ساٹھ کی دہائی تک دنیا دو بلاکس میں منقسم
ہو چکی تھی،سرمایہ داران نظام حکومت اور اشتراکی نظام حکومت کے علمبرداری
ان بلاکس کی شناخت اور پہنچان تھی۔سرمایہ دارانہ نظام حکومت کا پرچم بردار
امریکہ کے پاس تھا اور اشتراکی نظام حکومت کی ترجمانی و قیادت روس تب سویت
یونین کے ہاتھوں میں تھی۔پورے ایشیا کے چپے چپے میں ’’ سرخ ہے سرخ ہے
،ایشیا سرخ ہے ‘‘ کے نعرے گونجتے سنائی دیتے تھے۔ایران شہنشہاہ رضا شاہ
پہلوی ، پاکستان کے ایوب خاں امریکی قیادت مین سرمایہ دارانہ نظام کے
ڈانواں ڈول قلعہ کو سہارے دینے میں مصروف تھے،ترکی گو سرمایہ دارانہ نظام
کے سرخیل امریکہ کا اتحادی تھا مگر کمال اتاترک نے سرمایہ دارانہ نطام کے
سب سے ؓرے سپورٹر مذہبی قوتوں کے اقتدار میں آنے کے راستے بند کر دئیے تھے
اور ترک راہنما بلند ایجوت کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک علامت کی
حثیت حاصل تھی۔ افغانستان کے شاہ بھی روس کے ہم نوائی کرتے تھے۔
ان حالات میں پاکستانی معاشرہمیں سرمایہ دارانہ نظام کی پھیلائے ہوئے تعفن
اور گھٹن میں ابتر زندگی بسر کرنے والے طبقات کے لیے ذوالفقار علی بھٹو ایک
روشنی کی کرن بن کر پاکستانی سیاست کے افق پر نمودار ہوئے۔ذوالفقار علی
بھٹو پاکستانی قوم کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ انہوں نے ص
ایوب خاں کے اقتدار کو جوتے کی ٹھوکر ان کے مفادات اور انکی زندگی بدلنے کے
لیے ماری ہے، ان کا جینا مرنا سب عوام کے لیے ہی ہے۔ جبر و استبداد ، معاشی
و اقتصادی استحصال کی چکی میں پسنے والے پنجابی مزدور ،کسان، سندھ کے ہاری،
محنت کش اور غریب طبقات نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا انہیں یقین دلایا کہ
اگر وہ ان( عوام) کے لیے اقتدار کی آسائشیں چھوڑ کر آئے ہیں تو وہ انہیں
مایوس نہیں کریں گے۔ایشیا کے پسے اور مظلوم عوام کو ذوالفقار علی بھٹو کی
صورت میں نجات دہندہ اور اپنے خوابوں کی تعبیر دکھائی دی۔بعض بزرگ یہ کہتے
تھے کہ’’ اے منڈا ہندوستان نال ٹکر لوئے گا تے اس نوں سبق سکھائے دا‘‘
ذوالفقار علی بھٹو کا جنگ ستمبر 1965میں بھارتی کتوں کا للکارنا اور کشمیر
کی آزادی کے لیے ہزار سال تک جنگ لڑنے کی بات عوام کے دل موہ لینے کا موجب
بن گئی۔لیکن بھٹو کو عوام کے دلوں کا بادشاہ بنانے میں بھارت سے ہزار سال
تک جنگ لڑنے کا نعرہ واحد عنصر نہیں ہے اس میں پنجاب کو ترجیح دینا اور
روٹی کپڑا اور مکان کی بات کو اپنے منشور میں بنادی مقام دینے سمیت اپنی
پارٹی میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کارکنوں اور لبرل مسلمانوں کے
پرکشش اور جاذب نظر بنانا جیسے دیگر عوامل نہیں انکی کامیابی میں اہم کردار
