ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی ولادت کا تاریخی پس منظر، نام و نسب اور تعلیم و تربیت

ام المؤمنین حضرت سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کی سیرت پر لکھی گئی ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی کی کتاب سے ۔۔۔۔۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی ولادت کا تاریخی پس منظر
اللہ تبارک و تعالیٰ کے مقدس گھر خانۂ کعبۂ کی دیواروں میںمختلف موسموں کی وجہ سے جگہ جگہ سوراخ پڑ گئے تھے۔ برسات کے موسم میں جب کبھی سیلاب آتا تو ان سوراخوں میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ پچھلے ۳۵؍ سال سے یہی حالات چل رہے تھے۔ مکۂ مکرمہ میں آباد قبیلۂ قریش کے لوگوں نے کئی مرتبہ خانۂ کعبہ کی مرمت کا ارادہ کیا لیکن وہ ڈرتے تھے کہ کہیں اللہ عزوجل ناراض نہ ہوجائے اور ان پر عذاب ٹوٹ پڑے ۔

اتفاق سے اسی دوران جدہ کے قریب سمندر میں سخت طوفان آیا اور یاقوم نامی ایک رومی تاجر کی کشتی اس طوفان کا شکار ہوکر ٹوٹ پھوٹ گئی۔ اور وہ جدہ کے ساحل پر آکرسکونت پذیر ہوگیا ۔ اس یاقوم نامی تاجر کو فنِّ تعمیر میں مہارت حاصل تھی، قریش کو جب اس بات کی خبر ملی تو انھوں قریش کے سب سے ذہین شخص ولید بن مغیرہ اور دوسرے چند لوگوں کو اُس تاجر کے پاس بھیجا تاکہ وہ یاقوم کو خانۂ کعبہ کی تعمیر و مرمت کے بارے میں آمادہ کرسکیں۔

چوں کہ کشتی کی تباہی کے ساتھ ساتھ اس کا سارا مالِ تجارت بھی تباہ و برباد ہوگیا تھا ۔ اس کے پاس اس وقت روپیہ پیسہ کچھ بھی نہ تھا ۔ اس لیے وہ خانۂ کعبہ کی تعمیر ومرمت کے لیے فوراً راضی ہوگیا۔ مکۂ مکرمہ میں رہنے والے ایک قبطی شخص جس کو بڑھئی اور معماری کے کام میں مہارت حاصل تھی یاقوم کی مدد کے لیے تیار کرلیا گیا۔

خانۂ کعبہ کی تعمیر و مرمت سے پہلے قریش کے قبیلوں نے آپس میں یہ طَے کرلیا کہ ہر قبیلہ ایک ایک طرف کی دیوار مسمار کرے لیکن ان میں کسی کو بھی ہمت نہ ہوئی ۔ سب ایک دوسرے کا منہ تکتے رہے کہ دیکھیں پہل کون کرتا ہے؟ انھیں شدید خوف اور اندیشہ تھا کہ کعبہ کی دیواروں کو شہید کرنے پر خداوند قدوس سخت ناراض ہوگا اور پھر اُن کا دنیا و آخرت میں کہیں بھی ٹھکانہ نہ رہے گا۔

ہر طرف خوف اور خاموشی طاری تھی ۔ ولید بن مغیرہ ڈرتے سہمتے آگے بڑھا آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہ رکن یمانی کے پاس پہنچا اور دھیرے سے رکن یمانی کے ایک حصے کو منہدم کردیا ۔ اس وقت اس کی حالت بڑی غیر تھی ۔ خوف کے مارے اُس کی جان نکلی جارہی تھی اس کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ موت کے منہ میں ڈھکیلا جارہاہو۔ ولید بن مغیرہ نے جب رکن یمانی کے پاس کے حصے کو مسمار کردیا تو سب لوگ بُری طرح ڈر گئے اور اس کام کو جوں کا توں روک کر اپنے اپنے گھروں کی طرف چل پڑے ۔ لوگوں کو سخت اندیشہ تھا کہ اب ولید کو سخت سزا ملے گی۔

