انسانیت کے دشمنوں کا ساتھ دینے والوں کو بھی کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۰۰۰

پاکستان کے شہر لاہور کے اقبال ٹاؤن گلشن اقبال پارک میں اتوار کی شام پونے ساتھ بجے معصوم ننھے منے بچے اپنے والدین کے ساتھ تفریحی مقام پررنگا رنگ جھولوں میں جھلتے ہوئے اور کھیل کود میں مشغول تھے کہ اچانک ایک خودکش حملہ آور نے انکی ہنستی کھیلتی خوشیوں بھری زندگی کو موت و زیست کی آغوش میں پہنچا دیا۔ چند سکنڈوں کے اندرگلشن اقبال پارک جہاں ایسٹر اور چھٹی کی وجہ سے تین ہزار کے لگ بھگ افراد موجود تھے یہاں کا ماحول بدل چکا تھا اور ہر طرف افراتفری ، خوف وہراس ، آہ و بکا کا ماحول بن چکا تھا۔ کہا جارہا ہے کہ عسیائی قوم کے تہوار ایسٹر کے موقع پر یہ خودکش حملہ کیا گیا ۔ موقع کوئی بھی کسی بھی مذہب و قوم کے تہوار یا خوشیوں کی سوغات کا رہا ہو ایسے میں دشمنانِ انسانیت کی دہشت گرد کارروائیاں اقوام عالم کے لئے خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرتی ہیں۔ پاکستان جو ایک اسلامی جمہوری ملک کہلاتا ہے لیکن یہیں پر اسلام کے تشحص کو بدنام کرنے کیلئے سرگرمیاں زیادہ دکھائی دیتی ہیں۔ کبھی مسالک کی بنیاد پر خطرناک بم دھماکے، فائرنگ، خودکش حملے عبادتگاہوں ، مدارس، اسکولوں میں ہوتے ہیں تو کبھی عوامی تفریحی مقامات ہوا کرتے ہیں۔ نام نہاد جہادی تنظیمیں جو اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں لانا چاہتی ہے انکی اس ظالمانہ کارروائیوں کے بعد حملے کی ذمہ داری قبول کرنا اس بات کی یقین دہانی کراتا ہے کہ حملے آور کسی بھی صورت میں مسلمان نہیں ہوسکتے اگرچیکہ انکے نام مسلمانوں جیسے ہوں۔ مسالک کی بنیاد پر یا مذہب کی بنیاد پر معصوم انسانیت کا قتل عام اسلام میں کہیں اس کی اجازت نہیں۔ اتوار کی شام پونے ساتھ بجے گلشن اقبال پارک میں خودکش دھماکے میں 74افراد ہلاک اور کم و بیش 350افراد زخمی ہوئے۔ شہید اور زخمی ہونے والوں میں بیشتر بچے اور خواتین بتائے جارہے ہیں۔ عالمی سطح پر اس خودکش حملے کی مذمت کی گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق دھماکہ اتنا شدید تھا کہ عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے ، پارک میں چلنے والی لوگوں سے بھری ٹرین الٹ گئی اور تقریباً پورا علاقہ دہل گیا۔اس قیامت خیز مناظر دیکھ کر ریسکیو اہلکاروں کے حواس بھی بگڑ گئے۔ دھماکے کے فوراً بعد پاکستانی فوج نے پارک کا انتظام سنبھال لیا۔افراتفری کے اس عالم میں بچے والدین سے بچھڑ گئے ، دواخانوں میں کہرام مچا ہوا تھا کمزور دل متعدد افراد بے ہوش ہوگئے اور جائے وقوعہ پر انسانی اعضا بکھرے پڑے تھے۔لوگ اپنے پیاروں کو دیوانہ وار تلاش کررہے تھے جبکہ خون میں لت پت کئی افراد دھماکے کے بعد اپنے بچوں کی فکر میں پریشان دکھائی دے رہے تھے۔جبکہ معصوم بچے اپنے والدین کے نہ ملنے پر زارو قطار روتے دکھائی دے رہے تھے۔ غرض کہ لاہور کے گلشن اقبال پارک میں 27؍ مارچ کو قیامت صغریٰ آکر گزر گئی اور مظلومین کے لئے شام کے یہ لمحات زندگی بھر خوف و ہراس کی حیثیت سے یاد رکھیں جائیں گے۔ایک دہشت گرد تنظیم جماعت احرار نے اس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ صدر مملکت پاکستان ممنون حسین، وزیراعظم میاں نواز شریف ، فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی ۔ امریکہ اور دیگر ممالک کی جانب سے بھی اس واقعہ کی شدید مذمت کی گئی لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دہشت گردوں کے دلوں پر اس کا کوئی اثر ہوگا۔؟ کیا وہ ان معصوم بچوں اور خواتین کی آہ و بکا اور موت و زیست کی کشمکش کو دیکھنے اور سننے کے بعد اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں سے رک جائیں گے؟ اس سے قبل بھی پاکستان میں خطرناک خودکش حملے ، بم دھماکے ہوچکے ہیں جہاں معصوم بچے، خواتین و مرد اور ضعیف حضرات ہلاک ہوچکے ۔ دہشت گرد اپنے ان بزدلانہ کارروائیوں کو کامیابی تصور کرتے ہوئے ذمہ داری قبول کرتے ہیں، مظلوم انسانیت کے لئے یہ لمحات ان کی زندگی کا ایک ایسا حصہ بن جاتا ہے جسے چاہتے ہوئے بھی وہ زندگی بھربھلا نہ سکتے۔لاہور کے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور حیدر اشرف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ دشمن نے بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا ہے،ان کے مطابق دھماکے کیلئے بال بیئرنگ استعمال کئے گئے جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔حکومت نے لاہور کے تمام ہاسپتلو ں میں ایمر جنسی نافذ کردی ، امدادی ٹیموں نے زخمیوں کو قریبی ہاسپتلوں میں منتقل کیا، حکام نے عوام سے خون کے عطیات کی اپیل کی اور کئی مقامات پر سرچ آپریشنز شروع کردیئے گئے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا چندسو افراد کی فی الوقت گرفتاری سے مستقبل میں ایسا کوئی خودکش حملہ ٹالا جاسکتا ہے یا دہشت گردوں کے منصوبوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے؟اگر واقعی پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کو جڑ و پیڑ سے اکھاڑنا ہے تو حکومت ، فوج، پولیس اور دیگر سیکیوریٹی ایجنسیاں مل کر دہشت گردوں اور انکا کسی بھی حیثیت سے ساتھ دینے والوں کے خلاف بھرپور کارروائی کریں تاکہ مستقبل میں پاکستانی عوام چین و سکون کی زندگی بسر کریں۔پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے حکم پر پنجاب میں دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کے خلاف فوج اور رینجرز کا مشترکہ آپریشن شروع ہوچکا ہے، آپریشن کے دوران سیکوریٹی فورسز نے لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، کامونکی، سیالکوٹ، نارووال، جہلم، بہاولپور، مظفر گڑھ سمیت مختلف شہروں میں کارروائی کرکے 350سے زائد مشتبہ دہشت گردوں اور انکا ساتھ دینے والوں کو گرفتار کرلیا ہے۔آپریشنز کے دوران بڑی مقدار میں اسلحہ و بارود بھی برآمد کرنے کی اطلاعات ہے۔ اس خودکش حملے کے بعد آرمی چیف نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ آپریشن میں کسی قسم کا سیاسی اثرو رسوخ برداشت نہیں کیا جائے گا اور درندہ صفت دہشت گردوں کا ملک بھر سے صفایا کریں گے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اس حملے کے بعدکہا کہ وہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاک سرزمین دہشت گردوں کیلئے تنگ کردی گئی ہے دہشت گردوں کو دوبارہ سر نہیں اٹھانے دیں گے۔ انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد آسان اہداف کو نشاہ بنارہے ہیں، وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ حکومت سنبھالنے کے بعد ہی وہ دہشت گردی کے خاتمے کا عزم کرلئے تھے۔ گذشتہ چند ماہ میں دہشت گردوں نے شبقدر، مردان اور دیگر علاقوں میں کارروائیاں کی ہیں آج وہ سافٹ ٹارگٹس کو نشانہ بنارہے ہیں۔ اپنی پناہ گاہوں اور نیٹ ورک کو کھونے کے بعد بچے کچے عناصر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے درسگاہوں اور عوامی مقامات تک آن پہنچے ہیں۔ وزیر اعظم نے خطاب کے دوران کہا کہ وہ اس عہد کی تجدید کیلئے حاضر ہوئے ہیں کہ ہم اپنے شہیدوں کے ایک ایک خون کے قطرے کا حساب چکانے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ بدقسمتی ہے کہ تیرہ سال تک کسی نے بھی دہشت گردی کے فتنے کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر نہیں دیکھا۔ ہماری مسلح افواج اور سیکیوریٹی کے اداروں نے اپنے لہو سے اس آپریشن کو پروان چڑھایا، اس آپریشن کے مقاصد حاصل کرلئے گئے لیکن اس ناسور کے مکمل خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا۔