امی جان آج بہت طیش اور غصے میں تھی ۔ان کا مزاج کچھ
جارحانہ سا تھا۔جو معمولِ زندگی سے کچھ مختلف تھا ۔کیونکہ باباجان آج دفتر
جانے سے پہلے ان پہ بہت چیخے تھے ۔عموماََ باباجان غصہ میں ایسے ہی کیا
کرتے تھے۔ویسے تو ہم سب بہت پیار کرتے تھے ۔لیکن جب کبھی وہ دفتر کے کام کی
وجہ سے دباؤ میں ہوں توان کا مزاج کچھ عجیب ہی ہوجاتا تھا ۔مگروقت گزرتے ہی
وہ موم کی طرح پگھل اور ریشم کی طرح نرم ہوجاتے اور ہم سب بھی سب کچھ بھول
جاتے تھے ۔لیکن آج 18 مارچ 2016کا دن جیسے ہمارے لیئے دنیا بھرکی تمام تر
سختیاں لپیٹ کے ابھرا تھا ۔اور شام جیسے کسی قیامت کاسما دے رہی تھی ۔باباجان
رات ہمارے ساتھ کھانا کھانے کے بعد کچھ آفس ورک میں مشغول ہوگئے اور ہم
اپنے اپنے جیسے اور آلات میں اور امی جان گھر یلوکام سمیٹنے میں مصروف
ہوگئے تھی ۔سورج کی آنکھ کھلنے سے پہلے باباجان اور امی جان جاگ جاتے اور
معمول کے مطابق مصروف ہوجاتے ۔لیکن آج کی صبح ہمارے اٹھنے سے پہلے ہی
باباجان جاچکے تھے یہ وہ آدمی تھا جوتھکاوٹ کے باوجود بھی نرم اور سکون دہ
بستر چھوڑکرنکل جاتا ہے کس کے لئے۔۔۔! اپنی فیملی کے لئے نہ کہ اپنے لئے ۔امی
جان کی طبعت کچھ بو جھل سی تھی۔ہم نے ناشتہ کیا اور سکول کی طرف روانہ
ہوگئے۔جب باباجان شام کو واپس آئے تو کچھ فروٹ اور گھریلوچیزیں ان کے ہاتھ
تھی ۔کچھ دیر بعد گھر میں شوروغل پھیل گیا ۔خداجانے یہ کیاماجرہ تھا پس چیخ
وپکار کی آوازیں سنتے ہی میں سہم گیا اور چھوٹے بھائی کو لے
کرباہرنکالاتوباباجان امی جان پر چیخ رہے تھے۔مگر حیران کن بات یہ تھی ۔جوعورت
پچھلے 12سالوں سے کبھی بھی نابولی تھی ہمیشہ سنتی تھی کچھ دیربعدانکوجاتے
دے دیتی اورباباجان بھی شرمندہ ہوکر معافی کی درخواست کرتے ۔مگرآج قیامت
تھی امی جان توبابا جان سے بھی زیادہ چیخ رہی تھیں ۔کیوں نہ چیختی انہوں نے
سن رکھا تھا اور زیادہ انہیں اُکسادیاگیا تھا کہ عورت بھی محفوظ ہوگئی ہے ۔جوپچھلے
1400سالوں میں نہیں تھی ۔اُسے عزت مل گئی ہے ۔بہت بلند مقام مل گیا ہے ۔اب
مرد کی اُس پر ایک نہ چلے گی ۔آخر کب تک اس گوریلے کوبرداشت کرتی جس کا نام
مرد ہے۔بس یہ زبان تھی جو میری امی کو چاہیے تھی ۔اور آخرگھر میں آگ لگ گئی
۔اتنی زیادہ کہ دیکھتے ہی دیکھتے امی جان نے پولیس کودعوت دی کہ ان کاشوہر
انہیں مار رہا ہے ۔آخر آج یہ قانون بھی کسی اس قانون کی طرح غلط استعمال
ہورہا تھا جس کے چرچے عام تھے وﷲ آلم ۔
