7 اپریل کو صحت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے جبکہخود غرضی
، مادہ پرستی اوردقیانوسی نظام نے انسانی آنکھ پر پردہ ڈال رکھا ہے ۔ فساد
فی الارض کے تین بڑے ماخذ زر ، زن اور زمین نے عقل و شعور کے دعویداروں
کوزنگ آلود بنا دیا ہے۔ انسانیت نفس مطمئنہ، نفس لوامہ کے مدارج اولی سے
نکل کر نفس امارتہ کو ہی اپنی پیاس کا جام سمجھ بیٹھی ہے۔ علم و ہنر، تعمیر
وترقی اور ادبی مجلسوں کے بجائے شراب ،شباب اورکباب کی محفلوں نے ہرسو
ڈھیرے ڈال رکھے ہیں۔گلوبل وار کے شیطانی طلسم نے ابن آدم کو انسانیت کے
مقام سے ہی گرا دیا ہے۔میڈیا کے ڈراموں میں انتہائی شرمناک مناظر،اسٹیج
ڈراموں کے لچھے پن، فلموں اور رقص و سرور کے پروگراموں نے بچوں، نو جوانوں
، جوانوں اور یہاں تک کہ بوڑھوں کی نظروں کو ٹھنڈا کرنے کا سامان مہیا کر
دیاہے ۔ چینلوں کی ٹی ریٹنگ بڑھا نے کے سبب جسمانی و عقلی کمزوریاں، ایمانی
وروحانی بدتمیزیاں اور مادر پدر آزاد ماحول سے جنسی بے راہ روی کو فروغ ملا
ہے۔بڑے بڑے اہل علم و دانش اس دنیالافانی کی چکا چوند میں الٹے غوطے کھاتے
نظر آرہے ہیں ۔یہ بد حواس انسان اب ہر وقت دوسرے کو کاٹنے اور لوٹنے کو
دوڑتا ہے ۔وطنِ عزیز میں موجود عوامی خدمت میں مصروف وفاق اور ہمارا ہر
صوبہ عوام پر ٹیکسوں اور من مانی پالیسیوں کا بوجھ لاد کر چاروں شانے چت
کرنے کے لیے زور لگا رہے ہیں۔ ہر طرف چکر ی اور داؤ پیچ کے ماہرگھات لگائے
بیٹھے ہیں ۔ایک طرف ہر وفاقی حکومت سالانہ عوام دشمن بجٹ بنا ٹیکسوں کی مد
میں عوام کا خون پسینہ نکالتے ہیں تو دوسری طرف عوام سے بالواسطہ متعلقہ
ادارے پی آئی اے، سی ڈے اے ، او جی ڈی سی ایل ، واپڈا،سوئی گیس، ہسپتال،
سکول سب ملکر کر عوام کاکچومر نکالتے ہیں۔عوامی و انسانی سہولت کار ادارے
شیطانی طریق پر مسلسل چل کر اتنے پراگندہ مزاج ہو چکے ہیں کہ اگر ان سے
پوچھو کہ ایسا کیوں ہوا؟ اتنی اموات کیوں ہوئی؟ تو جواب ملتا ہے اب تو
حالات کافی بہتر ہیں پہلے تو حالات اس بھی ابترتھے ۔تصفیہ طلب اور معاملہ
فہم اور دوررس اتنے کہ افلاطون اور واسگوڈے گاما کی روحیں کانپ جائیں۔ لیڈر
شپ کی خصوصیات اتنی با کمال کہ ارسطو، چارلس ڈیگال ٹائپ کے لوگ شرما جائیں
۔ یہاں بچے سے لیکر بڑی عمر کے انسان اور ایک ریڑھی بان سے لیکر بڑے بڑے
کاروباری، سیاستدان اور بیوروکریٹ تک سب کے سب کرپشن کے حمام میں ننگے
دھڑنگے کھڑے موج مارتے نظر آتے ہیں۔سب چھوڑیے ایک شعبہِ ہسپتال کو ہی دیکھ
لیجئے جسمیں مریض شفا یابی کی امید لیکر آتے ہیں اورجب جاتے وقت موت کا
پروانہ یا کم از کم مایوسی ضرور لیکر جاتے ہیں اور اس بھیانک تصویر نے
حقیقت پسندوں کی عینک کو بھی دھندلا کر رکھ دیا ہے اور انسانی صحت پر
انتہائی مضر اثرات مرتب کیے ہیں۔
پاکستانی حکومت بدقسمتی سے اپنے جی ڈی پی کا ایک فیصد بھی صحت کے لیے وقف
نہیں کرتی جسکی وجہ سے لوگوں میں ہیپٹاٹس ، ملیریا، ذیابطیس، کینسر اور
خسرہ جیسی خطرناک بیماریوں کے علاوہ دیگر وبائیں پھیل رہی ہیں ۔سرکاری
ہسپتالوں میں علاج معلالجہ کی سہولیا ت ناکافی ، جبکہ نجی ہسپتالوں میں
علاج اور دوائیاں دونوں انتہائی مہنگی ہیں جسکی وجہ سے آئے روز اموات ہو
رہی ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ ہمارے معصوم ا ور بے آسرا لوگ پرائیوٹ ہسپتالوں
میں تو جانے سے رہے لیکن جب سرکاری ہسپتالو ں کا رخ کرتے ہیں تو پہلے انہیں
لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا کر دیا جاتا ہے اور پھر باری آنے پہ سفارش نہ
ہونے کی وجہ سے برائے نام چیک اپ کے بعددوائی کی پرچی ہاتھ میں تھمائی جاتی
ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہسپتال کے اندر سے ہی دوائی مل جائیگی مگر پتہ کرنے