دہشت گردوں کو انسانی جانوں سے کھیلنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے مذہب میں ایک قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ اﷲ اور رسول کے نام پر لاقانونیت ، جلاؤ، گھیراؤ، سرکاری املاک اور عام لوگوں کو نقصان پہنچانا کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری نرمی کو ریاست کی کمزوری اور یاستی اداروں کی بے بسی نہ سمجھاجائے۔عوام کے جان و مال کا تحفظ ہماری آئینی ذمہ داری ہے ۔ وزیر اعظم نواز شریف اور فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کے بیانات کے بعد یہ صاف ہوجاتا ہے کہ حکومت اور فوج کسی بھی صورت میں پاکستان سے دہشت گردوں کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن کیا یہ ممکن ہے ؟ ۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہیکہ پاکستان سے دہشت گرد کاررائیاں اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے تاوقتیکہ پاکستان میں ناخواندگی کو دور کیا جائے، معاشی سطح پر تنگدست افراد کو روزگار سے مربوط کیا جائے اور مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں اور انکا ساتھ دینے والوں کے خلاف سخت سے سخت سزائیں دی جائے ۔ اگر واقعی حکومت پاکستان اور فوج سخت دفعات کے ذریعہ انسانیت دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو ضرور بہ ضرور پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے ورنہ۔۔۔

سعودی عرب میں بقالوں کی برخواستگی ۰۰۰
سعودی عرب کی شوریٰ کونسل کے ایک رکن نے بقالوں (کرانہ کی چھوٹی چھوٹی دوکانوں ) کو بند کرنے کی تجویز پیش کی ہے جس کا خیر مقدم کرتے ہوئے ماہرین نے احساس ظاہر کیا کہ اس سے سعودیت کو نہ صرف فروغ حاصل ہوگا بلکہ رقومات کی منتقلی میں بھی کمی آئے گی۔ جس کے نتیجہ میں معیشت میں بہتری پیدا ہوگئی۔ جدہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں فوڈ پروڈکٹس کمیٹی کے سربراہ نائف الشریف نے کہا کہ سوپر مارکٹس اور بڑی بڑی دوکانوں کے مالکین کو زیادہ سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرنے کے مواقع حاصل ہونگے جس کے مثبت اثرات قومیائے جانے کی سرگرمیوں پر بھی مرتب ہونگے۔ دوسری جانب چھوٹے دوکانداروں نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قدم درحقیقت بڑے تجارتی اداروں کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے اٹھایا گیا ہے۔ سعودی میڈیا کے مطابق اس تجویز پر عمل آوری سے تستر (چھپی ہوئی تجارت) کا بھی خاتمہ ہوگا کیونکہ مملکت میں چھوٹے بقالوں کی تعداد اب 90فیصد کی حد تک پہنچ گئی ہے۔ جہاں 75فیصد ہندو پاک کو ملازمت حاصل ہے۔ چھوٹے بقالوں (کرانہ دوکانوں ) کے دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے نائف الشریف نے وضاحت کی کہ مملکت میں کسی کو بھی سوپر مارکٹ قائم کرنے کا حق اور اختیار حاصل ہے۔ بشرطیکہ جگہ، مصنوعات اور سلامتی کے تمام قواعد و ضوابط کے لزوم کی یکسوئی ہوتی ہو۔ اس سے قبل بھی سعودی عرب میں سعودی عوام کو روزگار سے مربوط کرنے کے لئے قومی سطح پر سعودی آئزیشن کے تحت مختلف قوانین و ضوابط لاگو کئے گئے اور اس پر عمل آوری نہ کرنے کی صورت میں سخت سزائیں اور جرمانے عائد کئے گئے۔ سعودی عرب میں ہندو پاک کے علاوہ بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا، مصر، سوڈان، فلپائن، یمن اور دیگر ممالک کے باشندے روزگار سے جڑے ہوئے ہیں ۔ سعودی عرب کی تعمیر و ترقی میں سعودی شہریوں سے زیادہ بیرونی باشندوں کی محنت و مزدوری ہے۔ چھوٹے بقالوں کے بند کرنے پر بے شک ہزاروں افراد روزگار سے محروم ہوسکتے ہیں لیکن بڑے بقالوں اور سوپر مارکٹس میں زیادہ سے زیادہ افراد کو ملازمت مل سکتی ہے جو بیروزگاروں کے لئے خوش آئند اقدام ہے۔

عافیہ صدیقی نہ رہیں۔؟؟