ادا کیا۔
جس برق رفتاری سے ذوالفقار علی بھٹو نے ایوان اقتدار کی جانب جانے والے
پرخار راستوں کو طے کیا یہ انکی کرشماتی شخصیت کا ہی کمال ہے کیونکہ
پاکستانی تاریخ گواہ ہے کہ بہت سے مقبول ترین سیاست دان ایڑی چوٹی کا زور
لگاتے رہے اور قبرستانوں مین ابدی نیند سو گئے مگر اقتدار کے حصول کے خواب
خواب ہی رہے مگر بھٹو صاحب محض تین سال کی قلیل مدت میں نہ صرف عوام کے
مقبول ترین لیڈر بن گئے اور ایوان اقتدار کی منزل بھی حاصل کرلی ، جن
نامساعد حالات میں بھٹو صاحب اقتدار سونپا گیا اور نارمل حالات نہیں تھے ،
ہمارا مشرقی بازو اپنوں اور غیر وں کی سازش کے تحت ہم سے الگ کردیا گیا
تھا،ہمارے کم بیش ایک لاکھ سول اور فوجی جوان بھارت کی قید میں تھے، ہمارا
پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ بھارتی قبضہ میں تھا۔
ان غیر معمولی حالات میں اور ایک شکست خوردہ ملک کی عنان اقتدار سنبھالنا
’’خالہ جی کا وہڑہ ‘‘ کا کنٹرول سنبھالنا نہیں تھا بھٹو صاحب جانتے تھے
لیکن اس سب کے باوجود انہوں نے ملک کا فوجی جنرلوں سے قبضہ لیا اور اپنے
پہلی فرصت میں پاکستانی عوام اور فوج کا مورال بلند کرنے کے لیے دنیا کے
طوفانی دورے میں نکلے ،عالمی راہنماؤں کو اعتماد میں لیا، اور کئی اہم ترین
معاہدے کیے، بھارتی جنگی جنون کے مقابلے کے لیے پاکستان کی دفاعی طاقت اور
دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، ایٹمی پروگرام سمیت
اتحاد امت کے لیے ایسی ایسی اقدامات اور فیصلے کیے کہ عالمی سامراج کی
نیندیں حرام ہوگئیں، چنانچہ اس نے ’’بھٹوز‘‘ شاہ فیصل مرحوم سمیت دیگر بھٹو
کے ساتھیوں اور ہم خیال رہنماؤں کو عبرت نام انجام سے دو چار کرنے کی
ٹھانی۔
سو عالمی سازش کے تحت اپریل 1979کو خاموشی سے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک
عدالتی قتل کے ذریعے گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں دفنا تو دیا گیا لیکن اس
وقت کے فرعون نما آمر اور اس کے ساتھی گڑھی خدا بخش بھٹو کے قبرستان میں
سپرد خاک ’’ مردہ بھٹو‘‘ زندہ بھٹو سے زیادہ طاقتور ثابت ہوا۔ زندہ بھٹو تو
چند سال حکمرانی کر سکا لیکن گڑھی خدا بخش کا’’مردہ بھٹو‘‘ 37 سال سے
پاکستان پر حکمرانی کر نے کے ساتھ ساتھ ’’ لاڑکانہ کے بھٹو خاندان کو صفحہ
ہستی سے مٹانے کے کواب دیکھنے اور اسکے لیے سازشی منصوبے ترتیب دینے والی
قوتیں آج بھی پریشان ہیں۔ اور مائنس بھٹو خاندان پیپلز پارٹی سامنے لانے کی
ناکام کوششیں کررہے ہیں۔
پچھلے کئی سالوں سے مجھے بھٹو صاحب کی برسی کے حوالے سے ایک دکھ اندر ہی
اندر سے کھائے جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ سندھ کی پی پی حکومت گذشتہ آٹھ سالوں
