کسٹم ایکٹ کا نفاذ۔۔۔
(Abid Ali Yousufzai, Swat)
تقسیم ہند سے پہلے برصغیر پاک و ہند ایک
مرکزی حکومت کے علاوہ چھوٹے بڑے بیسیوں ریاستوں پر مشتمل تھا۔ ان ریاستوں
میں سے کچھ وقتا فوقتا ضم ہوتے گئے جبکہ بہت سے ریاستیں ایسی بھی تھیں تو
تقسیم کے بعد بھی آزاد اور مختار رہیں۔ ان ریاستوں میں ریاست سوات بھی شامل
ہے جو آج کل ملاکنڈ ڈویژن میں شامل ایک مرکزی ضلع ہے۔
سوات ایک سابقہ ریاست تھی جسے 1970ء میں ضلع کی حیثیّت دی گئی۔ ملاکنڈ
ڈویژن کا صدر مقام سیدو شریف اس ضلع ہی میں واقع ہے۔ سوات کو خیبر پختونخوا
کے شمالی خطے میں امتیازی حیثیّت حاصل ہے۔ یہ ضلع سنٹرل ایشیاء کی تاریخ
میں علمِ بشریات اور آثارِ قدیمہ کے لئے مشہور ہے۔ بدھ مت تہذیب و تمدن کے
زمانے میں سوات کو بہت شُہرت حا صل تھی اور اسے اودیانہ یعنی باغ کے نام سے
پکارتے تھے۔
سیرو سیاحت کے کثیر مواقع کی وجہ سے اسے پاکستان کا سویٹزرلینڈ کہا جاتا ہے۔
شمالی علاقہ جات کی ترقی میں سوات کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ سر سبز و شاداب
وسیع میدانوں کے علاوہ یہ تجارت کا مرکز بھی ہے ۔ یہاں خوبصورت مرغُزار اور
شفاف پانی کے چشمے اور دریا موجوکالام ,مدین اور بحرین میں زندگی کی تمام
سہولیات بشمولِ اعلٰی تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ یہاں کے لوگ انتہائی محنتی
اورذہنی لحاظ سے کافی ترقی یافتہ ہیں۔
دنیا کے حسین ترین خطوں میں شامل یہ علاقہ، پاکستان کے دارالحکومت اسلام
آباد سے شمال مشرق کی جانب 254 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جب کہ صوبائی
دارالحکومت پشاور سے اس کا فاصلہ 170کلومیٹر ہے۔ 1998ء کی مردم شماری و
خانہ شماری کے مطابق ضلع سوات کی کل آبادی بارہ لاکھ ستاون ہزار چھ سو دو(
1257602)ہے اور اس کا کل رقبہ5337مربع کلومیٹر پر پھیلاہوا ہے۔ اس کے شمال
میں ضلع چترال، جنوب میں ضلع بونیر، مشرق میں ضلع شانگلہ، مغرب میں ضلع
دیراور ملاکنڈ ایجنسی کے علاقے اور جنوب مشرق میں سابق ریاستِ امب(دربند)
کا خوب صورت علاقہ واقع ہے۔یہ تمام اضلاع ملاکنڈ ڈویژن میں شامل ہیں۔
ملاکنڈ ڈویژن میں شامل اکثر علاقے پہاڑی ہیں۔ یہاں کے ذریعہ معاش کا زیادہ
تر انحصار ذراعت پر ہے۔ سیاحت یہاں کی سب سی بڑی صنعت ہے۔ ٹیکس فری زون
ہونے کی وجہ سے یہاں پر چند ایک چھوٹے کارخانے بھی لگائے گئے ہیں۔ خام مال
کی رسد اور مصنوعات کی منڈیوں میں ترسیل کے مسائل کی وجہ سے اگرچہ یہ خاصے
کامیاب نہیں ہیں۔ تاہم ان صنعوں کی وجہ سے مقامی آبادی کے ایک حصہ کو
روزگار کے مواقع میسر ہو چکے ہیں۔
سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن کے اکثر علاقوں کو ہر دور حکومت میں نظر انداز کر
دیا گیا۔ قدرتی حسن ، شفاف پانی کے ذخائر، قیمتی درختوں سے مالا مال اس خطے
کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے یہاں کی سب سے بڑی معیشت سیاحت بھی روبہ زوال
ہے۔ یہاں پر موجود قیمتی پتھر ’’زمرد‘‘ کا پہاڑ بھی یہاں کے عوام کی تقدیر
نہ بدل سکا۔ سڑکوں کی تباہ کاری علاقے کی قدرتی حسن کو ماند کرنے میں کردار
ادا کر رہی ہے۔ پانی کے وافر ذخائر کے باوجود یہاں پر نہ تو کوئی ڈیم بنایا
جاسکا اور نہ ہی بجلی کی ضرورت کو پورا کیا گیا ہے۔
سابقہ ریاستوں پر مشتمل یہ خطہ ٹیکس سے مستثنی قرار دیا گیا تھا۔ تبدیلی کے
نام پر آنے والے حکومت پچاس سال میں واحد حکومت ہے جس نے یہاں کے عوام کو
سوچنے پر مجبور کیا کہ پاکستان کے ساتھ الحاق ان کے بڑوں کی نا قابل تلافی
غلطی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت نے یہاں کے عوام کو روزی فراہم کرنے کے بجائے ان
کے منہ کا نوالا ہتھیانے کی بھر پور کو شش کی ہے۔ موجودہ مرکزی اور صوبائی
حکومت کے گٹھ جوڑ سے ملاکنڈ ڈویژن میں کسٹم ایکٹ کا نفاذ عوام دشمنی کی
کھلی دلیل ہے۔ کسٹم ایکٹ کے نفاذ سے یہاں کی غریب آبادی جینے کی حق سے
محفوظ ہوجائے گی۔یہاں کے عوام ملک کے بقاء اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر ہجرت
کر گئے تھے۔ بچی کچی عمارتیں زلزلے کی زد میں آگئیں۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ
سیلابوں نے پوری کی۔ اوپر سے حکومت نے جینے کا حق چھیننے کا فیصلہ مسلط کر
دیا۔ ملاکنڈ ڈویژن کے عوام اس ظلم کو سہنے کے بالکل متحمل نہیں ہیں۔ یہاں
کے منتخب ایم پی ایز، ایم این این، ضلعی حکومتیں عوام کی ترجمانی کا حق ادا
کر کے حکومت کو اس ظالمانہ فیصلے کے واپسی پر مجبور کریں۔ |
|