فروری2011کو کینڈا کی چیف جسٹس
بیورلے میک لیکلن نے اپنے حکمرانوں کو تنبیہ کی تھی کہ انصاف کی رسائی صرف
امیر وں تک محدود ہو گئی ہے کیونکہ متوسط اور غریب طبقوں کو انصاف اور انکے
حقوق کی صفوں سے نکال دیا گیا ہے اس بیان کے ساتھ ہی کینڈا میں جیسے
بھونچال آ گیاہو ۔ وہاں کے حکمرانوں نے اپنی ترجیحات کی سمت کو درست کیا ۔
بلا شبہ چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی صاحب بھی کئی دفعہ اپنے خطاب میں
برملا اسی پہلو کی جانب حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کر چکے ہیں لیکن
ہمارے پیارے ملک میں نہ تو کوئی بھونچال آیا اور نہ ہی حکمرانوں نے اپنی
ترجیحات کی سمت کو تبدیل کیا بلکہ اُن ترجیحات میں اضافہ ہوا جس کا تعلق
اُمرا ،جاگیرداروں،وڈیروں،اور خانان سے وابستہ ہیں ،غریب ومتوسط طبقے کونہ
صرف انصاف کی فراہمی سے محروم کیا جا رہا ہے بلکہ اُنکے حقوق کی پا مالی
انتہائی بے دردی سے کی جا رہی ہے۔ اس کے صلے میں بڑھتی ہوئی بے
روزگاری،دہشتگردی، تعصب و فرقہ واریت ،تعلیم کا فقدان، مہنگائی اور مزیدکئی
عفریتوں کی شکارمتوسط و غریب طبقے سے تعلق رکھنے والی عوام کو ہی اُن کے
نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔انصاف اور حقوق کی رسائی غریب اور متوسط طبقے تک
کیونکر نہیں ہو پا رہی ہے؟کیوں کہ قانون کی بے حرمتی ہو رہی ہے قانون کو
معزول کیا جا رہا ہے قانون سازی اپنے مفاد ات کے حصول کے لئے کی جا رہی ہے
۔کون کر رہا ہے قانون کو معزول یا قانون کی بے حرمتی؟ اس کا جواب تو بیورلے
میک لیکلن اور جناب انور ظہیر جمالی صاحب نے دے دیا اور اب تو اس کا جواب
روز روشن کی طرح عیاں بھی ہو چکا ہے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کا کام کسی
بھی لحاظ سے تسلی بخش نہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جن بلوں کو قانون کی شکل
دی جاتی ہے اس پر سنجیدگی اور توجہ سے بحث ہی نہیں کی جاتی نتیجہ وہی" ڈھاک
کے تین پات"ایسی قانون کی شکل سامنے آتی ہے جسکا کوئی بھی متوازن قانونی
نظام اجازت نہیں دیتا۔سیکورٹی ادارے خود قانون کی پامالی کر رہے ہوتے ہیں
جو کہ وفاق اور صوبے کے وزراؤں کے زیر اثر کام کر تے ہیں۔ جب ہی تو سپریم
کورٹ کو کہنا پڑا کہ" سیکورٹی ادارے اگر قانون کے پابند نہیں تو دفاتر پر
داعش کے جھنڈے لہرا دیں"۔ یہ ہی المیہ ہے ملک کو پنپنے نہ دینے کا کہ
سیکورٹی ادارے قانون کی دھجیاں اس طرح سے بکھیر رہے ہوتے ہیں جس سے یہ
پیغام تسلسل سے دیا جا رہا ہوتا ہے کہ ہم ہی قانون کے رکھوالے ہیں اور ہم
ہی قانون شکن ، غریب ومتوسط طبقہ کمزور و لاغر، جناب چیف جسٹس صاحب کو یہ
بھی کہنا پڑ گیا کہ"جمہوریت کے نام پر کچھ گروہ ملکی وسائل پر قابض ہیں،عام
آدمی کو دو وقت کی روٹی ملنا محال ہو رہا ہے معاشرے سے خوف خدا اورحرام و
حلال کا فرق ختم ہوتا جا رہا ہے"چیف جسٹس صاحب معاشرے کی تباہ حالی کی
عکاسی اور اس کے ذمہ داروں کا درست تعین کر رہے ہیں عوام خود بھی شب و روز
اس کا مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں کبھی سوئس کیس کے نام سے تو کبھی وکی لیکس
اور اب پنامہ پیپرز لیکس ،آف شور اکاونٹس اور کمپنیوں کے نام سے ۔
جناب جون ایلیا صاحب اپنی تحریر میں فرماتے ہیں کہ" حکمرانوں سے کہو کہ عام
آدمی سے سمجھوتہ کریں کہ جو قانون ہم نے بنایا ہے اس کا احترام ہم بھی کرتے
ہیں تم بھی کرو،اور جب عام آدمی کو قانون کا پابند بنا دیاگیا ہوتو پھر خاص
آدمیوں کو بھی اس کا پابند ہو نا ہو گااگر قانون کی دو طرفہ رعایت نہیں کی
گئی اور اس کی حرمت کو برقرار نہیں رکھا گیا تو پھر ان بستیوں میں جنگل سے
درندے ہی آکر آباد ہونگے" جناب جون صاحب آپ نے درست فرمایا ہماری بستیوں
میں ہمارے شہر میں جنگل کے درندے ہی آکر آباد ہو رہے ہیں جو ایک موبائل کی
خاطر کسی کی جان لینا گناہ نہیں سمجھتے یہ درندے ہمارے پارکوں میں ہماری
مسجدوں میں حملے کر تے ہیں غریب اور متوسط طبقے کو اپنا تر لقمہ سمجھتے ہیں
۔اور یہ سب متوسط و غریب طبقے کو انصاف کی فراہمی سے محروم رکھنے کے سبب
ممکن ہوا۔قانون کی معزولی اور اس کی بے حرمتی اورغریب و متوسط طبقے کو
انصاف کی صفوں سے نکال دیئے جانے کے سبب ہمارا معاشرہ "نقش بر آب "ہوتا جا
رہا ہے میرے منہ میں خاک کہیں نقش بر آب نہ ہو جائے، اﷲ کرے اس سے قبل میر
ی صدا میری گونج ہر طول و عرض تک پہنچ جائے "ہے کوئی دانشور،علم و حکمت و
دانائی سے مالا مال جو اس زہر کا تریاق دریافت کرسکے ۔تمھارے،میرے اور آنے
والوں کے لئے نجات کا راستہ تلاش کر سکے" ۔ |