انٹر ویو: محمد شجاع الحق صدیقی

 انٹرویو:محمد شجاع الحق صدیقی
[سی ای او، پاک اورینٹ انجینئرنگ کمپنی]
تعارف
محمد شجاع الحق صدیقی کا پیشہ بزنس ہے۔ انھوں نے ۲۰۰۳ء میں این ای ڈی سے مکینیکل انجینئرنگ میں بی ای کیا۔بی ای سے فارغ ہو کر اپنے چھوٹے سے فیملی بزنس میں شمولیت اختیار کی۔ بزنس کو سمجھنے کے لئے آئی بی اے سے مارکٹنگ میں ۲۰۰۹ء میں ایم بی اے کیا۔ دراصل ایم بی اے ان کی سوچ میں کافی تبدیلی لایا اور تمام معاملات کو ایک نئے انداز سے سوچنا شروع کیا۔ ایم بی اے کے بعد بزنس کو انڈسٹری کی سطح پر جانچنے کے لئے سی ایف اے کیا۔یہ امریکہ کی ڈگری ہے۔اس کے تین لیول ہیں۔ یہ تینوں لیول ۲۰۱۴ء میں پاس کئے۔شجاع الحق نے تین پیشہ ورانہ ڈگریاں حاصل کیں جس وجہ سے ان کو آگے بڑھنے اور معلومات حاصل کرنے میں بہت مدد ملی اور زندگی کو صحیح راستے پر گامزن کردیا۔
محمد شجاع الحق صدیقی سے ہم نے انکی زندگی پر کتاب و کتب خانہ کے اثرات کے بارے میں چند سوالات کئے جو قارئین کی نذر کرتے ہیں۔
سوال: کتا ب سے ٓاشنائی کیسے ہوئی؟
جواب:کتاب تعلیم کا بنیادی جز ہے۔ ہر بچے کی طرح میری تعلیم کی ابتدا بھی پانچ سال کی عمر میں ہوئی اور میری زندگی میں کتابوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا جو آج بھی جاری ہے۔ بچپن میں میں نے نصاب کے علاوہ زیادہ کتابیں نہیں پڑھیں۔ لیکن جو نصاب پڑھا اس میں بہت سی بچوں کی کہانیاں، شاعری اور نثر کی کتب شامل رہیں۔
سوال:کتاب نے آپ کی زندگی نے پر کیا اثرات مرتب کئے؟
جواب: مطالعہ کتب کی عادت کے ہماری زندگی پرگہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔مطالعہ کتب نے معلومات کے علاوہ میری پڑھنے کی رفتار [ریڈنگ پاور] کو بڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا، میں نے چیزوں کو فوکس کرنا کتاب سے سیکھا۔شور شراپا میرے سوچنے کے عمل پر کوئی اثر نہیں ڈالتا۔ مطالعہ نے میری شخصیت کو پر اعتماد بنایا۔کسی بھی محفل میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا، تجزیہ کرنا میرے لئے بہت آسان ہو گیا ہے۔جس کی وجہ سے میرے حلقہ احباب میں میرا وقار بلند ہو گیا ہے۔
سوال: تعلیمی دور میں کتب بینی کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟
جواب: تعلیمی دور میں نصاب کے علاوہ حوالہ جاتی کتب بھی میرے مطالعہ میں رہتی تھیں جو کہ بہترکرنے میں بہت معاون ہوتی تھیں۔اس طرح ایک ہی عنوان کے تحت کتب کا مطالعہconcept
کرنے سے ہمیں اس مضمون کے لئے کئی پہلو مل جاتے ہیں۔
کمپیوٹر اور نیٹ کے اس دور نے افراد کو کتب اور کتب بینی سے دور کردیا ہے۔ جبکہ کتاب آج بھی ہماری بہترین ساتھی ہے۔ بجلی ہو یا نہ ہو کتابیں ہمیں دنیا بھر کی سیر کرادیتی ہیں۔ انٹرنیٹ کے برعکس کتاب سے پڑھا ہوا مضمون آپ کو کئی دن یاد رہتا ہے۔ کتا ب میں تحریر کردہ معلومات عموماً تحقیق شدہ ہوتی ہیں جبکہ انٹر نیٹ پر غلط معلومات آپ تک بآسانی پہنچ جاتی ہیں۔جس کی وجہ سے اس کی تصدیق کرنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔
سوال: پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے میں مطالعہ کے اثرات کے بارے میں بتائیں؟
جواب:اس دور میں لوگوں کو کتابیں بوجھ لگنے لگی ہیں ۔ یو ایس بی میں ڈال کر سفروحضر میں بھی رکھی جاتی ہیں۔ بہر حال کتابوں کی اہمیت و افادیت آج بھی مسلمہ اور لازوال حقیقت ہے۔کتب بینی معلومات کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر استقامت بھی پیدا کرتی ہے جوکہ پیشہ ورانہ زندگی کا بہت اہم جز ہے۔