دوسرے دن صبح سویرے تمام لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکلے تاکہ ولید کا حال دریافت کریں کہ اس کے ساتھ رات میں کیا بیتی؟ لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ ولید بن مغیرہ تو صحیح سلامت ہے تو ان کا خوف اور ڈر ایک پل میں دور ہوگیا ۔ اب لوگوں کے حوصلے بلند ہوگئے ۔ادب کے ساتھ کعبے کی دیواریں شہید کرنے میں مصروف ہوگئے ۔ ہر قبیلہ اس کام کو اپنے لیے ایک بڑی خوش نصیبی سمجھ کر بڑے جوش و خروش سے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کررہا تھا۔

کعبے کی دیواروں کی مسماری کے بیچ ایک بہت بڑا پتھر نمودار ہوا جس پر کدال اور پھاوڑے کا کچھ بھی اثر نہ ہوا، اس پتھر کو لوگوں نے سنگِ بنیاد قراردیا۔ مکۂ مکرمہ کے آس پاس کی پہاڑیوں سے نیلے پتھر اکٹھا کرکے کعبے کی تعمیر و مرمت شروع کی گئی۔ جب دیواریں کافی بلند ہوگئیں تو خیال آیا کہ حجر اسود کو اس کی پرانی جگہ پر لگادیا جائے ۔قریش کا ہر قبیلہ اس بات کا خواہش مند تھا کہ حجر اسود کو دوبارہ نصب کرنے کی سعادت اُسے نصیب ہوا۔

ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا قبیلہ بنی عبدالدار اور بنی عدی نے یہ عہد کرلیا کہ ہم کسی دوسرے قبیلے کو حجر اسود لگانے نہیں دیں گے۔ بنی عبدالدار کا یہ عہد صرف زبانی نہیں تھا بل کہ وہ خون سے بھرا ہوا ایک برتن لائے اور اس میں ہاتھ ڈال کر اپنے عہد کو دہرایا ۔ اس واقعہ کے بعد سے عبدالدار کا لقب ’’لعقۃ الدم ‘‘ یعنی خون چاٹنے والا پڑگیا۔

ہر قبیلے کے لوگوں کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں تھیں اور وہ ایک دوسرے کو کھاجانے والی نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ وقت بڑا نازک ہوگیا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ کسی بھی وقت کوئی بہت خطرناک واقعہ پیش آسکتا ہے ۔

اس جھگڑے فساد کو ختم کرنے کے لیے قریش کے کئی سرکردہ لوگ اکٹھا ہوئے کہ اس معاملے کو کس طرح حل کیا جائے۔ ابو امیہ بن مغیرہ مخزومی قریش کے تمام قبیلوں میں بڑا اور عقل مند تسلیم کیا جاتا تھا ، اس نے مشورہ دیا کہ :
’’ اس مسئلہ کوحل کرنے کے لیے اس شخص کو ثالث مانو جو صفا کے دروازے سے کل صبح سویرے سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہو۔ ‘‘

ابو امیہ بن مغیرہ مخزومی کی اس تجویز سے قریش کے سب ہی قبائل نے اتفاق کیا۔ اس کے ساتھ ہی تلواریں نیام میں چلی گئیں اور سب ایک طرف ہٹ کر اس انتظار میں بیٹھ گئے کہ دیکھیں کل صبح سویرے کون شخص ادھر آتا ہے۔

یہ رات قریش کے لوگوں کے لیے ایک بڑی رات ثابت ہورہی تھی ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ رات گزر ہی نہیں رہی ہے۔ بڑی آہستہ آہستہ رات گزرتی رہی کہ اچانک منہ اندھیرے لوگوں نے دیکھا کہ ایک شخص بڑے وقار اور متانت سے چلا آرہا ہے اور پھر وہ صفا کے دروازے سے کعبۃ اللہ میں داخل ہوا۔ لوگوں نے دیکھا توبیک زبان چلا اٹھے۔
’’ یہ امین ہے ۔ یہ صادق ہے۔ ہم اسے خوشی خوشی اپنا ثالث مانتے ہیں۔ ‘‘

یہ عظیم ہستی ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور کعبۃ اللہ کی تعمیر کا یہ واقعہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پانچ سال پہلے کا ہے۔ قریش کے بزرگوں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ساری صورتِ حال عرض کی۔

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سخت انداز کو فوراً بھانپ لیاکہ ان کی مرضی کے خلاف اگر کوئی بھی بات ہوگئی تو دوبارہ تلواریں نیاموں سے نکل آئیں گی۔ آپ ﷺ نے حالات کی نزاکت کے اعتبار سے فرمایا: ’’ ایک چادر لاؤ۔‘‘