کچھ دیر میں پولیس کے کچھ اہلکار گھر کے باہر پہنچ گئے اور اہل ِ محلہ کے
لئے تو کٹھ پتلی کا ناٹک تھا ۔جس گاؤں میں ہم بابا کی انگلیاں پکڑ کربڑے
ہوئے جہاں باباجان کی عزت وقار کے چرچے تھے اور مہذب گھرانے کے نام سے جانے
جاتے زیادہ امیر نہ زیادہ غریب بس انسان ہونے کیلئے کافی سازوسامان تھا ۔
پولیس والوں نے باباجان کو پکڑا اور ایک دم سے گھر سے باہر لے گئے ۔باباجان
نے جن نگاہوں سے جاتے ہوئے دیکھاتھا اس میں یہی سوال تھا کہ بچوں کی رات
کیسے گزرے گی اور اس محفوظ عورت کی ۔
کیونکہ یہ پہلی دفعہ تھا جب ہم نے باباجان کے بغیراکیلے رات گزارنی
تھی۔لیکن اب پچھتاتے کیاجب چڑیاں چگ گیں کھیت ۔معاملہ تو گھر سے نکل کر
پولیس کے ہاتھ جاچکا تھا ۔وہ دودن حوالات میں رہے نہ ہم کچھ کھا سکے اور نہ
سکول جاسکے اور نہ باباجان سے مل سکے جیسے گھر میں فوتگی کاسماں ہو۔دو دن
ایسے گزرے جیسے کوئی جنگ چل رہی ہو۔اور ادھرامی جان نے سوچ لیا تھا کہ وہ
کبھی ایسا نہیں کرے گی ۔اور اپنی غلطی کی تلافی کریں گی ۔
یہ جو انہیں گناہ کیا ہے ’’حقوقِ نسواں بل ‘‘کے آڑمیں وہ کبھی نہیں دہرائے
گیں ۔جب باباجان واپس لوٹے تو ان کی حالت ایسی تھی جیسے کوئی برسوں سے
بھوکا اور پیاسا ہو کپڑے کی حالت کسی مفلس جیسی تھی ۔امی جان نے باباکو
پانی لاکر دیا لیکن باباجان نے نفی میں سرہلادیااور مجھے آواز دی کہ بیٹا
مجھے ایک گلاس پانی پلا دو اور کچھ دیر کے بعد انہوں نے مجھے موٹر سائیکل
پہ سوار کیا اور کسی ریسٹورنٹ سے کھاناپارسل کروا کرلے آئے ۔ویسے توہم سب
ریسٹورنٹ پہ جاتے کرتے تھے مگر آج کچھ مختلف تھا ۔
باباجان تو بہت خاموش سے ہوگئے تھے نہ آفس جاتے اور نہ محلے میں کسی سے
ملتے جیسے خود میں کوئی جنگ لڑرہے ہوں اور وہ بھی شرمندگی سے جیسے وہ ہار
چکے ہیں ۔
اب بابا جان ہمارے ساتھ ہمارے کمرے میں رات بسر کرتے اور اکثرتو ساری رات
روتے رہتے ۔جیسے وہ موت کا انتظار کررہے تھے ۔مرتوگئے تھے ادھر امی جان
اندر ہی اندر شرمندہ ہوکے دن با دن مرجھائی جا رہی تھی ۔باباجان نے لگ بھگ
15دن بعد آفس جانا شروع کیا توہر طرف سے نفرت بھری اُٹھنے والی نظر کن کن
سوالوں کا جواب کس کس رویے میں دیتے ۔
کیونکہ بات گھر کی تھی اور اب توشہر کی ہوگئی تھی ۔وہ رات جب ا امی نے رورو
کر باباجان سے معافی مانگنی چاہی تو باباجان ایک دم دورجاکرکھڑے ہو گئے
جیسے کسی نے انہیں دھوکا دے دیا ہو ۔اور ایک میں تھا جو لاچاری اور بے بسی
