سیاست بدلیں آب و ہوا نہیں۔۔۔۔۔

تحفظ ماحول کے حوالے سے بحیثیت سماجی کارکن و قلم کار ہمیشہ ماحول دوست اقدامات کے حوالے سے بات چیت کو فروغ دیا ہے ،ضلع لسبیلہ میں بہت ساری صنعتیں ہیں جس کی وجہ سے آ لودگی کے مسائل ہمیشہ موجود رہیں ہیں "حب کو پاور"کی طرف سے کوئلہ سے بجلی بنانے کے منصوبہ کا ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے ،دنیا بھر میں سول سوسائٹی اور سوشلزم سے تعلق رکھنے والے افراد اس طرح کی سرمایہ داری پر سرپایہ احتجاج ہیں جس سے قدرتی ماحول اور فطرت کومسخ کیا جارہاہو۔

لسبیلہ کی عوام میں گزشتہ ایک ماہ سے بین الاقومی ادارے "" حب کو ""کے کول پاور پروجیکٹ زیر بحث رہاہے،لس بیلہ کے سماجی ترقی کے عمل میں ایک اچھی تبدیلی ہے کہ لسبیلہ کے عوام نے چاہے سیاسی لحاظ سے ضد ،انا پرستی یا پھر کسی بھی منطقی جواز کے اس تحریک میں حصہ لیا اور ملک کی ستر سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی حکومتی و ملٹی نیشنل کے مشترکہ استحصالی منصوبے کے خلاف آواز بلند کی ۔اس سے قبل لس بیلہ کی عوام و حکمرانوں کو ہمیشہ حکومتی منصوبے و پالیسوں کی ہاں میں ہاں ملاتے پایا ،ملٹی نیشنل ادارے کے حق و مخالف میں ریلیاں ،احتجاج و میڈیا مہم دراصل اس طبقاقی جہدجہد کو ظاہر کررہی ہے جو دنیا بھر میں سرمایہ داران نظام کے حامیوں اور سوشلزم کے حامیوں کے درمیان چلتی آرہی ہے یہ بحث دو طبقات و سوچوں کے درمیان ہے ،ایک وہ سوچ جس میں لوگ کسی بھی ملٹی نیشنل وسامراجی ادارے کو سپورٹ کرتے ہیں ان کو سرمایہ داران نظام کہا جاتاہے اور ایک وہ سوشلیٹ سماجی سوچ جس میں منافعوں کے بجائے انسانیت کی فلاح و بہبوداور مجموعی مفادات کو دیکھا جاتاہے اس کو سوشلزم کہا جاتاہے۔

کارل مارکس نے اپنی کتاب سرمایہ میں اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ سرمایہ دار مستقبل کی نسلوں کی پرو ا کیے بغیر زمین کا استحصال کرکے اسے تباہ کررہے ہیں، یہ ایک دلچسپ تضاد ہے کہ سرمایہ دارنہ نظام بڑھتی ہوئی آبادی کو اعلی معیار زندکی برقرار رکھنے کے لیے انسانی پیداوار کو بے مثٓال سطح پر لے جاکر مادی دولت حاصل کرنے کا سامان پیدا کردیتاہے لیکن یہ سامان پیدا کرنے کے لیے جو قیمت چکانی پڑتی ہے وہ ان مادی ذرائع کے خاتمے کا خطرہ جس پر کہ انسانی زندگی کا انحصار ہے بڑھ جاتاہے، کارل مارکس مذید لکھتاہے ماحولیاتی خطرات پر بحث کرتے ہوئے یہ ہمیں یہ چیز ضرور ذہین میں رکھنی چاہیے کہ ملٹی نیشنل اور دوسرے اس کے حامی برسراقتدار طبقے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پوری نسل انسانی کو تباہی کا خطرہ مول لینے سے بھی دریغ نہیں کریں گے انہیں ماحولیاتی بحران سے انسانی بقا کے لیے پیدا ہونے والے خطرات سے کی کوئی پروا ء نہیں ۔

پاکستان اور دنیا کے دیگر ملکوں میں بڑھتے ہوئے سیلاب ،قحط سالی ،درجہ حرارات ،طوفان اور دوسری قدرتی آفات انتباہ ہیں کہ سرمایہ دارنہ نظام منافعوں کی ہوس میں نہ صرف انسانیت کو معاشی اور سماجی طور پر روندتا چلا گیا بلکہ ماحول کو تباہ کرکے زمین پر سے زندگی کے خاتمے کے در پے ہے انسان کی فوقیت یہ رہی ہے کہ وہ ٹیکنالوجی و ذرائع پیداوارکے ذریعے فطرت پر قابو کرنے کی کوشش کرتاہے ،نسل انسان کی ترقی کی تاریخ دراصل فطرت کو مسخر کرنے کی ہے لیکن فطرت کو مسخر کرنا اور اسے مسخ کردو یہ دونوں متضاد عمل ہیں سرمایہ دارنہ نظام ٹیکنالوجی کواس مقام پر لے آئیں جہاں پر انسان کے اقدامات اس سیارے پر سے زندگی کا ہی خاتمہ کرسکتے ہیں ،تحفظ ماحول پر کام کرنے والے ادارے اور خو د اقوام متحد ہ کی طرف سے دنیا بھر میں موسمی تغیرات کی ذمہ دار اس سرمایہ دارنہ نظام کو ٹھہرا یاجارہاہے ،اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ حتمی وارئنگ میں میں دنیاکے اندر بڑھتی ہوئی آلودگی کی حد ت اور شدت کے متعلق جاری کردہ رپورٹ میں واضح انتباہ کیا گیاہے کہ اگر سرمایہ دار ریاستوں و ملٹی نیشنل کمپنیوں نے موسموں کو تبدیل کردینے والی اس کیفیت کو کنٹرول کے لیے فوری اقدامات نہ کیے تو پوری دنیا ایک بڑی تباہی سے دوچار ہوجائے گی ۔