پہ ہسپتا ل کے اند دوائیوں کے اسٹور والے کہتے ہیں کہ یہ دوائیاں ختم ہیں
حالانکہ ان کے پاس وہ سب دوائیاں ہوتی ہیں۔ میرے ایک جاننے والے نے نا م
صیغہِ راز میں رکھنے پر مجھے اسلام آباد اور راولپنڈی کے 3 ہسپتالوں کے
ڈاکٹرز اور دیگر سٹاف کی کرپشن کا بتا یا تو میر ے پاؤ ں کے نیچے سے جیسے
زمین سرک گئی۔ اُ س نے بتایا کہ ان ڈاکٹرحضرات کی اوپر کی کمائی ماہانہ
2سے3 لاکھ روپے ہے۔ استفسارپر اس نے بتا یا کہ ان انسان نمابھیڑیوں نے باہر
مختلف کیمسٹ سٹورز سے معاملات بنا رکھے ہیں اور انہیں قیمتی دوائیاں غیر
قانونی سپلائی کرتے ہیں اور ماہانہ لاکھوں روپے بٹورتے ہیں اور اس طرح سادہ
لوح مریض بسا اوقات علاج معالجہ وقت پر نہ ہونے کیوجہ سے جان کی بازی بھی
ہار جاتے ہیں۔اگر ہم اس حکومت کی بات کریں تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ حکومت
شعبہ صحت میں کچھ کرنا چاہتی ہے جیسے انہوں نے راولپنڈی میں حنیف عباسی کی
سربراہی میں ادارہ برائے امراض کلب بنا یا، بلا شبہ ایک بڑا کارنامہ ہے بس
حکومت وقت سے ایک چھوٹی سی درخواست ہے اگر ممکن ہو سکے تو پیمز ہسپتال
کیطرح 2 برن سینٹرز مزید پنڈی اسلام آباد میں بنائیں جائیں۔
نجی سطح پر شعبہ صحت میں قابل ِ قدر سوشل ویلفیئر کے اداروں نے ملکر غربت ،
جہالت اور بھوک و افلاس کے خاتمے کا بیڑا اٹھا یا ہے ۔ الخدمت فاؤنڈیشن
پاکستان 90ء کی دہائی سے ملک کے طول و عرض میں پھیلا فلاح وبہبود کا ایک بڑ
ا نیٹ ورک ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ باہر کی دنیا میں بھی خدمتِ خلق کے
لئے کوشاں نظر آتا ہے۔ اختصار کو ضروری سمجھتے ہوئے الخدمت فاؤنڈیشن پاکستا
ن کی صحت کے حوالے سے جاری سرگرمیوں پر ایک نظر کو ضروری سمجھتا ہوں۔
الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے پاس ایک محتاط اندازے کے مطابق 25,000 سے زائد
رضاکار ہیں جو انسانیت کے جذبے سے ہمہ تن سرشار ہو کر وفاق، چاروں صوبوں،
گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاقوں میں بلا تفریقِ رنگ ونسل اور مذہب
اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ بہرحال صحت کے عالمی دن کے موقع پر الخدمت کے
شعبہ صحت کی خدمات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ الخدمت فاؤنڈیشن کے
ہیلتھ پروگرام کے تحت ملک بھر میں الخدمت فاؤنڈیشن کے 90 ڈائیگنوسٹک سینٹرز،
16 زچہ بچہ مراکز صحت، 19 ہسپتال،152 کلینکس، 265 ایمبولینس سروس اور 10
بلڈ بینک کام کر رہے ہیں۔جبکہ سالانہ 74.4 ملین لوگ اس سے مستفید ہو رہے
ہیں اور اس پر تخمینہ خرچ 99 کروڑ85 لاکھ سالانہ ہے۔ پنجاب میں لاہور،
راولپنڈی ، سرگودھا،گجرات ، رحیم یار خان،فیصل آباد ، میانوالی ،اوکاڑہ میں
13 ہسپتال چل رہے ہیں ،سندھ میں ناظم آباد کراچی ،بن قاسم کورنگی، ایسٹ
ملیر ، نارتھ کراچی سینٹرل اور اورنگی ٹاؤن ویسٹ ، ٹنڈو اﷲ یار میں
6ہسپتال، جبکہ کے پی کے میں پشاور ہسپتال اورچارسدہ ماڈل ہسپتال چل رہے ہیں۔
الخدمت ہر محاز پر پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑی دیکھائی دیتی ہے اور ہر کڑے
وقت میں چاہے زلزلے ہوں ، سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں یا دہشت گردی کے ناسور
کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں ، الخدمت ہر دم حب الوطنی اور حبّ انسانی
سے سرشا ر ہو کر رضائے الٰی کے حصول کے لیے عوام کی خدمت کے لیے کھڑی ہے۔
آئیے" صحت کے عالمی دن "کے موقع عزم مصمم کرتے ہیں کہ فلاح وبہبود کے کاموں
میں امید اور روشنی کی قندیل بن کر ایک مستحکم اور صحت مند معاشرے کی بنیاد
تعمیر کرینگے۔ |