عافیہ صدیقی کی امریکہ مں ے موت کی خبروں کے گشت کرنے کی وجہ سے پاکستان میں جو پہلے ہی سے دہشت گردی کے واقعات سے دہلا اور سیما ہوا ہے اضطراب اور بے چینی پیدا ہوگئی ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ارکان خاندان نے اگرچہ اس خبرسے لا علمی ظاہر کی تاہم سوشیل میڈیا پر یہ خبر گشت کررہی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2؍ مارچ 1972ء کراچی میں پیدا ہوئی۔ 8سال کی عمر تک زیمبیا میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد جامعہ ٹکساس ، بوسٹن میں کچھ عرصہ رہیں پھر وہاں سے میسا چوسٹس ادارہ ٹیکنالوجی (MIT)چلی آئیں اور اس ادارہ سے وراثیات میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔

2002میں پاکستان واپس آئیں مگر ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے امریکہ ملازمت ڈھونڈنے کے سلسلہ میں گئیں اس دوران میریلینڈ میں ڈاک وصول کرنے کے لئے ڈاک ڈبہ کرائے پر لیا اور 2003میں کراچی واپس آگئیں۔ FBIنے شک ظاہر کیا کہ یہ ڈاک ڈبہ دراصل القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے لئے کرائے پر لیا گیا تھا۔ امریکی ابلاغ میں عافیہ صدیقی کی بطور دہشت گرد تشہیر کی گئی۔ یہ دیکھ کر عافیہ کچھ عرصہ کراچی میں روپوش ہوگئیں۔30؍ مارچ 2003کو اپنے تین بچوں سمیت راولپنڈی جانے کے لئے ٹیکسی میں ہوائی اڈہ کی طرف روانہ ہوئی مگر راستے میں پاکستانی خفیہ ادارے نے بچوں سمیت عافیہ کو اغوام کرکے امریکی فوجیوں کے حوالے کردیا اس وقت ان کی عمر 30سال تھی اور بڑے بچے کی عمر چار سال اور سب سے چھوٹے کی ایک ماہ ۔ مقامی اخباروں میں عافیہ کی گرفتاری کی خبر شائع ہوئی مگر بعد میں وزیروں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور ان کی والدہ کو دھمکیاں دی گئیں۔

عالمی اداروں نے خیال ظہاہر کیا کہ افغانستان یمں امریکی جیل بگرام میں ہے جو وہاں بے حد بُری حالت میں قید تھی۔ پاکستانی اخبارات میں شور مچنے کے بعد امریکیوں نے اچانک اعلان کرکے عافیہ کو 27؍ جولائی 2008کو افغانستان سے گرفتار کرکے نیویارک پہنچا دیا تاکہ ان پر دہشت گردی کے حوالہ سے مقدمہ چلایا جاسکے۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں نے دوران گرفتاری عافیہ کو گولیوں کا نشانہ بناکر شدید زخمی کردیا تب امریکی فوجی معالجین نے عافیہ کی طبی حالت کو گلاسگو غشی میزان پر 3( یعنی مرنے کے قریب ) بتایا۔ تاہم امریکیوں نے الزام لگایا کہ عافیہ نے امریکی فوجی کی بندوق اٹھانے کی کوشش کی تھی جس پر انہو ں نے اس پر گولیاں چلائیں۔ 23؍ ستمبر2010میں نیویارک امریکی عدالت نے عافیہ صدیقی کو 86سال قید کی سزا سنائی۔ جون 2013میں امریکی فوجی زنداں فورٹ ورتہ میں عافیہ پر حملہ کیا گیا جس سے وہ دو دن بیہوش رہی۔ بالآخر وکیل کی مداخلت پر انہیں طبی امداد دی گئی۔اگست2009میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بتایا کہ حکومت 2ملین ڈالر تین امریکی وکیلوں کو دے گی جو عافیہ صدیقی کیلئے امریکی عدالت میں پیشی کرینگے۔ لاہور کی عدالت اعلیٰ نے حکومت کو یہ رقم جاری کرنے سے منع کیا تھا اور خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ رقم خرد برد کرلی جائے گی۔ عدالت میں درخواست گزار نے کہا تھا کہ امریکی عدالت سے انصاف کی توقع نہیں اس لئے یہ پیسے عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کرکے خرچ کئے جائیں۔ ستمبر 2010میں پاکستانی حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس نے امریکی حکام سے عافیہ صدیقی کو باعزت وطن وپس بھیجنے کا مطالبہ بذریعہ خط کیا ہے۔

اسلام آباد عدالت میں ایک درخواست میں الزام لگا یا گیا کہ پرویز مشرف دور میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ڈالروں کے عوض امریکیوں کے ہاتھ فروخت کیا گیا۔
Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 208966 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.