فوج نہیں لیکن دفاع کی ذمہ داری !
(Muhammad Attique, Faisalabad)
جنگ ایک ایسا لفظ ہے جس سے ہرامن پسند شخص
نفرت کرتاہے ۔انسانی تاریخ کابہت بڑا المیہ ہے کہ طاقتورکمزور کواپنامحکوم
اوردست نگر بناتاآیاہے۔جنگجو ذہنیت اور حاکمیت کے خواب دیکھنے والے دوسروں
کو نیچادکھانے کے لئے ان پر مختلف حیلوں بہانوں سے حملہ آور ہوتے رہے ہیں ۔سکندراعظم
،جولیئس سیزر،نپولین ،ہٹلر اورجارج بش جیسے انتہاپسند ذہنیت کے مالک افراد
سے تاریخ عالم بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنے جنون اور فاتح عالم بننے کے شوق
میں دنیا کا سکون غارت کردیا ۔اسلام دشمنی میں اسرائیل،امریکہ اور بھارت
جیسے جارح اور جنگی جنون میں مبتلا ممالک نے اسلامی ممالک کو تباہ وبرباد
کرکے رکھ دیا۔ان سب کے پیچھے جو فلسفہ کارفرماتھا وہ جنگی جنون،فاتح عالم
اور دوسروں کے وسائل پر قبضہ کرکے اپنا معیار زندگی بہتر بناناہے ۔مہابھارت
کو ہندومصنفین اپنی تاریخ کی بالاتفاق سب سے بڑی جنگ قرار دیتے ہیں۔ یہ جنگ
آریاؤں کے شاہی خاندان کی دوشاخوں ’’کوروؤں اور پانڈوؤں ‘‘کے درمیان لڑی
گئی جس میں طرفین سے لاکھوں افراد شریک ہوئے اور مارے بھی گئے ۔مہابھارت کو
تاریخ کی پہلی جنگ کہاجاتاہے لیکن جنوری 2007ء میں جرمن ماہرین آثارقدیمہ
نے شام میں بنی نوع انسان کی پہلی بڑی جنگ کے آثار دریافت کرنے کا دعویٰ
کیا۔ یہ آثار عراق کی سرحد کے قریب قدیم شہر ’’معموکہ ‘‘ میں دریافت
ہوئیتھے ۔ بات کہاں سے کہاں جاپہنچی ۔ جنگ کے لئے باقاعدہ فوج کی ضرورت
ہوتی ہے جودشمن فوج سے لڑ سکے لیکن آج بھی کچھ ممالک ایسے ہیں جنہوں نے
اپنی فوج نہیں رکھی ۔
جب دنیا میں ہر طرف ایٹمی طاقت بننے کی دوڑ لگی ہوئی ہے ایسے میں دنیامیں
کم وبیش 23کے قریب ایسے ممالک ہیں جنہوں نے اپنی باقاعدہ فوج نہیں بنائی
ہوئی ۔2007ء میں سعودی عرب کے ایک بڑے روزنامے میں 25ممالک کی فہرست جاری
کی جہاں فوج کاکوئی وجود نہیں ہے ۔ان کے پاس دفاع کاکوئی خاص سازوسامان
موجودنہیں ہے ۔یہ ممالک امریکہ ،آسٹریلیا ،نیوزی لینڈ اوریورپ کے قرب وجوار
میں موجود ہیں اور چھوٹے چھوٹے جزائر پرمشتمل ہے ۔ان ممالک نے چھوٹا ہونے
کے باوجود دنیا میں بعض ایسے اعزازحاصل کئے جن سے بڑی بڑی ریاستیں اور
مملکتیں محروم ہیں ۔جن میں اینڈورا(Andorra)،کوسٹاریکا(Costa
Rica)،ڈومونیکا(Dominica)،ہیٹی (Haiti)، آئس لینڈ ( Ice Land)، کیربتی (
