کسی بھی ریاست کا حصول اس لیے ممکن بنایا جاتا ہے تاکہ
یہاں کے لوگ اپنے تمام تر معمولات زندگی مکمل آزادی سے سر انجام دے
سکیں۔خواہ یہ معاملات مذہبی ہوں، سیاسی ہوں ،سماجی ہوں یا پھر معاشی اور
معاشرتی ۔ان سب معاملات کو سر انجام دینے میں ریاست کا ہر شہری مکمل آزاد
ہونا چاہیے۔اور یہ سب کب ممکن ہوگا جب ریاست میں مکمل قانون کی بالادستی
ہوگی۔اور ریاست کا ہر شہری قانون کی نظر میں برابر ہو۔جہاں انصاف کا ترازو
امیر اور غریب دونوں کے ساتھ یکساں سلوک کرے۔جہاں بنیادی حقوق سب کے ایک
جیسے ہوں۔اور شائید ایسی ریاست کو ہی فلاحی ریاست بھی کہا جاتا ہے۔ ہمارے
ملک کو آزاد ہوئے 68سال بیت گیئے مگر ہم آج بھی وہیں پر کھڑے ہیں جہاں سے
یہ قافلہ چلا تھا۔بلکہ اگر ہم یوں کہیں کہ آج ہماری حالت پہلے سے بھی بدتر
ہے تو بھی کہنا غلط نا ہوگا۔اسکے اسباب کیا ہیں اس پر اگر ایک نظر ڈالی
جائے تویقیناًہمیں اپنے اعمال کا نتیجہ ہی نظر آئے گا۔جو ریاست اسلامی
نظریات کی بناء پر حاصل کی گئی ۔
اس ریاست کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی نہ جانے کیوں ہمیں انگریز کا بنایا
ہوا قانون 1935ء ایکٹ نافذ کرنا پڑا ۔دو قومی نظریہ کی چمک بھی اس وقت
پھیکی پڑ گئی جب مسلمانوں کی اکثریت نے ہندوستان میں ہی رہنے پر اکتفا کیا
۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کا وجود ان لوگوں کی رائے کو وقت گزرنے
کے ساتھ ساتھ یکسر بدل دیتا اور ان کو یہ بات سوچنے پر مجبور کر دیتا کہ ان
کی پاکستان مخالف سوچ غلط تھی مگر بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا ۔حالات گزرنے
کے ساتھ ساتھ یہ سوچ اور زیادہ تقویت پکڑتی گئی۔جیسے ہی پاکستان معرض وجود
میں آیا اس کے ساتھ بہت سارے مسائل کا بھی سامناکرنا پڑا۔لیاقت علی خان کی
شہادت کے بعدکوئی بھی حکومت سنبھل نہ سکی ۔اس طرح سات سالوں میں تقریباً
سات سبراہان تبدیل ہوئے جنہوں نے کامیاب حکومت کا پول کھول کے رکھ
دیا۔آخرکار وہی ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یعنی مارشل لاء کا زمانہ شروع
ہو گیا بس اس طرح کبھی خوشی کبھی غم والی کہانی چلتی رہی۔حالات تو بدل گئے
مگر صرف کچھ لوگوں کے ۔ملک کے حالات نہیں بدلے۔ان حالات کی اگر منظر کشی کی
جائے تو بدعنوانی زندگی کا جزو بن چکی ہے۔بے ایمانی لوگ پوری ایمانداری سے
کرتے ہیں۔اور رشوت تو نذرانہ سمجھ کر وصول کی جاتی ہے۔اور پھر دکھ کی بات
یہ ہے کہ یہ مکروہ دھندہ کرنے والے لوگ عزت دار ہونے کا ناٹک بھی کرتے
ہیں۔بڑی مچھلی چھوٹی کو کھا رہی ہے۔اور اگر میری بات افسانہ معلوم ہو رہی
ہو تو آپ اسکو آزمائش کی کسوٹی پر پرکھیں۔آپکو ہر چیز کی قیمت ملے گی
۔پٹواری سے لے کر تحصیلدار تک،نائب قاصد سے لے کر ریڈر تک اور اگر اسکو
آسان لفظوں میں کہوں ، تو یہاں سب بکتا ہے ۔اس ملک کو دوکان اور اسکی رعایا
کو اپنا غلام سمجھ کر چلایا جا رہا ہے۔ایسے میں کیسے ممکن تھا کہ بنگلہ دیش
