالیٰ
بھی ایسوں کی ملاقات کو ناپسند فرماتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف )
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی موت کا دن ایک طرح سے اُن کے لیے
خوشی و مسرت کادن ہوتا ہے کیوں کہ وہ اپنے اللہ سے ملنے والے انعامات اور
اکرامات سے قریب ہونے جارہے ہوتے ہیں ۔ جب کہ کافروں اور مشرکوں کے لیے موت
ہی سے سختی کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ |