ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح ، مدینہ منورہ ہجرت اور شوہر کی شہادت
(Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi, Malegaon)
ام المؤمنین حضرت سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کی سیرت پر لکھی گئی
ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی کی کتاب سے ۔۔۔۔۔ |
|
بنو سہم میں سے ایک صحابی حضرت خنیس بن
حذافہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ اسلام کی طرف سبقت کرنے والوں میں سے تھے۔ دوسرے
مسلمانوں کی طرح انھیں بھی کفار و مشرکین نے طرح طرح کی تکلیفیں اور اذیتیں
دیں ، لیکن حق کے اس جاں نثار نے ان مصائب و آلام کو ہنس کر برداشت کیا ۔
لیکن جب دوسری مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حبش کی طرف ہجرت کی
اجازت عطا فرمادی تو یہ بھی اُن مہاجرین میں شامل ہوگئے۔ یہ مہاجرین وہاں
آزادی سے اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے بڑے سکون سے دن گزارتے رہے اور پھر
کچھ عرصہ بعد واپس مکۂ مکرمہ آگئے۔
اُن دنوں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی عمر اتنی ہوچکی تھی کہ اب اُن کی شادی
کردینی چاہیے تھی۔ چناں چہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کے لیے حضرت
خنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا ۔ دونوں کی شادی کردی گئی اور وہ
ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔
مدینۂ منورہ ہجرت
اعلانِ نبوت کے بعد مکۂ مکرمہ کے کفار و مشرکین نے مسلمانوں کو طرح طرح سے
ستانا شروع کیا ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ جاں نثار غلام اُن
دشمنانِ اسلام کے ہر ستم کو ہنس ہنس کر گوارا کرتے رہے اور اُف بھی نہ کی۔
اللہ عزوجل کے حکم پر جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانِ نبوت کے
تیرہویں سال اپنے جاں نثاروں کو مکۂ مکرمہ سے مدینۂ منورہ ہجرت کر جانے
کی اجازت عطا فرمائی تو تب صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنا
وطن چھوڑا۔ اس دوران بھی مکہ کے کفارو مشرکین نے ہجرت کے راستے میں حائل
ہونے کی کوشش کی۔ چناں چہ مسلمان عام راستے سے ہٹ کر مدینے کی طرف روانہ
ہوئے۔ لیکن جب ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے والد حضرت عمر بن
خطاب رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا ارادہ فرمایا تو بڑی شان و شوکت سے مکۂ
مکرمہ کو خیرباد کیا۔ گلے میں تلوار لٹکالی، اپنے پہلو میں نیزہ باندھا ،
پیٹھ پر ترکش لگایا، ہاتھ میں کمان لی اور گھوڑے پر سوار ہوکر سیدھے خانۂ
کعبہ کی طرف گئے۔ اس وقت کفار و مشرکین کا جتھا وہاں الگ الگ گروہوں کی شکل
میں موجود تھا۔
ہجرت کے سفر پر روانہ ہوتے وقت ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاکے
والد حضرت عمر فاروق بن خطاب رضی اللہ عنہ سب سے پہلے بیت اللہ میں داخل
ہوئے اور خانۂ کعبہ کا سات بار طواف کیا۔ پھر مقام ابراہیم پر دو رکعت
نماز ادا فرمائی۔ اس کے بعد کفار و مشرکین کی طرف لپکے اور ببانگ دہل یہ
خطاب فرمایا:
’’ تمہارے چہرے مسخ ہوجائیں ، تمہاری ناک خاک آلود ہو ، جو شخص چاہتا ہے
