مجرم بھی اوراسٹار بھی!!!

’’خود کشی‘‘ بذاتِ خود ایک لعنت اور مبغوض ترین فعل ہے، دنیا کے کسی بھی قانون اور اصول میں اس کو درست قرارنہیں دیا گیا ہے، بلکہ تمام ادیانِ سابقہ اور لاحقہ میں اس کی کراہت کو یکساں طور پر بیان کیا گیا ہے؛مذہبِ اسلام جس کے پاس تمام ادیانِ معاصرہ اور سابقہ کے بالمقابل ایک مکمل نظامِ حیات ہے، اس نے توخود کشی کرنے والے کے لیے نمازِ جنازہ پڑھنا، جو کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پربنیادی حقوق میں سے شمار کیا جاتا ہے ، صاف منع کردیا ہے کہ اگر معاشرے میں کوئی بھی اس فعل کا مرتکب پایاگیا، تو اس کے جنازے کی نماز نہ پڑھی جائے، تاکہ مستقبل میں اگر کوئی اس حرکت کی جرأت کرے، توشریعت کی یہ پھٹکار اورمعاشرے والے کا یہ طرزاس کے لیے باعثِ عبرت ہو۔ آج جب ہم کوئی نیوز چینل کھولیں یاکسی اردو، ہندی اور انگریزی اخبارات کا مطالعہ کریں، تو سرِ ورق پر کسی نہ کسی کی خود کشی کی خبر ضرور اجاگر کی جاتی ہے اورایسا بھی نہیں ہے کہ صرف غربت سے جھوجھ رہے لوگ ہی اس حرکت کے مرتکب ہوتے ہیں، بلکہ اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو صاحبِ ثروت ہوتے ہیں، البتہ غریبوں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے، جن میں کسان اور مزدور طبقہ کے لوگ پیش پیش ہیں؛ اس کے اسباب ومحرکات سے قطعِ نظر کہ آخر یہ لوگ اپنی زندگی سے تنگ آکر کیوں خودکشی کر لیتے ہیں؟ کیا ان کو اپنی زندگی پیاری نہیں لگتی؟ صرف تھوڑی سی تکلیف کے باوصف وہ اپنی پھول جیسی خوبصورت زندگی کا گلا کیوں گھونٹ دیتے ہیں؟ سوال تو یہ ہے کہ ہمارے میڈیاوالے ایسے لوگوں کو ہیرو بناکرکیوں پیش کرتے ہیں؟ ان کی خبروں کو کیوں اتنا اچھالتے ہیں؟اس کے پیچھے آخر راز کیا ہے؟ اس کے پس منظر میں حکومت کیا پالیسی اپنانا چاہتی ہے؟ اس لیے کہ ایک ایسا فعل جو نہ صرف مذہب کی نظر میں مبغوض ہو، بلکہ ملک کے قانون میں بھی اس کو جرم ہی تصور کیا جاتا ہو، تو پھر ایسے لوگوں کو ہیرو بناکر پیش کرنا کیا معنیٰ رکھتا ہے؟اروندر کیجریوال جی کے جنتر منتر پر گجیندر نامی ایک کسان نے خودکشی کرلی، بلکہ اس سے پہلے اور بعدمیں بھی کئی کسانوں نے درخت سے لٹک کر یا زہر کھاکر موت کو گلے سے لگا لیا، پولیس تھانے میں جاکر پیٹرول سے تر ہوگئے اور ایک ہی پل میں اپنے آپ کو آگ کی نذر کرکے خاکستر ہوگئے، میڈیانے اپنی ٹی آر پی بڑھانے کی کوشش میں اس کو ہیرو بناکرپیش کردیا ا وراس مسئلہ کو خوب اچھالا اور اس میں زمین وآسمان کے قلابے ملادیا، پھر ہر طرف سے ایک دوسرے کے سر الزام تھوپنے کا بازار گرم ہوگیا؛ کوئی مودی حکومت کو الزام دے رہا ہے، تو کوئی اس کو دہلی پولیس کی ناکامی کی دلیل بتاتا ہے ، توکوئی عاپ حکومت کے گلے میں گھنٹی ڈالتا ہوانظر آتاہے،مگر طرفہ کی بات بھی یہ ہے کہ حکومت بھی اس کے پسماندگان کے لیے کسی نہ کسی معاوضہ کا اعلان کردیتی ہے۔ حالانکہ گجیندر یا اس جیسے دوسرے لوگ جو خودکشی کے مرتکب ہوئے ہیں قانونی اورمذہبی دونوں سطح پر مجرم ہیں ، تو پھر ان پر ان نوازشات کی اتنی برسات کیوں ؟