مکروہ چہرے

 کہاوت ہے کہ تین افراد جن میں سے ایک کا تعلق چائینہ سے ایک کا جاپان سے اور ایک کا پاکستان سے تھا سمندری سفر پہ تھے کہ راستے میں طوفان نے جہاز کا بیڑہ غرق کر دیا بہت سے مسافر ڈوب گئے کچھ نے لائف جیکٹس پہن لیں اور کچھ لکڑی کے تختوں پہ جدھر ہوا اور پانی لے چلا ادھر ہی چلتے گئے،یہ تینوں ایک تختے پر سوار ہو کر لہروں کے رحم و کرم پہ جھولتے اور ہچکولے کھاتے ایک کنارے لگے پتہ چلا کہ یہ تو ایک ویران جزیرہ ہے جہاں آدم ہے نہ کوئی آدم زاد،تینوں بڑے پریشان ہو کر ادھر ادھر پھرنے لگے کافی دیر کے بعد ایک غار نظر آئی یہ اس غار میں جا پہنچے،غار جو ایک جن یا دیو کا مسکن تھا اور وہ خلاف توقع کوئی نیک سیرت جن تھا جو رات کو واپس آیا ان تینوں کو دیکھا پوچھا کون ہو کدھر سے آئے ہو کیا چاہتے ہو،انہوں نے اپنی بپتا سنائی کہ مصیبت کے مارے ہیں تلاش روزگار میں گھر سے نکلے اور آگے سے ایک نئی مصیبت میں پھنس گئے ہیں،جن نے کہا کوئی مسئلہ نہیں تم تینوں اپنی ایک ایک خواہش بتاؤ میں پوری کردوں گا باقی زند گی آرام سکون سے گذار لینا،یہ تینوں بہت خوش ہوئے اور پہلی خواہش چائینہ کے باشندے نے بتائی کہ مجھے گاڑیوں کا ایک فلیٹ چاہئیے جس میں کم از کم سو گاڑیاں ہو ں جن سے میں نہ صرف اپنا رزق کماؤں بلکہ اپنے ساتھ اور ننا نوے لوگوں کے روز گا ر کا ذریعہ بھی بنوں ،جن نے تھوڑی دیر میں اس کی مطلوبہ گاڑیاں اس کی بتائی گئی جگہ پر پہنچا دیں واپس آیا اور آ کے جاپانی سے پوچھا تم بتا ؤ اس نے کہا جناب جن صاحب مجھے ایک فیکٹری چاہیے جس میں کم از کم پانچ سو لوگوں کو نوکری دے سکوں فیکٹری چلے گی تو جہاں میری اور اہل وعیال کی زندگی آسان ہو گی وہیں پر سینکڑوں پھر ہزاروں خاندان خوشحال ہو ں گے اس کی بھی یہ خواہش پوری کرنے اور اسے اس کی مطلوبہ جگہ پہنچانے کے بعد جب جن دوبارہ وہاں پہنچا تو اب خواہش پوری ہونے کی باری پاکستانی کی تھی جن نے پوچھا بتاؤ کہ تم کیا چاہتے ہو ،پاکستانی نے جس خواہش کا اظہار کیا اسے سن کر جن بے ہوش ہوتے بچا،جی ہاں پاکستانی صاحب نے جن سے کہا کہ میری ایک ہی خواہش ہے کہ مجھے کچھ دو یا نہ دو مگر ان دونوں کے پاس جو وہ ان سے واپس لے لو،مجھے گذشتہ کچھ دنوں سے اپنے ہاں تجاوزات کیخلاف جاری آپریشنز دیکھ کر یہ بات یا د آئی،کوئی بھی ہوش مند و ذی شعور شخص ناجائز قبضے یا تجاوز کی کسی بھی صورت حمایت نہیں کر سکتا مگر یہ جو کچھ ا س دوران غریب افراد اور دکانوں کے مالکان کے ساتھ رویہ رکھا جا رہا ہے وہ نا قابل بیان ہے،اس آپریشن کی نگرانی ان چیچک زدہ چہروں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے کہ عام حالات میں جنھیں شاید کو سلام بھی نہ کرے مگر اب غریب اور خصوصاً ٹھیہ اور ریڑھی بان ان کی منتیں ترلے کر رہے ہوتے ہیں جبکہ یہ ان کا سامان اٹھا اٹھا کر پھینک کے اپنی مکروہ انا کی تسکین کر رہے ہوتے ہیں،آپ بے شک سامان ضبط کر لیں اور جرمانہ بھی کریں مگر کسی کا نقصان کرنے کا اختیار آپ کو کس نے دیا ہے،کسی کی تضحیک و تحقیر کا حق آپ کو کیسے مل گیا ہے،کچھ شرم حیا اور اخلاقی قدریں بھی ہوتی ہیں،آپ اپنے باپ کی عمر کے شخص کو لوگوں کے سامنے تعن و تشنیع کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں اور لوگوں کے سامنے اس کا تمسخر اڑا کر خوش ہوتے ہیں،میرا سوال یہ ہے کہ جب یہ لوگ ان جگہوں پر بیٹھتے ہیں تو کیا آپ نے دھنیا پی رکھا ہوتا