کہ اپنی ماں کو اپنے پیچھے روتا ہوا چھوڑے ۔ اپنی بیوی کو بیوہ بنائے اور
اپنے بچوں کو یتیم ہونے دے وہ حرم کے باہر آکر مجھ سے جنگ کرلے ۔ مَیں
ہجرت کرکے مدینہ جارہا ہوں ۔ اگر کسی میں دم خم ہو تو مجھے روک کر دکھائے۔
‘‘
اتنا خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے آس پاس
نظر ڈالی۔ جہاں مختلف گروہوں میں کفار و مشرکین بیٹھے ہوئے تھے ۔ مگر ان
میں کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ وہ اپنی زبان سے کوئی جملہ نکالے یا آگے بڑھ کر
انھیں روکنے کی جرأت کرسکے ۔ ایسا لگتا تھا جیسے انھیں سانپ سونگھ گیا ہے۔
پھر آپ رضی اللہ عنہ حرم شریف سے باہر تشریف لائے ۔ اسی دورانمکہ میں
ٹھہرے ہوئے مسلمانوں کو اس بات کا علم ہوچکا تھا کہ آج حضرت عمر بن خطاب
رضی اللہ عنہ مدینۂ منورہ کی طرف ہجرت کرنے والے ہیں ۔ لہٰذا ایسے کمزور
مسلمان جو کفار و مشرکین کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے ۔ وہ سب بھی ام ا
لمؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے
ساتھ ہجرت کی غرض سے آکر مل گئے۔ ان مہاجرین کی تعدا د بیس ہوگئی ۔ ان
لوگوں میں ام ا لمؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ ، ان کے شوہر حضرت خنیس بن
خذافہ ، ان کے چچا حضرت زید بن خطاب اور پھوپھا حضرت سعید بن زید رضی اللہ
عنہم جیسی بلندمرتبہ شخصیات بھی تھیں۔
یہ مختصر ساقافلہ مدینۂ منورہ کی طرف رخصت ہوا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ
عنہ کے رعب و جلال اور ہیبت و دبدبہ کا وہ عالم تھا کہ کفار و مشرکین
خاموشہ سے انھیں جاتے دیکھتے رہے کسی میں کوئی ہمت و جرأت نہ ہوئی کہ
انھیں روک سکے۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ نورانی قافلہ
سفر کی مشکلات اور پریشانیوں کو سہتا ہوا بعض جگہوں پر قیام کرتے ہوئے چلتا
رہا۔ چند دنوں کے بعد یہ لوگ مدینۂ منورہ کے قریب قبا میں پہنچے اور وہیں
رہنے لگے۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے شوہر حضرت خنیس رضی اللہ عنہ کی شہادت
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اعلانِ نبوت کے تیرہویں سال ۲۷؍ صفر کو
اللہ تعالیٰ کے حکم سے رات کے اندھیرے میں اپنے پیارے دوست حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکۂ معظمہ سے مدینۂ منورہ کی طرف ہجرت کے لیے
روانہ ہوئے۔ غارِ ثور میں تین دن قیام فرمانے کے بعد ۱؍ ربیع الاول بروز
اتوار رات میں مدینہ جانے کے لیے نکلے۔ اور ۹؍ ربیع الاول پیر کے روز قبا
تشریف لائے ۔ جہاں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن قیام فرمایااور
پھر مدینہ کی جانب روانہ ہوئے۔جمعہ کے روز نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم
مدینۂ منورہ میں داخل ہوئے یہ دن مدینہ کے لوگوں کے لیے کسی عید سے کم نہ
تھا ۔ وہاں کے لوگ خوشی و مسرت کے ترانے گنگنا رہے تھے ، وجد کررہے تھے،
بنو نجار کی لڑکیاں دف بجا بجا کر استقبالیہ گیت گارہی تھیں۔ ہجرت کے بعد
اسلام کا یہ نیا انقلابی دور شروع ہوا۔
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت سے ہجرت تک قریش کے لوگوں نے
