اسلام اور خانقاہی نظام(14)

اگر کوئی شخص مزاروں'خانقاہوں کا سفر کرتا ہے تو وہ ہمارے بیان کردہ واقعات کے ایک ایک حرف کو سچ پائے گا۔
 حیدر آباد میں”ولی“ کے بت کی پوجا:
محمد بن قاسم کا قافلہ دیبل سے ٹھٹھہ آیااور یہاں سے حیدر آباد کو روانہ ہوا-ا ب بھی ٹھٹھہ اور حیدرآباد کے درمیان ان مجاہدین کی قبریں ”سوڈا“ کے مقام پر موجود ہیں - وہ مجاہدین کہ جو ہندو سے دو دو ہاتھ کرنے آئے تھے- حیدر آباد میں دو قلعے ہیں- ایک ”کچا قلعہ“ ہے اور دوسرا پکا--کبھی وہ وقت تھا کہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ کی سپاہ نے یہ قلعے ہندوں سے چھینے اور یہاں توحید وجہاد کے پرچم لہرائے -مگر آج ان قلعوں پہ نہ کوئی توحید کا نشان ہے اور نہ جہاد کی علامت!”کچے قلعے“ پر جب ہم چڑھے تو آج وہاں ایک دربار تھا‘ جسے پیر مکی کا دربار کہا جاتا ہے-ہمارے دیکھتے دیکھتے ایک عورت دوڑتی ہوئی آئی‘ وہ متواتر رو رہی تھی آہ زاری کر ہی تهی وہ دربار کی کھڑکی پر جاتی ‘الٹے قدموں پیچھے چلتی اور پھر دوڑ کر”’بابے“ کی قبر کے پاس پہنچ جاتی- ہاتھ جوڑ کر بابے سے فریادیں کرتی- ہٹ ہٹ کر دیوار سے ٹکریں مارتی -وہ کہہ رہی تھی-” بابا میری بیٹی بیمار ہے - تو اسے ٹھیک کر دے-نہ جانے کتنی اور بچاری انهیں بابوں کو ہی اپنا سب کچھ سمجهتی ہیں.بہرحال! اگر یہ مزار/دربار/خانقاہیں نہ ہوں تو یقینا لوگوں کو شرک کا موقع بهی کم میسر ہو.شرک کی ایک بڑی وجہ یہ دربار/خانقاہیں ہیں.《فوت شدگان کا زندوں پر کیا حق ہے اس کی تفصیل آگے آئے گی》

مدینے کو جانیوالا خفیہ راستہ : اسی دربار کی پشت پر ایک تنگ سی کوٹھری ہے-وہاں ایک کھڑکی ہے کہ جس کے ساتھ لوگ تالے اور دھاگے باندھتے ہیں-اور منتیں مانگتے ہیں.اس کھڑکی کے بارے میں یہ مشہور کیا گیا ہے.یہ راستہ مدینے کو جاتا ہے'مدینہ کو جاتا ہے یا نہیں اللہ ہی بہتر جانے البتہ شرک کے ویرانوں میں ضرور جاتا ہے-اور وہ مکہ جہاں سے دو راستے نکلے‘ ایک تو وہ راستہ تھا کہ جس پر اہل مکہ کچھ اس طرح سے گامزن تھے کہ صحیح مسلم میں ہے: حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :یہ (مکی مشرک) کہا کرتے تھے ”اے اللہ(تیرے دربار میں ) حاضر ہیں- تیرا کوئی شریک نہیں ( یہ سن کر) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہتے ‘ تم پر افسوس ہے یہیں رک جاو- یہیں ٹھہر جاو-- مگر وہ نہ رکتے اور ( پھر یوں کہتے)”اے اللہ تیرا شریک تو کوئی نہیں“ مگر وہ شریک کہ جو تیرا ہی ماتحت ہے اور اس کا توہی مالک ہے اور جس چیز کا یہ بزرگ مالک ہے- اس کا بھی تو ہی مالک ہے”(مکی مشرک) یہ کلمات کہتے اور بیت اللہ کا طواف کرتے تھے ان بزرگوں کو سفارشی بناتے تهے- قارئین کرام! ایک تو یہ راستہ ہے کہ جس پہ مکی بزرگ ابو جہل‘ عتبہ اور شیبہ وغیر گامزن تھے اس راستے کو اللہ تعالی نے رد کیا.جس کی تفصیل ہم آپکو اسی سلسلہ کے آخر پر *ولی اللہ کون*میں بتایئں گے-مکے کا دوسرا وہ راستہ ہے کہ جس پر امام الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چل کر دکھایا ہے -اس راستے میں کسی قبر پر نہ پرستش‘نہ دربار کی کوئی گنجائش ہے نہ کسی عرس و میلے کی اجازت ہے ‘ اس لئے کہ اگر یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ کا راستہ ہوتا تو سب سے بڑا عرس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر لگتا‘ اس کے بعد سب سے بڑا میلہ و عرس صدیق اکبر فاروق اعظم یا دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی قبروں پر لگتے‘ کہ جو زندگی میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں تھے اورآج ان کی قبریں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں ہیں اور قیامت کے روز جنت میں بھی اسی طرح داخل ہوں گے-- حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کا جو راستہ ہے‘وہی سیدھا راستہ ہے-اسی راستہ کے بارے میں اللہ نے مسلمانوں کو دعا کرنے کی یوں تلقین فرمائی ہے:اِھدِنَاالصِّرَاطَ المُستَقِیم(اے اللہ)”ہمیں سیدھے راستے پہ چلا“ یاد رکھئے! مکے سے نکلنے والے دو راستے ہیں‘ ایک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کا راستہ ہے اور دوسرا ابو جہل اور اس کے پیروکاروں کا راستہ ہے -یہ دونوں راستے آج بھی موجود ہیں-ان پر چلنے والے بھی موجود ہیں- بات صرف پہچان کی ہے وہ پہچان کر لینی چاہئے- اور پھراس راستے پہ چلنا چاہئے جو محمد مکی و عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے-اور اس راستے پہ چلنے کی جو راہنما کتابیں (Guide Books ) ہیں‘ وہ قرآن اور حدیث کی کتابیں بخاری و مسلم....وغیرہ ہیں- ان کا مطالعہ کر کے اصل دین اسلام کی پہچان کر لینی چاہیئے اسی میں ہی یقینا کامیابی ہے-

”کچے قلعے“ سے اترنے کے بعد دائیں جانب ایک دربار ہے - اس صاحب دربار کے بزرگ کو سندھی زبان میں”سائیں امیدن بھریو“ کہتے ہیں- یعنی وہ پیر جو کہ امیدیں پوری کرتا ہے‘ مگر ہماری منزل اب پکا قلعہ تھی- پکا قلعہ سے پہلے ہم شاہی بازار کی ایک تنگ گلی کے کنارے پہنچے- اس کنارے پہ ایک بڑا دربار ہے- اب اس دربار کے حیا سوز مناظر ملاحظہ کیجئے- جاری ہے.....
عمران شہزاد تارڑ
About the Author: عمران شہزاد تارڑ Read More Articles by عمران شہزاد تارڑ: 43 Articles with 42540 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.