Kiribati)، لیکٹن سیٹن(Liechtenstein)، مارشل جزائر( Marshal Island)،
ماریشس(Mauritius)، مائیکرونیشیا (Micronecia)، موناکو(Monaco)،
پیلاؤ(Palau)، پانامہ(Panama)،طوالو(Tuvalu)، ساموآ(Samoa)، سولومن جزائر(
Solomon Island)، سینٹ ونسنٹ اینڈ گرینا ڈینز(St. vincent & Granadines)،
سینٹ کٹس ونیوس(St. Kitts & nevis)، سینٹ لوشیا ( St. Lucia)، ناؤرو(Nauru)،
ویٹی کن (Vatican) اوروناؤٹو(Vanuatu) شامل ہیں ۔یہ ان ممالک کی امن پسندی
ہے اوراس کے ساتھ ساتھ ان کی بڑی طاقتوں پرانحصار کو ظاہرکرتاہے ۔
رقبے ،آبادی اور وسائل میں کم ہونے کے باوجود خودمختار اورآزاد ہیں ۔لیکن
اس مطلب ہرگز یہ نہیں کہ یہ ریاستیں اپنے دفاع سے بے فکر ہیں ۔موناکو(Monaco)کے
دفاع کی ذمہ داری اگرچہ فرانس کی ہے لیکن موناکو نے دوچھوٹے ملٹری یونٹ
بنائے ہیں جن میں سے ایک کی ذمہ د اری پرنس اور عدالتی اہلکاروں کی حفاظت
کرناہے جبکہ دوسرے کی سول ڈیفنس اور فائر فایٹنگ جیسی ذمہ داریاں ہیں ۔آئس
لینڈ جوکہ نیٹو کا رکن ہے لیکن اس کا دفاع کرنے کی ذمہ داری امریکہ کے ساتھ
ساتھ ناروے ،ڈنمارک اور دوسرے نیٹوممالک پرہے۔ماریشس 1968ء میں برطانیہ سے
آزاد ہوا۔ ماریشس کے پاس دنیا میں سب سے لمبی مدت کے وزیراعظم کا اعزاز بھی
ہے ۔اس کے بانی اور پہلے وزیراعظم سرسیووساگر رام غلام مسلسل 18برس تک
وزیراعظم منتخب ہوتے رہے ان کا تعلق بھارت سے تھا اور اپنی طبعی موت تک
اقتدار میں رہنے والے پہلے وزیراعظم تھے ۔10,000افراد پرمشتمل ایک فورس ہے
جو کمشنر آف پولیس کے تحت کام کرتے ہیں ۔ جن میں سے 8,000پولیس کی ذمہ داری
ملکی قانون کے نفاذ کی ہے ۔مائیکرونیشیا 1991ء میں آزاد ہوا۔ یہاں کی عوام
نے آج تک کوئی درخت اپنی ریاست سے نہیں کٹنے دیا یہی وجہ ہے کہ بارشوں کی
تعداد یہاں سب سے زیادہ ہے ۔پیلاؤ بحرالکاہل میں مختلف جزیروں پرمشتمل ملک
ہے جو کہ 1994ء میں آزاد ہوا ۔ یہ دنیا کااکلوتاملک ہے جس میں جج تاحیات
بھرتی ہوتے ہیں ۔ پیلاؤ امریکہ اورلاطینی امریکہ کو سبزی فراہم کرتاہے ۔پانامہ
1903ء میں کولمبیاء سے آزاد ہو ااور بغاوتوں ،خانہ جنگیوں اور سیاسی ابتری
کاشکار رہا۔پانامہ میں 51میل لمبی نہرپانامہ ہے جس سے یہ ملک ہر سال 9بلین
ڈالر کماتاہے ۔طوالو 1978ء میں برطانیہ سے آزادہو ااور سیاست کو اپنی سب سے
بڑی صنعت بنالیا۔ سان مارینو دنیا کی قدیم ترین جمہوری ریاست ہے۔سامو