پوری شد ومد کے ساتھ اسلام کی مخالفت کی توحید و رسالت کے متوالوں اور
شیدائیوں کو مارا پیٹا ستایااور طرح طرح کی اذیتیں دیں۔ مدینۂ منورہ کے
یہودیوں نے جب اسلام کی مقبولیت دیکھی تو وہ بھی چراغ پا ہوگئے اور اسلام
اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی ترکیبیں سوچنے لگے۔
امنِ عالم کے داعی رحمتِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی جنگ
و جدال اور خوں ریزی سے اجتناب برتا ۔ ہاں! جب کبھی موقع پیش آیا اور
مخالفین کو سبق سکھا نا ضروری معلوم ہوا تو اس وقت آپ نے جنگ کی ۔
مکۂ مکرمہ کے کفار و مشرکین نے ایک لشکر تیار کرکے مدینے کی طرف چڑھائی کی
۔یہاں بھی مسلمانوں نے اپنا ایک مختصر فوجی دستہ تیار کرلیا تھا۔ چناں چہ
اسلامی تاریخ کی پہلی جنگ میدانِ بدر میں ہوئی جسے جنگِ بدر کے نام سے جانا
جاتا ہے۔ وہ رمضان المبارک کی سترہ تاریخ اورسنہ ہجری دو تھا جب معرکۂ بدر
پیش ہوا۔ ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے شوہر حضرت خنیس بن حذافہ
رضی اللہ عنہ بھی اس مقدس معرکے میں شریک ہوئے۔ بڑی جرأت و بہادی کو
مظاہرہ کیا ۔ دشمنوں کے چھکے چھڑادیے ، خو ب جم کر لڑے ۔ دشمنوں کو مارا
بھی اور خود بھی زخم کھائے آخر کار زخموں سے چور چور ہوگئے۔ اسی حالت میں
انھیں مدینۂ منورہ واپس لایا گیا جہاں انھوں نے غزوۂ بدر کے زخموں کی وجہ
سے شہادت کا جام نوش کیا۔ اس وقت حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی عمر اکیس سال
تھی۔
غزوۂ بدر ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے قبیلے بنی عدی کے لیے
بڑے اعزاز و اکرام اور خصوصیت کا سبب بنا ۔ جیسے:
٭ جنگ سے پہلے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر مشرکوں کے پاس
بات چیت کے لیے بھیجا گیا تاکہ جنگ سے پہلے حجت قائم ہوجائے ۔ انھوں نے
جاکر کہا :’’ تمہارے ساتھ ہماری خونی رشتے داریاں اور تعلقات ہیں ۔ تمہار ا
ہمارے ساتھ لڑنا غیر مناسب ہے۔ بہتر ہے کہ تم واپس چلے جاؤ۔‘‘ حضرت عمر
فاروق رضی اللہ عنہ کی بات سُن کر ابوجہل نے کہا :’’ یہ بات ہمیں قطعی
منظور نہیں ۔ ہم تم سے ضرور بدلہ لیں گے۔‘‘ اس کے بعد جنگ کا آغاز ہوا۔
٭ دشمنوں کی فوج میں مکہ کے ہر قبیلے کے نمایندے شامل تھے لیکن ام
المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے قبیلے کا کوئی بھی فرد اُس میں نہیں
تھا جس نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کی ہو۔
٭ مسلمانوں کیطرف مہاجرین میں ہر قبیلے کے افراد موجود تھے ۔ اُن میں بنی
عدی کے لیے یہ امتیاز تھا کہ اس قبیلے کے چودہ افراد تھے جنھوں نے ہمت و
بہادری اور جرأت و جواں مردی کا جو مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ تھا۔
٭ جنگِ بدر میں جس مسلمان مجاہد کا سب سے خون بہا وہ حضرت مہجع رضی اللہ
عنہ تھے ۔ جن کا تعلق بھی ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے قبیلے
بنی عدی سے تھا ۔
٭ اسی معرکۂ بدر میں ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے شوہر حضرت
خنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے جامِ شہادت پیا اور بارگاہِ خداوندی میں
مقبولیت حاصل کی۔ |
|