امی ہم آج پارک میں چلیں گے احسن نے چرچ سے
نکلتے ہوئے اپنی امی سے فرمائش کی تو اس کی بہن عشرت اور باپ نے بھی خوشی
کا اظہار کیا۔ رشتہ داروں سے ملتے ہوئے شام کو وہ سب گلشن اقبال پارک میں
موجود تھے۔ ہر طرف روشنیوں کی بہار تھی اور احسن اپنے گھر والوں کے ساتھ ’’ایسٹر‘‘
کی خوشیاں منانے میں مصروف تھا۔ اندھیرے نے بسیرا ڈالنے کا ارادہ کیا
تواحسن کے گھر والوں نے بھی جانے کی تیاری پکڑی۔ مگر احسن جانے کو کہاں
تیار تھا وہ فٹبال کے ساتھ کھیلتے ہوئے دور جاپہنچا تب اس کی بہن چیخ چیخ
کر اسے بلاتی رہی کہ احسن واپس آؤ ورنہ ہم تمہیں یہیں چھوڑ کر چلے جائیں گے۔
احسن تھوڑی دور پڑے بال کو لینے گیا وہ جھکا ہی تھا کہ ہر چیز لرزتی ہوئی
محسوس ہوئی۔ اک زوردار آواز تھی جو اس کے کان کے پردے پھاڑنے کو کافی تھی۔
خون کے چھینٹے اور جسم کے چھیتھرے اس کے بدن پر آدھمکے تھے ۔ہر طرف دھویں
کا راج تھا۔ احسن کا فٹبال کھوگیا تھا۔ اس نے ڈرے سہمے اور آنسوؤں سے تر
چہرے کے ساتھ اپنے ماں باپ سے کپکپائی آواز میں شکایت کرنا چاہی۔اس نے جیسے
ہی رخ پھیرا تو وہاں کوئی نہ تھا نہ ماں باپ نہ بہن ۔ اک بھگڈرمچی ہوئی تھی
وہ خوفزدہ ہوکر بار بار ’’ابو کدھر ہیں آپ؟ابو کدھر ہیں آپ؟‘‘ کی صدائیں
بلند کررہا تھامگر وہاں تو انسانی جسموں کے ٹکڑوں کے کچھ نہ تھا۔ اچانک ہی
وہ کسی آغوش میں جھول گیاتھا۔چند گھنٹوں بعد آنکھ کھلی تو ایک شفقت بھرے
ہاتھ نے اس کا ماتھا چھوا۔ احسن نے کراہتے ہوئے ایک ہی لفظ زبان سے نکالا
تھاامی۔۔۔!!
احسن نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولیں اور خوفزدہ سوالیہ نظروں سے اسے تکتے
رہنے کے بعد بس اتنا ہی بولا۔۔۔۔
میں بچ گیا ہوں۔۔۔۔ امی، ابو اور میری عشرت۔۔۔۔
کیا میں واقعی بچ گیا ہوں ؟ واقعی؟
اتوار کی رات نجانے کتنی مائیں اپنے لعل لے کر گلشن اقبال پارک پہنچیں تھیں۔
نجانے کتنے باپ اپنے بڑھاپے کے سہاروں کو ابھی چلنا سکھارہے تھے، نجانے
کتنی بہنیں اپنے بھائیوں سے مصنوعی جھگڑا کر رہیں ہوں گی اور نجانے کتنے نو
بیاہتے جوڑے اپنے مستقبل کے خوابوں کو لڑی میں پڑو رہے ہونگے۔ اور کتنے ہی
دوست اپنی شوخیوں سے فضا کو رنگین بنارہے ہوں گے مگر گلشن اقبال پارک میں
ہونے والے اس اک دھماکے نے سب بدل دیا۔ سینکڑوں لوگ متاثرہ کہلائے ۔ نجانے
کتنی زندگیاں ویرانیوں کا شکار ہوئیں۔ یہ خبر سنتے ہی پاکستان کی کروڑوں
عوام اک روایتی اعلان کی منتظر تھی۔ اور وہ اعلان تھا سوگ کا۔ اس سوگ کے
اعلان کے پیچھے ہماری حکومت اک بہت بڑا اعتراف کرتی ہے کہ
ہم سے قاتل کا ٹھکانہ ڈھونڈا نہیں جاتا
ہم بڑی دھوم سے ہر سوگ منالیتے ہیں