دنیا بھر میں اس حقیقت کو تسلیم کیا جانے لگا ہے کہ سرمایہ داروں کا منافع پر منتی پیدوار کا موجوہ طریقہ کار کراہ ارض کو زندگی کے لیے ناقابل اقدامات بناتا جارہاہے اگر اس طرح کی ماحول دشمن سرمایہ کاری کو روکا نہیں گیاماحول کی بربادی کے تباہ کن اثرات مستقبل قریب میں ہی واضح ہونے لگے گے ، اس تمام تر عالمی ماحولیاتی بحران کے تناظر میں اگر لس بیلہ کی صورتحال دیکھیں تو ہم بھی ان ہی سرمایہ دار طبقے و ملٹی نیشنل کے چنگل میں پھنستے جارہے ہیں جس سے لسبیلہ کو شدید ماحولیاتی آلودگی کا سامنا کرنا پڑے گا ،حب کو مجوزہ کول پاور پروجیکٹ گڈانی کے ساحل پر لگنے جارہاہے جس پر ماہرین خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ کوئلے جلنے کے عمل کے دوران نکلنے والا دھواں اور راکھ لس بیلہ اورکراچی کیے تمام تر علاقوں کو سمندری ہوا کے ذریعے متاثر کرئے گی فضا میں زہریلی گیس کے اخراج سے تیزابی بارششوں کے خدشات جنم لے رہے ہیں جو کہ حب ڈیم کے پانی کو متاثر کرسکتے ہیں اس تنا ظر میں گزشتہ ہفتے ایک ہی دن سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں اور مخالفت گروپ کے لیے محکمہ ماحولیات کی طرف سے الگ الگ عوامی سماعت کا انعقاد کیا گیا جس کے پہلے سیشن کول پروجیکٹ پر تحفظات رکھنے والے افراد نے شرکت کی جس میں انہوں نے اپنے بھرپور خدشات کا اظہار کیا ،دوسرے سیشن میں پروجیکٹ کے حامی افراد نے اپنے خدشات ظاہر کیے بغیر توقعات ظاہر کی کہ حب کو علاقے میں روزگار اور سماجی کاموں کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرئے گا ،سرمایہ داروں کے حوالے سے اوپر بیان کی گئی لرلنگ کو قریب سے سمجھنے کے لیے میں نے دونوں سماعتوں میں حصہ لیا ،پہلی سماعت میں سرمایہ کاروں کی طرف سے ماحول کو درپیش خطرات کے حوالے سے عالمی سطح پر پائے جانے والی رائے عامہ کے عین مطابق پایا ،بڑی خوشی ہوئی کہ لسبیلہ کے باسیوں نے سرمایہ دارنہ نظام کے خلاف تحفظ ماحول کے لیے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواکر عالمی سطح پر اپنا حصہ ڈالا ،دوسری سماعت کی لرلنگ کوئی نئی بات نہیں تھی کیونکہ دنیا بھر میں سرمایہ کاریت سے دلچسپی رکھنے والے لوگو ں نے ہمیشہ اس سرمایہ دارنہ نظام کو سپورٹ کیا ہے اس سلسلے میں ہمشیہ لوگوں روزگار کے سہوانے خواب دیکھائیں گے ہیں سرمایہ دار طبقے استحصالی جال کو بنائیں گے اور پھر لوگوں کو روزگار دلا کر نسل در نسل غلام بنائیں گے اور ان کا واحد مقصد منافع کمانا ہوتاہے ، جو طریقہ پیداوار کا تعین کرتاہے جو نجی ملکیت کا اختیار دیتاہے یہ نظا م ہے سرمایہ داروں ،جاگیرداروں اور امیروں کا جو آج اپنے منافوں کی بلند شرح کی خاطر زہریلی گیسس کو فضا میں چھوڑ کر اور زہرہلے فاسد مادے کو سمندروں میں بہہ کرانسانی بقا کو خطرے سے دوچار کررہے ہیں اس ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ مرتی ہوئی انسانیت کا حل ہے مگر اس رائج و قت میں نہیں بلکہ اس کے مکمل خاتمے اور ایک ایسے معاشرے کی تکمیل میں ہے جو انسان دوستی ،امن و خوشحالی پر مبنی ہو، گو کہ لس بیلہ کے اندر ماحولیاتی تبدیلیوں کو موضوغ پر عوام کی طرف سے ریفلکیشن سامنے آیا ہے اس موومنٹ سے ضرور ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے شعور ی بیداری کے عمل کو فروغ ملا ہوگا مگر تنقیدی شعور سے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا لس بیلہ میں اتنی بڑی عوامی جدوجہد کسی سیاسی تماشے کا حصہ تھی یاپھر اپنی سوچ فکر اور ضمیر کی آواز تھی ،لہذا ذمہ داری کے احساس کی ضرورت ہے ہمیں سیاست کو بدلنا چاہیے پر آب و ہوا کو نہیں -
Khalil  Roonjah
About the Author: Khalil Roonjah Read More Articles by Khalil Roonjah: 3 Articles with 2012 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.