معین الدین چشتی
(Attique Aslam Rana, Okara)
سُلطان الہند حضرت خواجہ سیّد محمد معین
الدین چشتی اجمیری جنوبی ایشیا میں تصوّف کے سلسلۂ چشتیہ کے ہندوستان میں
بانی ہیں اور حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت بابا فرید الدین گنج
شکر اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء جیسے عظیم الشان پیرانِ طریقت کے
مرشد ہیں۔ غریبوں کی بندہ پروری کرنے کے عوض عوام نے آپ کو غریب نواز کا
لقب دیا جو آج بھی زبان زدِ عام ہے-
ولادت
آپ 14 رجب 536 ہجری بمطابق 1141 عیسوی (بروز پیر 14رجب 530ھ مطابق
1135ء۔[3])کو جنوبی ایران کےعلاقے سیستان آپ ایران میں خراسان کے نزدیک
سنجر نامی گاؤں کےایک دولت مند گھرانےمیں پیدا ہوئے۔ بچپن کا نام حسن ہے ۔
آپ نسلی اعتبار سےنجیب الطرفین صحیح النسب سید تھےآپ کا شجرہ عالیہ بارہ
واسطوں سےامیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سےجاملتا ہے۔ آپ کےوالد
گرامی خواجہ غیاث الدین حسین بہت دولت مند تاجر اور بااثر تھے۔ خواجہ غیاث
صاحب ثروت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عابد و زاہد شخص بھی تھے۔ دولت کی فراوانی
کے باوجود حضرت معین الدین چشتی بچپن سےہی بہت قناعت پسند تھے۔ اور والدہ
محترمہ کا اسم گرامی بی بی ماہ نورہے۔
نسب
شجره نسب خواجہ معين الدين چشتی غریب نواز والدہ کی طرف چند واسطوں سےحضرت
امام حسن تک پہنچتا ہے والد کی طرف سےنسب اس طرح ہے خواجہ معین الحق والدین
بن سید غیاث الدین بن سید کمال الدین بن سید احمد حسین بن سید طاہر بن سید
عبد العزیز بن سید ابراہیم بن سید محمد بن امام حسن اصغر بن امام علی نقی
بن امام محمد تقی ابن امام علي موسی رضا بن امام موسی کاظم ابن امام
جعفرصادق ابن اما م محمد باقر بن امام علی زین العابدین بن امام حسین بن
حضرت علی خواجہ سیدمعين الدين حسن ابن خواجہ سیدغياث الدين حسن ابن سید
احمد حسن بن سید طاہرحسن ابن سيد عبد العزيز ابن سيد ابراہيم ابن سيد امام
موسى كاظم ابن سيد امام جعفر صادق ابن السيد امام محمد باقر ابن سيد امام
زين العابدين بن سيد امام حسين ابن امام علی
تاریخ کے آئنے میں
والد حضرت امام حسین اور والدہ امام حسن کی اولاد میں سے ہیں اسی طرح آپ
حسنی وحسینی سید ہیں ۔
عمر مبارک 15 سال تھی جب آپ کے والد کا وصال ہوا ۔
والد کا مزار شہر بغداد میں ہے ۔
پیر ومرشد کا نام حضرت خواجہ عثمان ہارونی ہے ،ان کا مزار مکہ معظمہ میں ہے
۔
آپ پیر ومرشد کے ساتھ روضہ رسول پر گئے اور کعبۃ اللہ کی زیارت کی ۔ حضور ﷺ
کے حکم پر 588ء میں ہندوستان تشریف لائے ۔
ہندوستان کی تشریف آوری کے موقع پر مریدین ومعتقدین کی تعداد 40 تھی ۔
جب آپ تشریف لائے اس وقت اجمیر میں پر تھوی راج چو ہان کی حکومت تھی ۔
آپ نے دو شادیاں کیں ایک بیوی کا نام عصمت اللہ ہے جبکہ دوسری بیوی کا نام
امت اللہ ہے ۔
آپ کے تین فر زند اور ایک بیٹی تھی ۔ حضرت خواجہ فخر الدین جن کا مزار
اجمیر سے ساٹھ کلو میڑ دور درواڑ میں ہے ۔
حضرت خواجہ ابو سعید چشتی جن کا مزار احاطہ درگاہ شاہی گھاٹ پر ہے ۔ خواجہ
حسام الدین ایام جوانی میں ہی مردان غیب میں شامل ہو گئے تھے ۔
آپ کی صاحبزادی کانام بی بی حافظ جمال ہے
بچپن[ترمیم]
جب آپ کی عمر صرف 15 سال تھی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ایسے لمحات میں
آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی نور نے بڑی استقامت کا ثبوت دیا اور بڑے
حوصلے کے ساتھ بیٹے کو سمجھایا فرزند! زندگی کے سفر میں ہر مسافر کو تنہائی
کی اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہےاگر تم ابھی سےاپنی تکلیفوں کا ماتم کرنے بیٹھ