آ1962ء میں آزاد ہو ا۔ اس کے پاس چارہزار کارکنوں کا 90 دن تک مسلسل ہڑتال
کرنے کا ریکارڈ قائم کیا ۔یہاں بادشاہت قائم ہے ۔سولومن جزائر 1978ء میں
برطانیہ سے آزاد ہو ا۔ اس ملک نے ناریل،سیاحت اور مچھلی کے کاروبار میں
کمال حاصل کیا اور قومی دولت عوام پر خرچ کی ۔یہاں بحرالکاہل کے علاقے کی
پہلی بین الاقوامی یونی ورسٹی قائم ہے ۔مندرجہ بالا ریاستوں میں سے اکثریت
کوبرطانوی اور امریکی تسلط سے آزادی حاصل ہوئی اور ابھی تک ان کے دفاعی
معاملات کا انحصار امریکہ ودیگر ممالک پر ہے ۔
میری آج کی تحریر کا ہرگز یہ مطلب نہ لیاجائے کہ میں اسلامی ممالک کو اپنے
دفاع سے بے بہرہ کرنے کے حق میں ہوں ۔بلکہ یہ ایک ضرورت کے تحت دفاع کا حق
ہے جو اسلامی ممالک قائم رکھے ہوئے ہیں ۔پاکستان جسے بھارت کی شکل میں ایک
مستقل دشمن کا سامنا ہے جو کہ سانس بھی اسی صورت میں لیتا ہے جب اسے یقین
ہو کہ اس کے سانس سے پاکستان کو نقصان پہنچے گا۔ایسے ملک کی دشمنی کو
دیکھتے ہوئے پاکستان کم سے کم اسلحہ اور دفاعی پیداوار پریقین رکھتا
ہے۔سعودی عرب جسے اس وقت حیوثیوں ،خوارج اور داعش جیسی اسلام دشمن قوتوں کا
سامنا ہے وہ بھی دفاعی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پرقائم ہے
۔کشمیر،فلسطین ،برما،افغانستان ،عراق اور شام جیسے علاقوں کو تختہ مشق
بنایا ہوا ہے ۔مظالم کی انتہا ہونے کے بعد بھی مسلمان امن کی بات کرتے ہیں
یہی مسلمانوں کی امن پسندی ہے ۔ان ممالک پر جنہوں نے اپنی فوج نہیں بنائی
ان پر عیسائیت کے پیروکاروں کا تسلط تھا اور آج بھی دنیا میں جہاں جہاں قتل
وغارت کا بازار گرم ہے وہاں غیر مسلم کا ہاتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ لازمی
ہوتا ہے ۔پہلے داعش جیسی فتنہ پرور تنظیموں کو امداد دے کر کھڑا کیا جاتا
ہے اور جب پھر وہ قابو میں نہیں رہتیں تو انہیں اسلامی ممالک میں کھلا چھوڑ
دیاجاتاہے ۔یہ ایک اچھی بات ہے کہ دنیا کو اسلحے سے پاک کیا جائے لیکن اس
کی ابتداء امریکہ وبرطانیہ اور اسرائیل کی طرف سے کیا جائے تو بہتر
ہوگا۔کیو نکہ ان کی طرف سے عالم اسلام پر جو جنگ مسلط کی جاچکی ہے اس کے
لئے اسلامی ممالک کو باہمی اتحادواتفاق اور دفاعی ضروریات کے لئے اسلحہ اور
جدید ٹیکنالوجی کی اشدضرورت ہے ۔اور جو ملک یا ریاستیں اپنی فوج نہیں بھی
رکھتیں ان کے دفاعی معاہدے اوران کے دفاع کی ذمہ داری نیٹو (NATO)جیسے
اسلام دشمن اور فتنہ پروراتحاد پر ہے ۔
|
|