یا یوں کہہ لیں کہ قاتل کے ٹھکانوں کی خبر تو ہے مگر یہ سب صاحبان اقتدار
بلواسطہ یا بلا واسطہ کہیں نہ کہیں شریک جرم ہیں۔
حکومت تو حسب معمول چپ کا روزہ توڑنے پر متفق نظر نہیں آئی مگر پاک فوج نے
عوام کی وہ امیدیں جو بظاہردم توڑتی نظر آرہی تھیں انہیں پورا کرتے ہوئے
بنا کسی حکومتی اجازت و مشاورت کے پنجاب میں فوری آپریشن کرنے کا حکم دیا۔
چیف آف آرمی اسٹاف نے اپنے اس بیان سے مردہ پڑتی امیدوں کو نئی روح بخشی کہ
آپریشن میں کوئی سیاسی اثرو رسوخ خاطر میں نہ لایا جائے گا اور کسی بھی
سہولت کار کو نہ چھوڑا جائے گا۔ اس سب کے بعد حقیقتاََ شکریہ راحیل شریف
کہنے کو دل چاہا مگر کچھ سوالات نے بھی سر اٹھایا۔
محترم CAOS ہمیں ہر آپریشن کے شروع ہونے سے پہلے بھاری قیمت کیوں چکانا
پڑتی ہے؟ ضرب عضب کے لیے اے ۔ پی۔ ایس کے معصوم بچوں کی قربانیاں کیوں
ضروری تھیں؟
کراچی میں آپریشن کی شروعات کے لیے ہمیں معصوم عوام کے خون سے ہزاروں چراغ
روشن کرنا پڑے اور اب پنجاب میں آپریشن کے لیے پھر خون کی ہولی؟
کیوں۔۔۔۔۔۔؟
پاک فوج اگر بلاسٹ ہونے کے دس گھنٹوں کے اندر اندر خود کش بمبارکے ٹھکانے
سمیت اس کے سہولت کا ر کی نشاندہی کرسکتی ہے تو یہ اشارہ ہے کہ یہ خبریں
صوبائی امن برقرار رکھنے والی ایجنسی کے علم میں تھیں۔ مگر پھر عوام کو خون
میں نہلانے تک کی خاموشی کا راز کب فاش ہوگا؟
کیا اب اس آپریشن کو جاری رکھنے کے لیے مزید خون چاہیے ہوگا؟
پنجاب میں تو نجانے کتنے بے گناہ انصاف کے متلاشی ہیں۔ یہاں قصور کے
سینکڑوں بے قصور بچے بھی ہیں اور وہ باپ بھی جس نے اپنا لعل سانحہ ماڈل
ٹاؤن میں پولیس کی بربریت کا نشانہ بنتے دیکھا۔۔۔ یہان ایک بسمہ اور اس کے
بہن بھائی بھی انصاف کے منتظر ہیں جن کی ماں پولیس کے ہاتھوں نامعلوم جرم
کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دی گئی۔ وہ مجرم بھی ہیں جنہوں نے بھرے
بازار میں انسانیت کو آگ کے الاؤ میں جلاؤ کر راکھ کیا تھا۔ کیا ان لواحقین
کے نصیب میں انصاف ہوگا؟ کیا ہم امید رکھیں کہ وہ دہشت گرد اور قاتل جنہیں
حکومتی اراکین کی پشت پناہی حاصل ہے وہ بھی کٹہرے میں کھڑے کئے جائیں گے۔
ان چند سوالات کے بعد اپنی بھولی عوام کی یاد داشت کے بند دروازوں پر لگے
تالوں کو ہلانا چاہوں گی۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ جولائی میں اک پاکستانی نے
25 کتابوں پر مشتمل امن نصاب دیا تھا۔ اپنی نسلوں کو دہشت گرد بننے سے
بچانا ہے تو خدارا اپنے بچوں کی نظریاتی و فکری بنیادیں محفوظ کریں اور اس
کا ایک حل یہ امن نصاب ہی ہے۔ خدا کا واسطہ ہے تعصب اور تنگ نظری کو با
لائے طاق رکھ کر اپنی نسلوں کو سنوارو۔۔۔۔۔ خود کو سنوارو۔۔۔۔۔۔ |