چناں چہ اس وقت لوگوں نے چادر لاکر دے دی۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقدس ہاتھوں سے حجر اسود کو اٹھایا اور اُس چادر کے بیچوں بیچ رکھ دیا ، پھر ارشاد فرمایا:
’’ ہر قبیلے کے کچھ لوگ اس چادر کا ایک ایک گوشہ پکڑ کر اٹھائیں۔‘‘

سب نے ایسا ہی کیا اور پھر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حجر اسود کو اپنے مبارک ہاتھوں سے اُس کے اصل مقام پر رکھ دیا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ اتنا صحیح اور دانش مندانہ تھا کہ قریش کے ہر قبیلے کا ایک ایک فرد خوش ہوگیا اوراس طرح اللہ تعالیٰ نے حجر اسود کو اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھوں لگوادیا ۔ بعثتِ مبارکہ سے پہلے قریش کے تمام قبیلوں نے آپ ﷺ کی امانت اور صداقت کی گواہی دی۔

بنی عبدالدار نے اس معاملے میں جو تیور دکھایا وہ بڑا سخت گیر تھا۔ لیکن نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بصیرت افروزاور مدبرانہ فیصلے کی وجہ سے ایک بڑا خونی ٹکراوٹَل گیا ۔ اسی دوران نبی عدی کے ایک گھرانے میں زینب زوجہ عمر بن خطاب نے ایک خوب صورت بچی کو جنم دیا ۔ اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھاکہ آج سے بائیس سال بعد اس بچّی کو اتنا بڑا اعزا ز حاصل ہوگا کہ قیامت تک پیدا ہونے والے مومنوں کی گردنیں اس کے سامنے ادب سے جھک جائیں گی ۔ یہ نبیِ آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ اور ام المؤمنین کے لقب سے سرفراز ہوں گی۔ اسی بچّی کو اسلامی تاریخ میں حضرت سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کے نام سے جانا جاتا ہے۔

نام و نسب اور والدین
ام المؤمنین حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں جو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے خلیفہ تھے۔ ان کا نام حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما تھا ۔ ان کی نسبت قرشیہ عدویہ ہے، اور ان کی والدہ زینب بنت مظعون بن حبیب بن وہب بن حذافہ بن جمح تھیں۔

زمانۂ جاہلیت میں قریش نے مکۂ مکرمہ میں نظم و نسق قائم رکھنے اور انتشار و افتراق کو ختم کرنے کے لیے آپس میں مختلف قبیلوں کو الگ الگ ذمہ داریاں تقسیم کررکھی تھیں۔ ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے قبیلے بنی عدی کے پاس سفارت کا عہدہ تھا ۔ یہ وہ قبیلہ تھا جس کا سلسلۂ نسب دسویں پشت میں لوی پر جاکر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا تھا۔اگر کسی دوسرے قبیلے کو قریش کے ساتھ کوئی سیاسی معاملہ پیش آجاتا تو بنی عدی کے لوگ ہی بہ حیثیت سفیر معاملات طَے کرتے تھے۔ مکۂ مکرمہ میں ثالثی کے فیصلے اسی قبیلے کو انجام دینا پڑتے تھے، اسلام سے پہلے مکۂ مکرمہ میں ثالثی اور سفارت کا منصب ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے والدِ گرامی امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اندر معاملہ فہمی، دوراندیشی ، تدبر، فصاحت و بلاغت، عدل و انصاف کی خصوصیات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ قریش کے تمام قبیلوں میں آپ کی شخصیت سب سے ممتاز تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا شمار قریش کے ان سترہ افراد میں ہوتا تھا ۔

جس طرح حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دسیوں پشت پر جاملتا تھااسی طرح ماں حضرت زینب بنت مظعون کی طرف سے ان کانسب آپ ﷺسے کعب میں جا ملتا ہے۔