گئے تو زندگی کے دشوار گزار راستے کیسے طے کرو گے۔ تمہارے والد کا ایک ہی
خواب تھا کہ ان کا بیٹا علم و فضل میں کمال حاصل کرے۔ چنانچہ تمہیں اپنی
تمام تر صلاحیتیں تعلیم کے حصول کے لیے ہی صرف کر دینی چاہئیں۔ مادر گرامی
کی تسلیوں سے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی طبیعت سنبھل گئی اور آپ زیادہ
شوق سےعلم حاصل کرنے لگے۔ مگر سکون و راحت کی یہ مہلت بھی زیادہ طویل نہ
تھی مشکل سےایک سال ہی گزرا ہو گا کہ آپ کی والدہ حضرت بی بی نور بھی خالق
حقیقی سے جاملیں۔ اب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اس دنیا میں اکیلے رہ گئے۔
اجمیر شریف میں غریب نواز کا مزار
والد گرامی کی وفات پر ایک باغ اور ایک آٹا پیسنے والی چکی آپ کو ورثے میں
ملی۔ والدین کی جدائی کے بعد باغبانی کا پیشہ آپ نے اختیار کیا۔ تعلیمی
سلسلہ منقطع ہو گیا۔ آپ کو اس کا بڑا افسوس تھا لیکن یہ ایک ایسی فطری
مجبوری تھی کہ جس کا بظاہر کوئی علاج نہ تھا۔ ایک دن حضرت خواجہ معین الدین
چشتی اپنے باغ میں درختوں کو پانی دے رہے تھے کہ ادھر سے مشہور بزرگ حضرت
ابراہیم قندوزی کا گزر ہوا۔ آپ نے بزرگ کو دیکھا تو دوڑتے ہوئے پاس گئےاور
حضرت ابراہیم قندوزی کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔حضرت ابراہیم قندوزی ایک نوجوان
کےاس جوش عقیدت سے بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے شفقت سےآپ کے سر پر ہاتھ پھیرا
اور چند دعائیہ کلمات کہہ کر آگے جانے لگے تو آپ نے حضرت ابراہیم قندوزی کا
دامن تھام لیا۔ حضرت ابراہیم نے محبت بھرے لہجے میں پوچھا اے نوجوان! ”آپ
کیا چاہتے ہیں؟“ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے عرض کی کہ آپ چند لمحےاور
میرے باغ میں قیام فرمائیے۔ کون جانتا ہے کہ یہ سعادت مجھے دوبارہ نصیب
ہوگی کہ نہیں۔ آپ کا لہجہ اس قدر عقیدت مندانہ تھا کہ حضرت ابراہیم سے
انکار نہ ہو سکا اور آپ باغ میں بیٹھ گئے۔ پھر چند لمحوں بعد انگوروں سے
بھرے ہوئے دو طباق معین الدین چشتی نے حضرت ابراہیم کے سامنے رکھ دئیےاور
خود دست بستہ کھڑے ہو گئے۔ حضرت ابراہیم قندوزی نے اپنے پیرہن میں ہاتھ ڈال
کر جیب سے روٹی کا ایک خشک ٹکڑا نکال کر حضرت خواجہ کی طرف بڑھایا اور
فرمایا وہ تیری مہمان نوازی تھی یہ فقیر کی دعوت ہے۔ اس ٹکڑے کا حلق سے
نیچےاترنا ہی تھا کہ حضرت معین الدین چشتی کی دنیا ہی بدل گئی۔
علوم ظاہری
بعدازاں آپ نے سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹانے کے بعد تحصیل علم کے لیے
خراساں کو خیرباد کہہ کر سمرقند بخارا کا رخ کیا جو اس وقت علوم و فنون
کےاہم مراکز تصور کئے جاتے تھے۔ یہاں پہلے آپ نے قرآن پاک حفظ کیا۔ پھر
تفسیر‘ فقہ‘ حدیث اور دوسرے علوم ظاہری میں مہارت حاصل کی۔
علوم باطنی
علوم ظاہری کی تکمیل کےبعد آپ نے مرشد کامل کی تلاش میں عراق کا رخ کیا۔
اپنے زمانے کے مشہور بزرگ حضرت خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت میں آئےحضرت
خواجہ معین الدین چشتی اپنے مرشد کی خدمت میں تقریباً اڑھائی سال رہے۔ آپ
پیرو مرشد کی خدمت کے لیے ساری ساری رات جاگتے رہتے کہ مرشد کو کسی چیز کی
ضرورت نہ پڑ جائے۔ سرورِ کائنات کے روضہ اقدس کی حاضری ہوئی حضرت عثمان
ہارونی نے خواجہ معین الدین چشتی کو حکم دیا۔”معین الدین! آقائے کائنات کے
حضور سلام پیش کرو۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی نےگداز قلب کےساتھ لرزتی
ہوئی آواز میں کہا۔ ”السلام علیکم یا سید المرسلین۔“ وہاں موجود تمام لوگوں
نے سنا۔ روضہ رسول سے جواب آیا۔ ”وعلیکم السلام یا سلطان الہند“۔
اسفار
