جھاڑو!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
جمشید دستی نے اپنی نئی پارٹی بنانے
کے اعلان کردیا ہے، پارٹی کا نام تو ’’عوامی راج پارٹی‘‘ ہوگا، مگر اس سے
بھی اہم اس پارٹی کا انتخابی نشان ہے، جو کسی دلچسپی سے خالی نہیں، وہ ہے
جھاڑو ۔ بھارتی دارالحکومت دہلی میں کامیاب ہونے والی ’’عام آدمی پارٹی‘‘
کا انتخابی نشان بھی جھاڑو ہی ہے۔ اپنی پارٹی کے اعلان کے لئے انہوں نے
نیشنل پریس کلب اسلام آباد کا انتخاب کیا، وہ جانتے تھے کہ جو خبر اسلام
آباد میں بنتی ہے، اسی کی اہمیت ہوتی ہے اور اسی کی کوریج۔ لگے ہاتھ انہوں
نے اپنا منشور بھی پیش کردیا، تاکہ کراچی والی سرکا ر کی طرح یہ نہ ہو کہ
کئی روز تک نومولود پارٹی کا نام تلاش کرنے میں گزر جائیں، پھر انتخابی
نشان پر غور شروع ہوجائے، پھر پارٹی پرچم کی بات چل نکلے۔ ایسا نہیں ہوا،
بلکہ دستی نے ہوم ورک کے ساتھ کام کیا اور پارٹی کا نام، انتخابی نشان اور
کسی حد تک منشور بھی بیان کردیا۔ انہوں نے بتایا کہ ملک کوناخواندگی، غربت،
بے روز گاری، ناانصافی جیسے چیلنجز درپیش ہیں۔ انہوں نے صدارتی نظام کی
حمایت کی کہ صدر کو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونا چاہیے۔ وی آئی پی کلچر اور
بدعنوانی کا خاتمہ ان کی پہلی ترجیح ہوگی، ان کی جماعت عدالتی ، تعلیمی،
بلدیاتی نظام ، پولیس، لیبر اور ٹیکس کے نظام میں تبدیلیاں کرے گی۔ کرپشن
پر سزائے موت دی جائے گی، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی پارٹی جنوبی پنجاب
کے محروم عوام کی آواز بن کر ابھرے گی۔
جمشید دستی خبروں میں رہنے کے ہنر سے خوب آشنا ہیں، دوسری طرف میڈیا کو بھی
دستی جیسے لوگوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ دستی اپنی کارکردگی اور کاروائیوں
کی بنا پر میڈیا میں اِن ہی رہتے ہیں۔ جب انہوں نے معزز ارکانِ اسمبلی پر
کچھ مخصوص نوعیت کے مشروب وغیرہ نوشِ جاں کرنے کے الزامات لگائے تھے تو بہت
لے دے ہوئی تھی، ان کے بیان پر تنقید کی گئی تھی، استحقاق کے مجروح ہونے کا
اظہار کیا گیا تھا، بیان پر سخت گرفت کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، تحقیق کے
لئے کمیٹیاں بنائی گئی تھیں، مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا تھا، کیونکہ درحقیقت ان
کی باتیں درست تھیں۔ جمشید دستی جس علاقے سے قومی اسمبلی کے مسلسل ممبر
منتخب ہورہے ہیں، اس کے بارے میں شاید بالائی پنجاب والوں کو درست اور
تفصیلی معلومات ہی نہ ہوں۔ مظفر گڑھ مردم خیز خطہ ہے، مگر اس کا شمار پنجاب
کے پسماندہ ترین اضلاع میں ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سیلاب ہو یا کوئی آفت،
مظفر گڑھ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، اپنے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف بھی
ترکی کے حکمرانوں کے ذریعے بہت سے فنڈ اس علاقے کی غربت اور پسماندگی دور
کرنے کے لئے استعمال کرواتے ہیں۔
ایک نہایت پسماندہ ، غریب اور ناخواندہ ضلع سے ایک ’عام‘ آدمی کا مسلسل
منتخب ہونا کوئی معمولی بات نہیں، وہ کھر برادران اور دستی صاحبان کو سیاست
سے آؤٹ کرکے ممبر منتخب ہورہے ہیں۔ یہاں ایک بہت ہی باریک نکتہ قابلِ غور
ہے کہ جاگیر داری نظام میں جکڑے ہوئے لوگوں نے کس طرح ایک غریب اور عام
آدمی کو مستقل اپنا قائد مقرر کر لیا، کم آبادی والے دور دراز ووٹرز کس طرح
کھروں او ر دستیوں وغیرہ کو چھوڑ کر جمشید دستی کو اپنا ہمدرد ماننے پر
تیار ہوئے۔ عوام نے دراصل انہیں اپنے ہر غم اور خوشی میں موجود پایا۔ دستی
نے بھی عوام کی خدمت عوامی انداز میں ہی کی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وی آئی پی
کلچر کے خاتمے کے لئے ہمیشہ جذباتی رہتے ہیں، جس نے اپنی جڑیں بہت گہری اور
مضبوط کررکھی ہیں۔ وہ ہر موقع پر اپنے عوام کے شانہ بشانہ موجود ہوتے
ہیں۔گزشتہ عرصے میں انہوں نے قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے کامیابی حاصل کرکے
بڑے بڑوں کو حیران کردیا تھا۔ جب تجزیہ نگار بڑے اور تعلیم یافتہ شہروں کے
ووٹرز کے انتخاب کی بات کرتے ہیں تو ان کے مقابلے میں مظفر گڑھ کے لوگوں کا
انتخاب دیکھتے ہیں تو اِن لوگوں کی آگاہی اور انتخاب کی داد دیئے بغیر نہیں
رہا جاتا، وہ جانتے ہیں کہ ہم نے اس آدمی کو منتخب کرنا ہے جو اُن میں سے
ہے، اس علاقے کے لوگ سیاسی پارٹیوں کی اجارہ داری اور جاگیر داری نظام کو
مسترد کرکے دستی جیسے لوگوں کو منتخب کر کے خود کو تعلیم یافتہ اور کچھ
کرنے والے ثابت کر رہے ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود ایک سیاسی پارٹی بنانا ایک
بڑا کام ہے، محدود وسائل اور محدود علاقے کے لوگوں پر مشتمل پارٹی کی
کامیابی کے زیادہ امکانات نہیں ہوتے۔ تاہم دستی کے کرپشن کرنے والوں کو
سزائے موت اور دیگر مسائل کو جھاڑو سے صفائی کرنے کا عمل (یا خواہش) قابلِ
تعریف ہے۔ |
|