روہت کی خودکشی پر سیاست

 آ ج پورے ہندوستان میں سیاسی پارٹیاں اس ایک طالب علم کی موت پر سیاست کر رہی ہیں جس نے گزشتہ روز حیدرآباد یونیورسٹی سے نکالے جانے پر خودکشی کی تھی ۔یہ بیجد شرمنا ک بات ہے۔ کوئی بھی انسان خود کشی نہیں کرنا چاہتابلکہ کچھ ایسے واقعات و حادثات اس کے ساتھ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ حادثات یا واقعات اس کے لئے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل بن جاتا ہے اور پھر وہ اپنے آخری فیصلہ کے طور پر دل برداشتہ ہو کر وہ قدم اٹھا لیتا ہے جس سے خود وہ بیگانہ ہوتا ہے ،یا پھراسے خودکشی کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ کسی چیز کی چاہ یا ناانصافی اس کے ذہن میں اس طرح جاں گزیں ہو جاتا ہے کہ وہ اس طرح کے فیصلے لے لیتا ہے ۔لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ خودکشی زیادہ تر وہ افراد کرتے ہیں جس کم علم ہوتے ہیں لیکن ہندوستان میں زیادہ تر واقعات میں دیکھا جارہا ہے اس فعل میں تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد زیادہ ہے ۔سماج کو اپنے ماحول کا جائزہ لینا چاہئے کہ آخر کون سے عوامل ایسے ہیں جس کی وجہ سے لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ایک بات تو سمجھ میں یہ آتی ہے کہ آج انسان کی دل جوئی کرنے کا کسی کو وقت نہیں ہے یا پھر دلاسہ امید تک کوئی کسی کو نہیں دے پارہا ہے ایسے حالات میں انسان اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے اور پھر خود کشی کے رجحان اس کے دل میں پنپنے لگتی ہے ۔زیادہ تر نا انصافی کی وجہ سے بھی ایسے افعال انجام دیتے ہیں۔لیکن ایک بات ملک کی سیاسی لیڈروں کی سمجھ میں آنی چاہئے کہ کسی بھی مسئلے پر سیاست کرنے سے پہلے یہ بھی نہیں سوچا جاتا اس کا کیا اثر ہوگا۔حالانکہ ایک طالب علم کا خود کشی کرنا سماج کے لئے بد نماداغ ہے۔ سماج نے اسے اتنا مجبور کر دیا کہ وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہو گیا۔ یہ بہت ہی افسوس ناک پہلو ہے ۔جس پر سماج کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے ۔روہت کا خودکشی کرنا ہر کسی کے لئے افسوسناک ہے لیکن اس پر سیاست کرنا اس سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس پر سیاست کے بجائے روہت کی خودکشی کے لئے ذمہ دار افراد کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ پتہ لگانا چاہئے کہ آخر کیوں وہ اپنی جان گنوانے پر مجبور ہوا ۔کیمپس کے ماحول کو درست کرنے کیلئے نکال دینا کیا مسئلہ کا حل ہے ؟آخر وہ ہندوستان کا شہری ہے جہاں بھی جائے گا اس کے دماغ وہی بات چلے گی جس کی وجہ اسے نکالا گیا ہے ۔تعلیمی اداروں کا سب سے بھیانک اگر کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو وہ یہ کہ کسی کو کسی تعلیمی اداروں سے نکال دیا جائے ۔یہ فیصلہ کسی بھی لحاظ سے ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ اسکول یا کالج سے نکالے گئے طالب علم سماج کے زیادہ خطرناک ہو جاتے ہیں اور وہ تمام کام انجام دینے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں جو خود ان کی جان کے لئے انتہائی مضر ہو تے ہیں۔اس لئے روہت کی موت پر سیاست کرنے سے اچھا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں کالج اور اسکول کیلئے لائحہ عمل تیار کریں جس میں انصاف کو یقینی بنانے اور طلبہ کے درمیان مساویانہ رویہ اپنانے پر زور دیا جائے ۔بلکہ اگر ممکن ہو تو کالج یونیورسٹی سطح کا کورٹ وجود میں لایا جائے جس میں طلبہ و طالبات کے معاملات کے علاوہ ادارہ اور اس سے متعلق جتنے بھی مسائل ہوں ان سب کے مسائل پر فیصلے لئے جائیں تاکہ کسی طالب علم کو اپنے اوپر زیادتی ہونے کا گمان نہ ہو بلکہ یونیورسٹی سطح کے کورٹ میں انصاف کے ساتھ فیصلہ آجائے اور تعلیم کسی بھی حال میں کسی کی ختم نہ کی جائے اور نہ اسے ہاسٹل سے نکلنے کا فرمان جاری کیا جائے ۔بلکہ اس کے لئے وہیں سزا کا انتظام کیا جائے ۔کیوں اس کی موت کے بعد تمام سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی الزام تراشی میں مشغول ہیں اگر مشغول ہونا ہی ہے تو کیمپس کے ماحول کو سازگار بنانے اور طالب علم کو تغلقی فرمان سے نجات دلانے کیلئے لائحہ عمل تیار کریں جس سے ہندوستان کے تمام یونیورسٹی اور کالج کے مسائل حل سکیں ۔اگر ایک طالب کی خودکشی پر اتنا ہی فکر ہے تو تمام طالب علم کی تحفظ کو یقینی بنانے پر قوت و توانائی خرچ کی جائے نہ کہ اپنی اپنی باتیں کہہ کر کسی کو موردالزام ٹہرا کر خاموشی اختیار کر لی جائے ۔ہر واقعہ کے بعد ہر طرف سے آوازیں اٹھتی ہیں لیکن افسوس کے اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ دوہرایا جائے اس کے لئے کوئی اقدام نہیں کئے جاتے ہیں جو تشویش کی بات ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے امن و امان کو برقرار رکھنے اور حقوق انسانی کی پاسداری کو یقینی بنایا جائے تاکہ ہر کسی کو وہ حقوق حاصل ہوں کہ وہ کسی بھی طرح کے خیالات کو با آسانی کے ساتھ ملک و قوم کے سامنے رکھ سکے۔ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ کسی کی باتوں یا خیالات کے عدم اتفاقی کی وجہ سے اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جس سے حقوق انسانی کی خلاف ورزی تو ہوتی ہے ساتھ کسی بھی جمہوری ملک کی جمہوریت کو خطرہ بھی لاحق ہو جاتے ہیں۔

Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 102314 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.