سفر بغداد کے دوران آپ کی ملاقات حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ سے ہوئی اولیائے
کرام میں حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ کا مقام بہت بلند ہے۔ حضرت معین الدین
چشتی اڑھائی ماہ تک حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ کے ہاں قیام پذیر رہےاور ایک
عظیم صوفی کی محبتوں سے فیض یاب ہوئے۔ اس کے بعد حضرت معین الدین چشتی
بغداد میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ کچھ عرصہ یہاں
قیام کیا۔ پھر آپ تبریز تشریف لے گئےاور وہاں حضرت خواجہ ابو سعید تبریزی
سے فیض حاصل کیا۔ حضرت تبریزی کو تصوف کی دنیا میں ہمہ گیر شہرت حاصل ہے۔
چند دن یہاں گزارنے کے بعد آپ اصفہان تشریف لے گئے۔ وہاں مشہور بزرگ حضرت
شیخ محمود اصفہانی کی محبت سے فیض یاب ہوئے۔ جب آپ اصفہان سے روانہ ہوئے تو
قطب الدین بختیار کاکیجوابھی نوعمر تھے آپ کے ساتھ ہوئےجو بعد میں تاجدار
ہند کہلائے۔ آپ گنج شکر حضرت بابا فرید کے مرشد اورحضرت نظام الدین اولیاء
کے دادا مرشد ہیں۔ بہرکیف حضرت معین الدین چشتی اصفہانسےخرقان تشریف لےآئے
یہاں آپ نے دو سال وعظ فرمایا اور ہزاروں انسانوں کو راہ راست پر لائے۔ پھر
ایران کے شہر استرآباد تشریف لےآئےان دنوں وہاں ایک مرد کامل حضرت شیخ ناصر
الدین قیام پذیر تھے۔ جن کا دو واسطوں سے سلسلہ حضرت بایزید بسطامی سے جا
ملتا ہے چند ماہ یہاں حضرت شیخ ناصرالدین سے روحانی فیض حاصل کیا۔ پھر ہرات
کا قصد کیا۔ یہ شہر ایرانی سرحد کے قریب افغانستان میں واقع ہے۔ یہاں حضرت
خواجہ عبداللہ انصاری کے مزار مبارک پر آپ کا قیام تھا۔ بہت جلد سارے شہر
میں آپ کے چرچے ہونے لگے۔ جب بات حد سے بڑھ گئی اور خلق خدا کی ہر لمحے
حاضری کی وجہ سے وظائف اور عبادت الٰہی میں فرق پڑنے لگا تو آپ ہرات کو
خیرباد کہہ کر سبزوار تشریف لےگئے۔
خلفاء
بہت زیادہ خلفاء ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں
1-قطب الدین بختیار کاکی جو خلیفہ و جانشین بھی ہیں
2-فريد الدين مسعود گنج شکر
3-نظام الدين اولياء مشہور خلیفہ
4-ابو الحسن يمين الدين خسرو
5-خواجہ بنده نواز گیسو دراز
6-السیداشرف جہانگیر سمنانی
7-عطاء حسين فاني
8-شاه جمال بابا
9 شيخ حميدالدين صوفي سعيد ناگوري مشہور سلطان التاركين شيخ فخرالدين
اجميري .
10 بی بی حافظہ جمال دختر شان .
11خواجہ محمد يادگار سبزواری .
12شمس الدين التتمش بادشاه ہندوستان .
13شاه فخرالدين گرديزي .
14مولانا ضياء الدين بلخي .
15شہاب الدين محمد بن سام غوري فاتح دهلي .
16پير حاجي سيد علي شاه بخاري .
شجرہ طریقت خواجہ معین الدین چشتی
پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں بعض بزرگان دین نے خراسان کے ایک قصبہ چشت
میں رشد و ہدایت کا ایک سلسلہ شروع کیا٬ جو دور دور تک پھیلتا چلا گیا٬ یہ
خانقاہی نظام طریقہ سلسلہ چشتیہ کے نام سے موسوم ہوا٬
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
علی علیہ السلام
خواجہ حسن بصری
خواجہ عبدالواحد بن زید
خواجہ فضیل ابن عیاض
خواجہ ابراہیم بن ادہم البلخیؒ
خواجہ حذیفہ مرعشی
خواجہ ابو ہبیرہ بصری
خواجہ ممشاد علوی دینوریؒ
خواجہ ابو اسحاق شامی
خواجہ ابو احمد ابدال
خواجہ ابو محمد چشتی
خواجہ ابو یوسف چشتی
خواجہ قطب الدین مودود چشتی
خواجہ شریف زندانی
خواجہ عثمان ہارونی
خواجہ معین الدین چشتی اجمیری
قطب الدین بختیار کاکی
بابا فرید الدین گنج شکر
خواجہ نظام الدین اولیاء
نصیرالدین چراغ دہلوی
وصال
ایک روایت کے مطابق تاريخ الوفاة : 6 رجب627ہ 661هـ-1230 م 97 سال حیات رہے
جبکہ دوسری روایت میں 103 سال کی عمر میں آپ کا وصال 633ھ ْ 1229ء میں
اجمیر میں ہوا۔ |
|