کتب بینی کی وجہ سےالفاظ سے تفہیم اور پڑھنے کی رفتار بہت بڑھ گئی ہے۔جس کی وجہ سے میں بہت سے مسائل کا حل بہت آسانی کے ساتھ انٹر نیٹ یا دیگر کتابوں میں ڈھونڈ لیتا ہوں۔ میں مختلف رہنماوں کی تصانیف کا بھی مطالعہ کرتا رہتا ہوں تو اپنی زندگی کو صحیح شکل میں ڈھالنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ان کے اقوال فیصلے کرنے میں بھی کافی مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔کتب نے کسی بھی مصنف کی تحریر کے ذریعے اسکی شخصیت کو سمجھنا بھی سکھا دیا ہے۔
سوال: کس قسم کی کتابیں آپ کے مطالعے میں آئیں؟
جواب:میں نے اپنی زندگی کے ۲۹ سال تعلیم حاصل کرنے میں صرف کئے۔مگر علم حاصل کرنے کا عمل تو زندگی بھر جاری رہتا ہے سو وہ جاری ہے ۔ زمانہ طالبعلمی میں تو زیادہ تر نصاب کی کتب مطالعہ میں رہیں۔ اس کے علاوہ مذہبی [اسلامی] کتب زیر مطالعہ رہیں۔شیکسپیئر کے ناول بھی پڑھے۔شاعری، رسالے، ٹائم میگزین،انجینئرنگ کی حوالہ جاتی کتب،فنانس اور ایم بی اے کی غیر ملکی مصنفین کی لاتعداد کتابوں کا مطالعہ کیا۔اخبارات کا مطالعہ تو روز کا معمول ہے۔ میرے گھر پر ماہانہ درس قرآن منعقد ہوتاہے۔ جس وجہ سے قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے، سننے اور سمجھنے کا موقع ملتاہے۔
سوال: ذاتی ذخیرہ کتب ہے؟ اگر ہے تو کس قسم کا ہے؟
جواب: ذاتی ذخیرہ کتب بہت زیادہ تو نہیں مگر کچھ کتب موجود ہیں۔جن کا میں اکثر مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ جن میں مذہبی کتب سر فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ انجینئرنگ ، فنانس کی کتب اور رسائل اور میگزین بھی میرے ذخیرہ کتب میں شامل ہیں۔میں اپنی زندگی میں بہت زیادہ کتابیں نصاب کے علاوہ نہیں پڑھ پایا تعلیمی دور کی وجہ سے جو کہ ایک سال پہلے ہی مکمل ہوا ہے لیکن اب مختلف موضوعات پر کتب کی خریداری اور مطالعہ کا ارادہ رکھتا ہوں۔زندگی کے ہر دورمیں مختلف موضوعات پر مطالعہ کے فوائد ہیں۔انٹر نیٹ کے دور میں آن لائن کتب کی سہولت کے باوجود جو مزہ کتاب کو ہاتھ میں لے کر پڑھنے میں ہے وہ اور کسی ذریعہ میں نہیں۔
سوال: تصنیف و تالیف اور ادارت میں ان کے آپ پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟
جواب: کچھ عرصے سے مضامین لکھنے کا موقع ملا۔ میرا پہلا مضمون جو انگریزی میں ہے"پاکستان آٹو انڈسٹری: آزادی سے نیشنلائزیشن تک" اس مضمون کو چار مہینہ کی تحقیق کے بعد تحریر کیا ۔یہ تحقیقی مضمون ایک میگزین"آٹو مارک" میں شائع ہوا۔اس مضمون کی تیاری نے میرے تجزیہ کی خصوصیت کو بہت زیادہ بہتر کیا اور مہارت حاصل ہوئی۔میرے سوچنے کی صلاحیت بھی بہت منظم اور بہتر ہوئی۔ اس مضمون کی تیاری کے دوران بہت سے لوگوں سے ملاقات کی جو انڈسٹری میں تعلقات بڑھانے میں بہت مئیسر ثا بت ہوئی اور بہت سے کام ان ہی تعلقات کی بناء پر آسان ہو گئے۔یہ تصنیف ہی کی وجہ سے ہوا کہ مجھے آٹو انڈسٹری کی بہت سی تاریخ کا پتہ چلا جس کا تذکرہ انٹر نیٹ پر بھی موجود نہ تھا۔
سوال: تحقیق میں کتب و کتب خانہ کی افادیت اور سماجی زندگی میں اس کی اہمیت کیا ہے؟
جواب:تحقیق کا بنیادی جز ہی کتاب کا مطالعہ ہے۔ تحقیق کی وجہ سے بہت سے ایسے راز افشاں ہوتے ہیں جس کی طرف عام لوگوں کی نظر نہیں جاتی۔کتب خانہ آپ کی تحقیق بہت آسان کر دیتے ہیں۔ایک ہی جگہ سے بہت سی معلومات بآسانی حاصل ہو جاتی ہیں۔ سماجی کام کرنے کے لئے بہت زیادہ تحریک و ترغیب کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ مختلف رہنماؤں کے اقوال اور علامہ اقبال کے طرز کی شاعری کے The7HabitsOfHighlyEffectivePeople کی تصنیفStephenConveyبغیرممکن نہیں۔
جو کہ ایک مشہور کتاب ہے جس کے مطالعہ سے لوگوں کی زندگیوں میں بہت تبدیلیاں آئیں اور انھوں نے اپنے پیشہ کے لئے سماجی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا۔