الگ نا ہوتا۔وطن عزیز نے بہت سارے زخم سہے کبھی کشمیر کی صورت میں اور کبھی
بنگلہ دیش کی شکل میں۔اوردکھ کی بات تو یہ ہے ہم اتنا کچھ دیکھ کر بھی کچھ
نہیں سیکھے۔ہم دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر عملی زندگی یکسر مختلف ہے۔آج بھی
دشمن ہمیں ہر طرف سے پریشان کیے ہوئے ہے ۔کبھی بلوچستان میں دہشتگردوں کو
ہوا دے رہا ہے اور کبھی افغانستان کو ہمارے خلاف استعمال کر کے اپنے مقاصد
حاصل کرنا چاہتا ہے۔ایسا کیوں ہوتا ہے ۔کہ ہمارے اپنے لوگ اپنی ہی سرزمیں
کے خلاف استعمال ہوجاتے ہیں۔اسکی بنیادی وجہ طبقاتی تقسیم ہے ۔جس تقسیم نے
امیر اور غریب کے درمیان فاصلے بڑھا دیئے ہیں۔جب تک اس ملک سے اقربا ء
پروری ،کرپشن ،بے روزگاری،مہنگائی اور رشوت ستانی جیسی بیماریاں ختم نہیں
ہو جاتیں۔تب تک ممکن نہیں کہ ہم اپنے اس وطن کو ترقی یافتہ دنیا کی صف میں
لاکر کھڑا کرسکیں۔ہمیں اپنی ترجیحات پر غور کرنا ہوگا۔ہمیں اپنے انسانوں پر
سرمایہ کاری کرنا ہوگی ۔ہم وہ خوش قسمت ملک ہیں جس میں اکثریت نوجوانوں کی
ہے۔مگر ہم اتنے ہی بد قسمت بھی ہیں کہ ہمارا نوجوان آج دربدر کی ٹھوکریں
کھانے پر مجبور ہے۔اور اسکی وجہ مسلسل ان لوگوں کا حکمرانی کرنا ہے جو
بدعنوان اور نااہل ہیں۔ہمارے ملک میں آئے روز تبدیلی کی بات ہوتی ہے۔ مگر
کیسے ؟اس سے پہلے بھی کئی تبدیلیاں رونما ہو چکیں ۔کبھی دائیں بازو کی صورت
میں اور کبھی بائیں بازو کی صورت میں۔مگر سب بے سود ثابت ہوئیں۔اسکی بنیادی
وجہ یہ ہے کہ حکومتیں جتنی مرضی بدل لیں جب تک ہم خود کو نہیں بدلتے تب تک
ممکن نہیں کہ ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔آج پوری دنیا کو پاناما لیکس
نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔اور آئیس لینڈ کے وزیراعظم تو مستعفی بھی
ہوچکے۔مگر ہماری قوم مزے سے سو رہی ہے۔خبر یہ بھی ہے کہ برطانیہ کے
وزیراعظم بھی کافی دباؤ کا شکار ہیں اور ایک ہزار کے قریب لوگ احتجاج بھی
کرنے والے ہیں۔یہی وہ لمہات ہوتے ہیں جب قومیں اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتی
ہیں۔مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہم جیب کترے کی سزا سڑک پر ہی تجویز کر دیتے
ہیں جبکہ اربوں کی کرپشن کرنے والے پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں۔اور
یہی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کرے تو
ہمیں اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لانا ہوگی۔اور ایسے تمام عناصر کو جڑ سے
اکھاڑ پھینکنا ہو گا جو ہمارے ملک و قوم کے لیے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔اور
جن کی وجہ سے ہمیں بطور قوم شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے۔اور اگر ہم ایسا نا کر
سکے تو پھر ہماری تقدیر کا یہ کارواں چلتا بھی رہے گا اور لٹتا بھی رہے گا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی،
نہ ہو جس قوم کو خیال اپنی حالت کے بدلنے کا۔ |