مجرم بھی اور اسٹار بھی ،واہ کیا خوب ہے! جن پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے اورجن کے لاڈلے کوفرضی انکاؤنٹروں میں شہید کیاجائے، ان کے لواحقین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی تودور کی بات ان کی حالتِ زار پر بھی کوئی آنسو نہیں بہاتا؟ ہمارے سیاسی قائدین ان کی بپتاؤں کی دُہائی کیوں نہیں لگاتے؟ میڈیاوالے ان کے لیے انصاف کی لڑائی کیوں نہیں لڑتے؟ گذشتہ دنوں تلنگانہ میں ایک فرضی انکاؤنٹر میں کتنے مسلم جوانوں کی زندگیوں کا شمع بے دردی سے گل کردیا گیا، بلکہ اس سے قبل بھی بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر، عشرت جہاں انکاؤنٹر، ہاشم پورہ اور جمو وکشمیرمیں اور اس کے علاوہ نہ جانے کہاں کہاں بے گناہوں کے خون سے اس گنگا جمنی تہذیب والی سرزمین کو داغ دار کیا گیا اور اس کی پشت پر بے گناہوں کا ناحق قتلِ عام ہوا ، کیاکسی نے بھی ان کے لیے آنسو بہایا؟ کوئی بھی ان کی حمایت میں کھڑا ہوا؟ میڈیا والے کے وہ سنسنی خیز بیانات اور اسٹنگ آپریشن کہاں چلے گئے ؟بجائے اس کے کہ ہمارے سیاسی قائدین ان کے لواحقین کے آنسو پوچھتے، ان کے دُکھ درد کو بانٹتے اور ان کے لیے کسی معاوضے کا اعلان کرتے اور میڈیا والے ان کے انصاف کی لڑائی لڑتے لڑتے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرکے ظالموں کو کیفرِ کردار تک پہنچادیتے،وہ ان کو اور ان کی قوم کو لوگوں کی نظروں میں بدنام ورسواکردیے اور مظلوموں کو مجرم اور دہشت گردثابت کرنے میں ہزاروں شب صرف کردیے۔ ایک طرف تو مجرموں کو نوازا جاتا ہے اور اس کے کارنامے کو فلمانے کی کوشش کی جاتی ہے، تو دوسری طرف مظلوموں کی گردنیں ہی اڑادی جاتی ہیں،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ظلم اور جرم کی تشہیر سے ظلم اور جرم میں اضافہ ہی ہوتا ہے، کوئی کمی نہیں ہوتی۔کیا یہی انصاف ہے کہ مجرم کو نوازہ جائے اور بے قصوروں پر ظلم کیا جائے؟ کیا یہی ہندوستانی جمہوری قانون ہے کہ مجرموں پر نوازشات کی بارش ہو اور بے قصوروں کو مجرم فرض کرکے ان کی زندگی ہی اجاڑ دیں؟ نہیں ہر گز نہیں!وہ ہندوستان جس کی بنیاد ہی کثرت میں وحدت پر ہے، اس میں کیسے اس طرح کے قوانین ہوسکتے ہیں ، جس سرزمین کی آزادی کی داستان ہر طبقہ اور ہر مذہب کے لوگوں کے خون سے لالہ زار ہے اور اس کی گودمیں ہر ہندوستانی کا یکساں حصہ ہے ،کیا کسی شیر خوار بچے کی اس کی ماں کی گود پر اس کی تنہا اجارہ داری ہوتی ہے؟پھریہ مادرِوطن کیسے اپنے سپوتوں کے لیے ایسے قوانین وضع کرسکتی ہے؟در اصل ایک کہاوت مشہور ہے کہ’’ گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے‘‘یہ اس وقت کہا جاتا ہے، جب ایک ہی فیملی کا ایک فرد اپنے کسی فرد کے لیے کوئی برا سوچتا ہے یا کرتا ہے، جس کی وجہ سے دوسرے کو کوئی نقصان پہنچتاہے، یا پھر کوئی دوست یا معتمد اپنوں سے دغا کرجاتا ہے۔ آج ایسا ہی کچھ ہمارے اس ملک ہندوستان میں ہورہا ہے، اس ملک کا ایک طبقہ جو ’’ہندوتوا‘‘ ایجنڈے سے اتفاق رکھتا ہے،وہ روزِ اوّل ہی سے مسلسل اس گنگا جمنی تہذیب والے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے فراق میں سرگرم عمل ہے اور آزادی کے بعد سے ہی سے اس ملک کو تقسیم کرنے اور اس کی جمہوری فضاء کو پلید کرنے کے پاداش میں ہے؛ آر ایس ایس اوربجرنگ دل جویقیناًتمام اربابِ دانش کی نگاہ میں ایک کرپٹ اور دیش دروہی پارٹی ہیں، انہی کے اشاروں پر آج یہ سب کچھ ہورہا ہے، یہی وہ گندے اور ناپاک چہرے ہیں،جوپورے ملک میں اس طرح کی گھٹیہ حرکت اوردوغلی پالیسی انجام دیتے ہیں، ان کی نگاہوں میں مسلمانوں پر ظلم کرنا ثواب اور پُن کا کام ہے، جبکہ میری نگاہ میں ،بلکہ تمام اربابِ حل وعقد کی نظر میں وہ نہ تو صرف ہندوستان کی سلامتی اور امن وامان کے دشمن ہیں، بلکہ جس مذہب کا لبادہ اوڑھ کروہ ظلم وبربریت کاننگا ناچ ناچ رہے ہیں، دور دور سے بھی اس مذہب کا ان سے کوئی واسطہ اور رشتہ نہیں ہے ، ہندو مذہب سے معرفت کی تو دور کی بات، وہ اس مذہب کے ’’م‘‘ سے بھی واقف نہیں ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ وہ جہالت ہی میں ڈوبتے چلے جارہے ہیں اور جس جس پر اس کا اثر ہےِ خواہ وہ ملک کے کسی بڑے سے بڑے عہدے پر ہی فائز کیوں نہ ہوں، وہ انہی کی زبان بولنے کے عادی ہیں، میڈیا ہو یا کوئی بھی سیاسی قائد آج سب انہی کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اور ہر ایک پر انہی کا اثر غالب ہے اورپھر ہرکوئی ’’جیسا دیش ویسا بھیس‘‘ کی گندی راج نیتی کرنے پر مجبورہے۔ اگر کوئی ہمت کرکے ہیمنت کرکرے کی طرح بہادری کی تاریخ بھی رقم کرنا چاہتا ہے ، تو اس محبِ وطن کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے، صرف اس بنیاد پر کہ اگر کسی نے ان کے پاپوں کی گٹھری کھول دیا ،تواوپر سے لے کر نیچے تک سب کے سب ننگے ہوجائیں گے، لیکن یہ بھی ہندوستان کی ایک تاریخ رہی ہے کہ ظلم سَہ سَہ کر یہاں کی عوام نے سچائی کی صدا بلند کی ہے، حق پر رہ کر حق کا ساتھ دیا ہے اور انگریز جیسے ظالموں کو بھی ناک سے چنے چبانے پر مجبور کردیا ہے،اس لیے وہ جتنا بھی چاہیں ظلم کرلیں، بلکہ ظلم کی انتہاء کو پہنچ جائیں، مگروہ نہ تو کبھی ہندوستان کی اس جمہوری فضا کو مکمل طور پر ختم کرسکتے ہیں اور نہ ہی کبھی بھی اسلام اور مسلمانوں کو اس سرزمین پر مغلوب کرسکتے ہیں،اس کے لیے وہ جتنا بھی چاہیں جتن کر لیں، کتنے ہی واقعات کو توڑ مروڑ کے پیش کریں، جھوٹی جھوٹی اور بے بنیاد خبریں دکھا کر یا چھاپ کروہ جتناچاہیں عوام کو گمراہ کرلیں ، مگر ایک نہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب لوگوں کی آنکھوں کے سامنے سے چھوٹ کا بادل چھٹ جائے گا اور سچائی کی بارش ہوگی اور پھر اسی سچائی کے بہتے ہوئے پانی میں جھوٹ اور جھوٹے سب کے سب غرقاب ہون گے ان شاء اللہ کیونکہ ؂
ظلم کی ٹہنی سدا پھلتی نہیں
ناؤ کاغذکی سدا چلتی نہیں
Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 73391 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.