وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو

پاکستان کے پہلے سول مارشل لاء ایڈ منسٹر یٹر،چوتھے صدر 9 ویں وزیرِ اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے سُپریم کورٹ کے سامنے اپنے دفاعی بیان میں لکھا تھا کہ اگر زورِ بیان کی بات ہوتی تو لوگ مجھے نہیں عطاء اللہ شاہ بخار ی ا ور شورش کاشمیری کو منتخب کرتے۔میری ٹوٹی پھوٹی اُردو کے باوجود لوگوں نے مجھے منتخب کیاکہ وہ خود ٹوٹے پھوٹے تھے۔ اُنھیں جنرل ضیاء الحق کے دورےِ حکومت میں پہلے مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے ایک اہم کردار کے طور پر مقدمے بازی میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی ۔لیکن جب کچھ ثابت نہ ہوا تو احمد رضا قصوری کے کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے مقدمے میں 4ِ اپریل 1979ء کی رات دو بجے پھانسی دے دی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ذوالفقار علی بھٹو

 پاکستان کے پہلے سول مارشل لاء ایڈ منسٹر یٹر،چوتھے صدر 9 ویں وزیرِ اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے سُپریم کورٹ کے سامنے اپنے دفاعی بیان میں لکھا تھا کہ اگر زورِ بیان کی بات ہوتی تو لوگ مجھے نہیں عطاء اللہ شاہ بخار ی ا ور شورش کاشمیری کو منتخب کرتے۔میری ٹوٹی پھوٹی اُردو کے باوجود لوگوں نے مجھے منتخب کیاکہ وہ خود ٹوٹے پھوٹے تھے۔ اُنھیں جنرل ضیاء الحق کے دورےِ حکومت میں پہلے مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے ایک اہم کردار کے طور پر مقدمے بازی میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی ۔لیکن جب کچھ ثابت نہ ہوا تو احمد رضا قصوری کے کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے مقدمے میں 4ِ اپریل 1979ء کی رات دو بجے پھانسی دے دی گئی۔ جس کے ساتھ ہی ہمیشہ کیلئے پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو گیا تھا کہ " بھٹو زندہ ہے" ۔سوال تھا یہ ہوا کیوں ؟جبکہ وہ ایک خود مختار وزیرِ اعظم تھے اورپاکستان کو 1973 ء کا آئین اور ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی دے چکے تھے ۔ساتھ میں سب سے اہم یہ کہ اسلامی ممالک کیلئے اسلامک بنک کے قیام کا تصور ۔پھرمارچ1977 ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے دوسری دفعہ وزیرِ اعظم بھی منتخب ہو گئے تھے۔لیکن حزبِ اختلاف کا انتخابات میں دھاندلی کاشوراور پھر اُنکی حکومت کے خلاف ملک بھر میں تحریکِ نظام مصطفےٰ کے نام سے مظاہرے شروع کر دئیے گئے۔ جس پر ملک کے سیاسی حالات روز بروز خراب ہوتے چلے گئے۔ بھٹو حکومت نے گولی چلانے سے بھی گریز نہ کیا اور پاکستان قومی اتحاد کے رہنماؤں کو نظر بند بھی کر دیا گیا ۔ ساتھ میں اسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلے میں اتوار کی بجائے جمعہ کی چھٹی کے اعلان کے بعد 17ِ اپریل 1977ء کو شراب نوشی، نائٹ کلبوں اور قمار بازی پر بھی پابندی عائد کر دی۔بیرونی سازشی طاقتوں نے بھی ان حالات میں سر اُٹھا لیا جس پر ایک روز زیڈ۔اے۔بھٹو راولپنڈی میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ کی طرف سے آیا ہوا ایک خط بھی عوام کے سامنے لے آئے اور 8ِ مئی 1977 ء کو اُنھوں نے جواب میں امریکہ کو لکھا کہ امریکی امداد بند ہونے سے پاکستان کو خوراک ، کپڑے اور دوسری اشیاء کی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔ ساتھ میں دونوں سیاسی فریقین کے درمیان تقریباً تمام معاملات طے پا گئے ہیں ۔اصل میں زیڈ۔اے۔بھٹو زیرک سیاستدان تھے اور اُنھوں نے کچھ نشستوں پر دوبارہ انتخابات کی حامی بھر لی تھی اور 4ِ جولائی کی رات تو یہ خبر بھی تھی کہ کل صبح دونوں فریقین کی طرف سے متفقہ اعلان متوقع ہے کہ اس ہی دوران جنرل ضیاء الحق نے 4ِ اور 5 ِ جولائی 1977ء کی درمیانی شب کو آپریشن ’’ فیئر پلے‘‘ کا آغاز کرتے ہوئے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو برطرف کر کے نظر بند کر دیا ۔ ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان کر دیا ۔تما م سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی ۔ 1973 ء کے آئین کی چند دفعات کو معطل کر دیا گیا اور قومی و صوبائی اسمبلیاں توڑ کر ملک کا انتظام چلانے کیلئے صدرچوہدری فضل الہی کی مدد کیلئے چار رُکنی فوجی کونسل قائم کر دی، جسکی قیادت جنرل محمد ضیاء الحق نے خود سنبھال لی اور چیف مارشل لاء ایڈ منسٹر یٹر بن گئے۔
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 205 Articles with 341674 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More