اور بچپن کے ہاتھوں تنگی کے سبب کچھ نہ کرسکتا۔میں یہ ساری فلم دیکھتا رہا۔
اس وقت جیسی شام کے بعد ایک اور قیامت برپا ہوئی تھی ۔وہ کسی کوبھی نہیں
پتہ تھا ۔کیونکہ باباجان اتنے خاموش ہوگئے تھے جیسے کوئی قومے میں ہو وہ
بہت زیادہ دباؤ کا شکار تھے نہ گھرمیں سے کچھ کھاتے اپنے لئے باہر سے کھانا
لے آتے اورباقی سب کے لئے سبزی وغیرہ پکانے کیلئے لے آتے ۔آخر کب تک ایک دن
دونوں کے فریقوں نے بیٹھ کر بات کوحل کرچاہامگرباباجان نے کہا اب میں اس
’’محفوظ عورت‘‘کے ساتھ ’’غیرمحفوظ ‘‘ہو۔
میں یوں ہی زندگی بسر کر سکتا ہوں مگر اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھ سکتا
۔
ہاں جب تک بچے بڑے نہیں ہوجاتے اور اپنا اچھا براسمجھ نہیں لیتے نہ میں
طلاق کی بات کروں گا اور نہ ہی طلاق دوں گا ۔
بس میری زندگی اب میرے بچوں کے لئے ہے ۔ اسے گھر میں ہر سہولت میسرہوگی
میری سہولت کے علاوہ ۔
آج شام 18 مارچ 2016 کا یہ اٹل فیصلہ تھا اس پارلیمنٹ کا جومیرے گھر میں
موجود تھی ۔یہ کیسا قانون تھا یہ کیسی حفاظت تھی جومجھے تو محفوظ کرتا ہے
میرے بچوں کواور میرے خاوند کونہیں ۔میرے گھرکونہیں میرے بچوں کو نہیں میرے
گھرکی ابرو کو نہیں ۔اور انہوں نے اپنا منہ اپنی ٹانگوں میں دے کر پاگلوں
کی طرح بلکہ کسی بچہ کی طرح بلندبلند رونے لگی تھی ۔نانی جان نے کہا :
بیٹاچپ کرواورانہیں دلاسے دینے لگی ۔
مریم توچیخ چیخ کے رونے لگی تھی ۔
ادھر باباجان گھر سے کچھ زیادہ ہی محتاط ہوتے ہوئے گھر سے باہر چلے گئے تھے
۔
کیوں کہتے تھے کہ پولیس نے ان کے ہاتھ میں ایک کڑا پہنادیا ہے۔جوہماری ماں
کی نشانی ہے۔میں اس قانون اور اس کے بنانے والوں کو خراج ِتحسین پیش کرتا
ہوکیونکہ ہمارے آباؤاجداد آج تک غیر محفوظ ہاتھوں میں تھے آج محفوظ ہوگئے
ہیں ۔
آپ سب سے اپیل کرتا ہوں اس قانون کی آڑ میں خود کو پاگل مریم کی طرح مت
بنالینا اورخوفزدہ عبداﷲ کی طرح
میں ان تمام تر حقوق کی بات کرنے کی بجائے ،جوکتابِ آخر یعنی قرآنِ پاک میں
اورحٖضرت محمد مصطفی ﷺ نے بیان کئے صرف ایک حدیث کے لفظوں کا مفہوم بیان
کرنا چاہوں گا
ـ’’تم میں سے کوئی تب تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک اس کے ہاتھ پاؤں اور
زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ نہیں ـ ــ‘‘۔
آپ کی دعاؤں کا طلب گار۔۔۔
’’حقوق نسواں ‘‘کم DIVORCE POSION زیادہ |