کیا مسلم لیگ’’ن‘‘ خود ایک صفحہ پر ہے۔۔۔۔۔؟

 وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے دھرنا مظاہرین کو ڈی چوک خالی کرنے کی ڈیڈ لائن کے24گھنٹوں کے اندر ہی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی قیادت میں تین وزراء نے مداخلت کی اور مظاہرین کو منتشر ہونے کامحفوظ راستہ فراہم کردیا ہے ،چاہے یہ کسی مفاہمت یا پھر ’’بھرم‘‘ قائم رکھنے کانتیجہ تھا ریڈ زون کاچار روزہ مھاصرہ کسی چیخ و پکار کے بغیر ختم ہو گیا ،جو ہوا سو ہوا بہتر ہی ہوا لیکن حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں کچھ اچھا نہ ہوا ،تین وزراء کی ٹیم جس میں وزیر داخلہ شامل نہیں تھے اس نے سنی تحریک اور جمعیت علماء پاکستان (نورانی) کے وفد کے پیش کردہ دس مین سے سات نکات پر سنجیدگی سے غور کا یقین دلایا جس میں سے توہین رسالت کے قانون 295سی میں ترمیم نہ کرنا بھی شامل ہے،اور توقع ہے کہ اسحاق ڈار اس معاملے پر پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں لیں گے جبکہ اپوزیشن چوہدری نثار کے کردار پر سوال اٹھائے گی کہ معاملہ کیوں ان کے ہاتھ سے لے لیا گیا ۔۔۔۔؟جبکہ وہ اپنے طریقے سے صورتحال سے نمٹ رہے تھے قومی اسمبلی کا اجلاس سات اپریل سے ہونا ہے وہ اس حوالے سے ریڈ زون میں ہجموم کے داخل ہونے پر اجلاس ہنگامہ خیز ہو سکتا ہے ،وزیر داخلہ جلاؤ گھراؤ میں ملوث عناصر کو رہا کرنے پر اب بھی آمادہ نظر نہیں آتے ہیں ،اہم ترین خبر کہ پنجاب کے وزیر اعلی میاں محمد شہبارز شریف ا ور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی گئی ہے اور پنجاب میں ہونے والے دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خلاف آپریشن پر معاملات طے کئے گئے ،سیکورٹی فورسزآپریشن سے پہلے اور آپریشن کے بعد پنجاب حکومت کو اعتماد میں لے گی ،پنجاب میں آپریشن اس وقت زور شور سے جاری ہے ، حکمران جماعت کے ایک طبقے کو اب بھی اس بات کا خدشہ ہے کہ ممتاز قادری کو پھانسی دینے سے آئندہ عام انتخابات میں (ن) لیگ کو نقصان پہنچا سکتی ہے اگر مذہبی جماعتوں نے اپنا اتحاد وسیع تر قائم کر لیا اور تحریک انساف کو ساتھ ملا لیا تو پھر یہ ایشیو ختمہونے والا نہیں ہے لہذا انہوں نے اس معاملے کو ٹھنڈا کیا اگر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے خود یہ زمہ داری اسحاق ڈار اور دیگر وزراء کو سوپنی ہے تو تو چوہدری نثار علی خان کی پوزیشن کیا ہوگی۔۔۔؟چوہدری نثار علی خان نے کبھی بھی پرتشدد راستہ اختیار نہیں کیا لہذا اسحاق ڈار اور دیگر وزراے کیوں اس تنازع میں کود پڑے۔۔۔؟اور ان کے لئے باعث شرمندگی بنے ،اس کی وجہ یہ نہیں کہ تنازع پر امن حل ہوا بلکہ متعلقہ وزراء کا اسے پر امن طور پر حل کرنے کا منصوبہ تھا اس طرح یہ فارمولا بھی اسحاق ڈار کے مفاہمتی منصوبے کچھ مختلف نہ ہوتا یا ہوتا۔۔۔۔؟چند وزراء سمیت کابینہ کے ساتھیوں میں نمایاں فرق نے ’’حسن حکمرانی‘‘ کے حوالے سے حکومتی کارگزاری پر سوال اٹھا دئیے ہیں ۔۔۔؟ سانحہ گلشن اقبال پارک کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے حکم پر پنجاب بھر میں پاک فوج ،رینجرز اور انٹیلی جنس اداروں نے دہشت گردوں ،سہولت کاروں کے خلاف باقاعدہ آپریشن شروع کر دیا ہے آپریشن کے دوران متعدد دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو پکڑ ا گیا جن سے بری تعداد میں اسلحہ گولہ بارود برآمد کر لیا گیا ہے ،لاہور سمیت فیصل آباد ،ملتان ،سرگودھا وہاڑی،اور دیگر علاقوں سے بڑی تعداد میں آپریشن کر کے کالعدم تنظیموں اور دہشت گردوں کو حراست میں لیا گیا ہے پنجاب میں پہلے آپریشن پولیس کی مدد سے کیا جارہا تھا مگر اب اس کا طریقی تبدیل کر دیا گیا ہے اب براہ راست پاک فوج ،رینجرز انٹیلی جنس اداروں کی مدد سے آپریشن شروع کر دیا ہے جس کا مطالبہ عوامی و سیاسی پارٹیوں کی طرف سے کافی عرصے سے کیا جارہا تھا گلشن اقبال پارک کے وقوعہ کے بعد پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی زیر صدرات ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اب پنجاب سمیت پورے ملک میں آپریشن کو تیز کیا جائے اور نیشنل ایکشن پلان میں اب کسی بھی رعایت یا زیرہ برداشت کا مظاہر ہ کیا جائے گا ذرائع کے مطابق پنجاب بھر میں کریک ڈوان کیا گیا اور اس کریک ڈوان میں اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ،آرمی چیف کی طرف سے حکم دیا گیا کہ دہشت گردی میں ملوث کسی بھی شخص سے رعایت نہ برتی جائے اور نہ ہی کسی بھی اثر و رسوخ کو خاطر میں نہ لایا جائے ،سیکورٹی اداروں نے لاہور سے سات جبکہ گوجرانوالہ سے 78مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے حساس اداروں نے جہلم سے آپریشن شروع کر کے جس کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے گجرات ،گوجرانوالہ،کامونکی اور ناروال تک بڑھایا گیا بعد ازاں مظفرگڑھ،ملتان میں بھی آپریشن کر کے مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گئا ہے ،آرمی چیف کی زیر نگرانی آپریشن میں تمام تر معلومات کورکمانڈر فور کور کو دی جارہی ہیں ،اس سے قبل آرمی چیف کی زیر قیادت اجلاس میں جس میں ڈی جی آئی ایس آئی ،ڈی جی ایم آئی شریک ہوئے اور پنجاب میں آپریشن کا جائزہ لیا گیا ،ایک بار پھر دشمن نے گھات لگا کر وار کیا ہے ۔۔۔۔ایک بار پھر عسکری اور سول قیادت کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رکھنے پر اتفاق کے ساتھ ساتھ وزیر اعلی کی طرف سے تین روزہ سوگ کی ۔۔لاہور سانحہ پر قومی پرچم سرنگوں رکھا گیا، سزائے موت کا عمل بھی اسی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے جو اس وقت پورے ملک میں زور و شور سے جاری ہے ۔۔بلاشبہ انسداد دہشت گردی فورس کو بڑے چیلنز کا سامنا ہے مذہبی دہشت گردی، انتہا پسندی، اور دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرنا ہو گا اور اگر ادھورا چھوڑا گیا تو کاونٹر اٹیکس کی وجہ سے خوفناک ردعمل سامنے آئے گا ،پنجاب اور پورا پاکستان کو کمزرو کرنے والی دہشت گردی کسی صورت اور ملک کے کسی حصے میں بھی قبول نہیں کی جائے گی،پاکستان پر حملہ ہے بے رحم بدلہ لیا جائے گا وہ وقت دور نہیں جب دہشت گردوں کا مکمل صفایا ہو جائے گا،آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد ایک سال گزرنے کے بعد دہشت گردوں نے کاری وار کیا ہے ہمیں نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے اور انٹیلی جنس شئیرنگ کو از سر نو منظم کرنے کی ضرورت ہے ،پاکستان کی مسلح افواج ملکی سلامتی کی ضامن ہے جس کے بہادر فوجی وطن پر اپنی جان نثار کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔۔۔قوم جب سکون کی نیند سوتی ہے تو یہ جوان سرحدوں کی حفاظت پر مامور رہتے پیں ۔۔اور مادروطن کو اندرونی و بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔۔کراچی میں ابھی حالیہ آرمی کی ملٹری پولیس کے جوان شہید کئے گئے ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 43911 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.