ہے،آپ فٹ پاتھ پہ دکان سجانے لگانے کیوں دیتے ہیں کیا آپ خود اس میں انوالو نہیں ہیں کیا آپ فٹ پاتھ میں تھڑا لگا کر چکن بیچنے والے سے گھر کے لیے چکن مفت میں نہیں لیتے،کیا سبزی فروٹ ٹی ایم اے کے دفتر و اہلکاروں کے آفس و گھر میں نہیں جاتا،کیا مرغ پلاؤ کے پیکٹس روزانہ دن کو اے سی ہاؤس و اے سی آفس میں نہیں جاتے،جب آپ کے اپنے منہ کو حرام لگا ہوا ہے تو پھر یہ ساری ڈرامہ بازی کیوں اور کس لیے،آپ اپنی ڈیوٹی احسن انداز سے ادا کریں اور کسی بھی شخص کو کسی بھی صورت میں دکان سے باہر سامان رکھنے کی اجازت نہ دیں کوئی تھڑا کوئی ٹھیہ نہ لگنے دیں جو عام افراد کے لیے رکاوٹ بنتا ہے مگر ساتھ ان شیڈ اور چھتریوں کو تو بخشیں کہ جو لوگوں نے اپنے سامنے سایہ کرنے کے لیے لگا رکھی ہیں اور ان سے عام افراد کو نقصان نہیں پنچتا اور نہ ہی وہ کسی بھی طرح کی کوئی رکاوٹ پیدا کرتی ہیں،ابھی چند دن پہلے بلدیہ اہلکاروں نے مختلف شہروں میں ہر دکان کے سامنے اس کے لیے سایہ کے لیے لگایا گیا عارضی شیڈ بھلے وہ کپڑے کے ہی کیوں نہ تھے اکھاڑ کے پرے پھینکے اور اب دکانداروں کے احتجاج اور کچھ بڑے لوگوں کے کرایہ دار دکانداروں کے احتجاج کے بعد سب کو کہا جا رہا ہے کہ چھ فٹ کا شیڈ لگانے کی اجازت ہے حالانکہ یہی کام اور اجازت اگر پہلے ہی مرحمت فرما دی جاتی تو عام اور چھوٹے کاروباری حضرات کافی نقصان سے بچ جاتے ،کیا یہ لوگ آپ کو ٹیکس نہیں دیتے یہ تو بے چارے ٹیکس کے ساتھ ساتھ بھتہ بھی دیتے ہیں تو پھر یہ سب کیا ہے کیا آپ لوگ پہلے سو رہے تھے صرف چند دن جی ہاں فقط چار دن بعد کہ اب اجازت ہے تو توڑے کیوں کیا آپ تب غلط تھے یا اب غلط ہیں یا پھر اصل کہانی وہی کہ آپ اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہیں کہ کہ جو کچھ کسی بڑے تاجر کے پاس ہ وہ آپ کے پاس کیوں نہیں،آپ کو گورنمنٹ کے جنرل بس اسٹینڈ اور ان کی حالت زار کیوں نظر نہیں آتی،پروائیویٹ اڈے اور ان کی کلاس اور ان کا معیار کیوں نظر نہیں آتا،اے کیٹٹیگری میں پاس اڈوں میں سی اور ڈی جیسی سہولیات کا بھی کہیں دور دور تک نام و نشان نہیں، سیوریج سسٹم اور پینے کے پائپوں میں مکس ہوتا گندا پانی کیوں نظر نہیں آتا،مذبحہ خانوں کی گندگی اور ذبحیوں میں پانی کے پائپ لگا کہ گوشت کا وزن بڑھانا کیوں نظر نہیں آتا،آپ کو پانی بلکہ اب تو سرف اور ڈیٹرجنٹ ملا دودھ کیوں نظر نہیں آتا،آپ کو جانوروں کی آنتوں اور دیگر آلائشوں سے تیار تیل اور اس میں تلے چپس اور دیگر ایسی چیزیں اور ان کے بنانے والے کیوں نظر نہیں آتے ،آپ کو گندے ہوٹل اور ان کے کچن کیوں نظر نہیں آتے اور بہت سے حرام اور مردار کا گوشت اپنی مصنوعات میں ڈالنے والے کیوں نظر نہیں آتے، بیس بیس اور بائیس بائیس فٹ کی گلیوں میں گھروں کے باہر آٹھ آٹھ اور د س دس فٹ کے ریمپ کسی کو نظر کیوں نہیں آتے جو بائیس فٹ کی گلی کو دس فٹ سے بھی کم کر دیتے ہیں،مگر نظر آتی ہے تو کسی غریب کی ریڑھی ٹھیلہ یا کسی کی چھوٹی دکان،تجاوزات کے خلاف آپریشن ضرور کریں مگر ہر طبقے اور ہر قابض شخص کے خلاف چاہے وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو اور آپریشن سے پہلے مکمل پلاننگ کریں تاکہ نقصان کرنے کے بعد آپ کو ریلیف دینے کا خیال نہ آئے پہلے ہی کمیونٹی کو ساتھ شامل کیا جائے لوگوں کی رائے لی جائے تو نہ صرف کسی غریب کا نقصان ہو گا نہ آپ کی شکلوں سے کسی کو نفرت ہو گی،،،،،،،،،