سے اور پی پی پی زرداری حکومت نے پچھلے پانچ سالہ دور حکومت مین سرکاری سطح
پر برسی کے انتظامات کرکے ’’ غیر جمہوری عناصر اور بھٹو زدہ سیاسی یتیموں
کو تقویت فراہم کرنے کا سامان فراہم کیا ہے ، میرا سندھ حکومت اور پیپلز
پارٹی کے راہنماؤں سے سوال ہے کہ کیا زندہ بھٹو سے زیادہ طاقتور کہلوانے
والا ’’مردہ بھٹو‘‘ اپنی برسی منانے کے لیے سرکاری خزانے سے میڈیا کو
اشتہارات دیکر خصوصی ایڈیشنز کی اشاعت کا اہتمام کروانے کا محتاج ہے؟ نہیں
بابا نہین ایسا نہیں ہے ، بھٹو قومی خزانے پر بوجھ بننے والا لیڈر نہیں
ہے،جس بھٹونے تو پاکستان کے سیاہ و سفید کا مالک ہوتے ہوئے بھی قومی خزانے
سے تنخواہ وصول کرنا قومی خزانے پر بوجھ محسوس کیا ہے۔وہ بھلا اپنی برسی
سرکاری خزانے سے منانے کو پسند کریگا؟ اے پیپلز پارٹی کے مالک زرداریوں
،بھٹوؤں، خورشید شاہوں سیدوں، مگسیوں چانڈیوز وسانوں ،جاکھرانیوں بجرانیوں
اور مخدوموں ! خدارا یہ ظلم بھٹو صاحب پر مت کریں اور اپنے چئیرمین بلاول
بھٹو کی ہی سن لیں اور اس کی لاج رکھ لیں ……وہ جو کہہ رہا ہے کہ قومی خزانے
سے نکلوائے گئے کروڑوں روپے واپس خزانے میں جمع کروائیں برسی کے اخراجات
پیپلز پارٹی کے فنڈز سے کرنا پیپز پارٹی کی ذمہ داری ہے۔ کیا پیپلز پارٹی
کے جن راہنماؤں نے بھتو ساحب کے نام پر یا انکی دختر نیک اختر محترمہ بے
نظیر بھٹو شہید کے نام پر کچھ نہیں کمایا،جائیدادیں، بنک بیلنس نہیں بنایا
،وہ اب انکی ذات اور اپنی سیاسی بقاء کے تحفظ کے لیے انکی برسی پر اپنی
تجوریوں سے خرچ نہیں کر سکتے؟
پیپلز پارٹی کے راہنما اور سندھ کے بیورو کریٹ یہ بات کیوں بھول گئے ہیں کہ
سرکاری خزانے سے برسیاں ان کی منائی جاتی ہیں جو مصنوعی لیڈر ہوتے ہیں، آ پ
کے مشاہدے میں یہ بات نہیں ہے کہ فضا میں حادثے کا شکار ہونے والے آمر مطلق
جنرل ضیا ء الحق کی اب کوئی برسی مناتا ہے ، ایوب خاں کی تاریخ وفات کسی کو
یاد ہے ؟جنرل ضیاء الحق کی برسی کئی سال تک سرکاری سطح پر منائی جاتی رہی
ہے لیکن جب اقتدار ختم ہوا برسی بھی ختم بلکہ جنرل ضیاء الحق کا نام بھی
……لیکن 4اپریل 1979 سے آج تک کوئی ایک سال بھی ایسا نہیں گزرا جس کی 4
اپریل بھٹو کی برسی منائے بغیر گزر گئی ہو؟ سخت ترین دور آمریت میں بھی ’’
مردہ بھٹو‘‘ زندہ بھٹو کی نسبت زیادہ طاقت سے عوام کے دلوں پر راج کرہا
ہے۔اور رہتی دنیا تک عوام کے دلوں پر راج کرتا رہے گا۔ اور ہر سال چار
اپریل کو گڑھی خدا بخش بھٹو میں ’’ بھٹومیلہ‘‘ سجتا رہے گا اور پاکستان کے
عوام میلے عاشقاں دے سجاتے رہیں گے اور جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا
نام رہے گا۔ |