اُن دنوں یوں تو دینِ ابراہیمی معدوم ہوچکا تھا اور بیت اللہ شریف میں بت پرستی عروج پر تھی۔ کعبۃ اللہ میں تین سو ساٹھ بت نصب تھے۔ ان حالات کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین سے ناواقف نہیں تھا۔ زید بن عمر و بن نفیل جو کہ ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے والدِ محترم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے چچاتھے۔ یہ زمانۂ جاہلیت کے وہ پہلے شخص تھے جن کو کفر و شرک کے اندھیروں میں توحید کی روشنیاں دکھائی دیں اور انھوں نے پکار کرکہاکہ :’’ اے اللہ ! مَیں تجھ کو گواہ کرتا ہوں کہ مَیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مذہب پر ہوں۔‘‘ اور پھر قریش سے یوں مخاطب ہوئے:’’ اے قریش ! اللہ کی قسم میرے سوا تم میں کوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر قائم نہیں۔‘‘

وہ بتوں کے نام پر قربان کیے گئے ذبیحے نہیں کھاتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کے بڑے سخت مخالف تھے۔ وہ لوگوں کو بت پرستی ترک کرنے کی تلقین کرتے۔ ان کا چچا خطاب بن نفیل اپنے بھتیجے کے اس رویے سے سخت ناراض تھا اور اس کا دشمن بن گیا تھا۔ اور انھیں طرح طرح کی تکلیفیں پہنچانا شروع کردی ، یہاں تک کہ جب زید بن عمر و بن نفیل یہ مصائب برداشت نہ کرسکے تو ہجرت کرکے حرا میں جاکر رہنے لگے۔

ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے والد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ انہی زید بن عمر و بن نفیل کے چچا زاد بھائی تھے اس لیے ان کے کانوں میں توحید کی آواز پڑ چکی تھی ۔ چوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فطرت بڑی سلیم تھی اور وہ دوراندیش ، عقل مند اور پڑے لکھے شخص تھے اس لیے وہ راہِ حق پر آگئے ۔ نیک کاموں کی طرف ان کی رغبت برھ گئی اور وہ اللہ کی رضا و خوشنودی کے متلاشی رہنے لگے۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ خود نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مسلمان ہوتے اُن کے گھر میں اسلام داخل ہو چکا تھا۔ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانِ نبوت فرمایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان کے افراد میں سب سے پہلے زید بن عمر و بن نفیل کے بیٹے حضرت سعید بن زید نے اسلام قبول کیا اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی بہن فاطمہ بنت خطاب سے ہوا تو وہ بھی اسلام میں داخل ہوگئیں۔

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اعلانِ نبوت فرمایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ستائیس سال کے تھے۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ مرادِ رسول بن کر اسلام کے دامن میں آئے اور اپنے سارے خاندان کے ساتھ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار غلام بن گئے۔

تعلیم و تربیت
ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی پیدایش جس گھریلو ماحول میں ہوئی ۔ اس نے ان کے اَخلاق و کردار اور طبیعت و مزاج کو بڑا نکھارا ۔ اُن کے اندر بے خوفی اور بے لوثی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ والدِ گرامی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خصوصی طور پر ان کی تربیت فرمائی ۔ انھیں اس زمانے کے اعتبار سے ضروری علوم و فنون سکھائے ۔ چوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود ایک ایسے تعلیم یافتہ مدبر اور دانش ور شخص تھے جن کو زمانۂ جاہلیت میں سفارت کا عہدہ حاصل تھا ۔ وہ قریش کے سترہ پڑھے لکھے افراد میں سے ایک اہم شخص تھے۔ اس لحاظ سے بھی انھوں نے اپنی اولاد کی بڑی خوش اسلوبی سے تربیت فرمائی ۔ یہی وجہ ہے کہ ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے اندر صاف گوئی اور یک رنگی نمایاں تھی۔ جرأت و بے باکی آپ کے ایک ایک انداز سے ظاہر ہوتی تھی۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اعلانِ نبوت کے چھٹے سال میں اسلام قبول کیا ۔ انھوں نے تنہا اسلام نہیں لایا بل کہ اسی دن اپنے پورے خاندان کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں دے دیا تھا۔ اُس وقت ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی عمر دس سال تھی۔ چناں چہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی تربیت دائرۂ اسلام میں آنے کے بعد مزید تیزی سے اور احسن طریقے سے ہوئی ۔ حتیٰ کہ آپ نے پڑھنا لکھنا بھی سیکھا۔
 
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 596842 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More