قانون کی بالا دستی۔۔۔ واہ جی واہ

کسی بھی ملک کے معاشرے میں پولیس کا کردارانتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ عام شہریوں کے بنیادی حقوق جان ، مال، عزت و آبرو کا تحفظ اور معاشرے میں امن امان کی فضاء برقرار رکھنا پولیس کے اولین ذمہ داری ہے۔بدقسمتی سے تیسری دنیا کے ممالک میں بالخصوص پاکستان میں جعلی اور فرضی پولیس مقابلوں میں لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا رجحان پروان چڑھ چکا ہے سندھ اور پنجاب سمیت ملک بھر کے پولیس اہلکاروں نے ماورائے عدالت شہریوں کو قتل کرکے ریاستی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے جس کا ذمہ دار صرف حکمران طبقہ ہی نہیں انصاف کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے اگر انصاف کے ایوانوں میں بیٹھنے والے اس سنگین جرم کے مرتکب پولیس اہلکاروں کے اقدامات کو سنجیدگی سے لیتے تو یقیناًآج کی صورتحال یکسر مختلف ہوتی اور ماورائے عدالت شہریوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ کبھی پروان نہ چڑھتا ۔ یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے ریاستی اداروں نے اپنے فرائض سے منہ موڑ کر ایک نئے رستے کا انتخاب کرلیا ہے جس کوکرپشن کا موٹر وے کہا جاتا ہے تھانوں میں رشوت کا بازار گرم ہونے کے علاوہ عدالتی عملہ بھی اسی ڈگر پر چل نکلا ہے آئے روز عدالتوں میں اہلکاروں کی کرپشن کے قصے عام اور ویڈیو ریکارڈنگز منظر عام پر آچکی ہیں۔ ڈی سی اوزاور ڈی پی اوز کو ضلعی سطح کی عدالتیں طلب کرنے سے ہر ممکن گریز کرتی ہیں ایسی صورت میں معاشرے میں امن و امان کی فضا کس طرح برقرار راہ سکتی ہے جہاں قانون امیر غریب اور عہدوں کے مطابق حرکت میں آتا ہو ۔ بزرگوں سے یہ تو سنا اور کتابوں میں پڑھا تھاکہ قانون اندھا ہوتا ہے لیکن اب یہ آشکار ہوا ہے کہ بزرگوں نے جو کہا تھا اور جو کتابوں میں لکھا ہے اس میں کوئی جھوٹ نہیں وہ مبنی بر حقیقت ہے بے گناہ کو گناہ گار اور گناہ گار کو بے گناہ کیا جارہا ہے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے ادارے آنٹی کرپشن کے روپ دھار چکے ہیں ۔ خلاف قانون فیصلوں کی بھرمار ہو رہی ہے غریب آدمی قانون کے شکنجے میں آرہا ہے جبکہ امیر آدمی کو دیکھ کر قانون اندھا ہو جاتا ہے اس طرح کی ہزاروں مثالیں روز مرہ کا معمول بن چکا ہے ۔ مثال کے طور پر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو کے شہر کے دو سگے بھائیوں پرویز اور عامر کا پولیس کے ہاتھوں قتل ٹھوس شواہدات کیساتھ سامنے آچکا ہے جس پر ملک کے مایہ ناز صحافی و دانشور کامران خان اپنے پروگرام میں انکشافات کر چکے ہیں تاہم قانون اندھا ہونے کی وجہ سے تاحال پولیس ملازمین اپنی اپنی عہدوں پر کام کررہے ہیں ۔ایسے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ قانون کی بالا دستی ۔۔ واہ جی واہ۔ حالیہ دنوں جو خبریں منظر عام پر آئی ہیں کہ کراچی کے علاقے ملیر میں شہریوں کو پکڑ کر ماورائے عدالت فرضی پولیس مقابلوں کا نام دیکر قتل کیا جارہا ہے افسوسناک امر ہے یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کسی بھی سیکیورٹی ادارے کو یہ اختیا ر کس نے دیا ہے کہ وہ شہریوں کو اپنے اپنے مزاج کے مطابق سزا جزا کا فیصلہ خود کریں ۔سیکیورٹی اداروں کا یہ عمل یقینی طور پر قابل مذمت اور قابل گرفت ہے ۔یقیناًمعاشرے میں ایسے اقدامات سے بے چینی پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ عدالتوں پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں ۔پر امن معاشرے کے قیام کیلئے یہ لازم ہے کہ بلا تفریق ان اہلکاروں کیخلاف کاروائی عمل میں لائی جائے جو ماورائے عدالت شہریوں کی ہلاکتوں میں ملوث ہیں ۔ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ دیکھنے میں آیا جس میں پنجاب پولیس کا ایک انسپکٹر جس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس نے 50 شہریوں کو ماورائے قانون قتل کیا ہے وہ اپنے آٹھ کس پرائیویٹ محافظوں کے درمیان عدالت میں پیشی کیلئے آرہا تھا دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک سیکیورٹی ادارے کا وہ آفیسر جس کے ذمے شہریوں کی حفاظت اور جان و مال کا تحفظ کرنا فرض ہے وہ خود بڑی بڑی داڑیوں اور مونچھوں والے جدید اسلح سے لیس پرائیویٹ محافظوں پر انحصار کررہا ہے یقیناًجو کوئی بھی اس ویڈیو کلپ کو دیکھے گا اس کو یہی گمان ہوگا کہ یہ پولیس آفیسر کسی کالعدم تحریک کے کارکنوں کے درمیان گرا ہوا ہے۔ حکومتی اداروں کو فوری طور پر ایسے پولیس اہلکاروں کا نوٹس لیکر معاشرے میں پھیلے ہوئے خوف و ہراس کا تدارک کرنا چاہیے۔تاکہ قانون کی بالا دستی یقینی بنائی جاسکے اورمحض کتابوں کی حد تک سوچ کو مات دی جاسکے۔
Sohail Ahmad Mughal
About the Author: Sohail Ahmad Mughal Read More Articles by Sohail Ahmad Mughal: 19 Articles with 12869 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.