پانامہ لیکس سے لگتا ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ ضرور کالا ہے
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
گزشتہ روز وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے آف شور کمپنیوں کے حوالے سے حکمران خاندان کے موقف کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہا کہ وزیراعظم نوازشریف نے اپنے لندن کے ’’مے فیئر فلیٹس‘‘ کی ملکیت سے کبھی انکار نہیں کیا جس پر سینٹ کے اپوزیشن لیڈر چودھری اعتزاز احسن نے یہ پھبتی کسی کہ مے فیئر فلیٹس کا اعتراف کرکے چودھری نثار علی نے وزیراعظم کو پھنسا دیا ہے۔ |
|
پانامہ لیکس کے بعد دنیا بھر میں حکمران
طبقات کی آف شور کمپنیوں کے حوالے سے ہنگامہ خیزی‘ اضطراب اور انتشار کی
فضا پیدا ہوچکی ہے اور متعلقہ ممالک کے عوام اپنے حکمران طبقات کے قومی
ٹیکسوں سے بچنے کیلئے آف شور کمپنیوں کے ذریعے کاروبار پر اپنے اضطراب کا
اظہار کرتے سڑکوں پر نکل آئے ہیں چنانچہ اس عوامی دبائو کے نتیجہ میں اب تک
تین ممالک آئس لینڈ‘ یوکرائن اور کرغیرستان کے وزراء اعظم مستعفی ہو چکے ۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بھی سخت عوامی دبائو کے پیش نظر وزارت عظمیٰ
سے پہلے قائم اپنی آف شور کمپنیوں کا اعتراف کرچکے جبکہ برطانوی پارلیمنٹ
میں اس حوالے سے گزشتہ روز سخت ہنگامہ آرائی ہوئی اور ڈیوڈ کیمرون نے ہائوس
میں اپوزیشن لیڈر سمیت سب کے ٹیکس ریکارڈ سامنے لانے کا اعلان کیا۔ پاکستان
میں بھی حکمران خاندان اس وقت سخت دبائو میں ہے اور حکمران پارٹی مسلم لیگ
(ن) کے عہدیداروں اور وزراء کے وضاحتی بیانات کے علاوہ خود وزیراعظم میاں
نوازشریف کو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ قوم سے خطاب کرکے اپنے خاندان کے
بیرون ملک کاروبار کے معاملہ کی وضاحت کرنا پڑی جبکہ انکے صاحبزادے حسین
نواز پہلے ہی بیرون ملک اپنی آف شور کمپنیوں اور کاروبار کی وضاحت کرچکے
ہیں جس سے معاملہ سلجھنے کے بجائے مزید الجھا اور شریف خاندان کے ملک سے
باہر رقوم منتقل کرنے اور وہاں سرمایہ کاری کرنے کے معاملات پر مزید سوالات
اٹھے چنانچہ اپوزیشن بالخصوص تحریک انصاف اور اسکے قائد عمران خان نے موقع
سے فائدہ اٹھا کر حکومت مخالف جارحانہ تحریک کا عندیہ دے دیا جبکہ
پیپلزپارٹی کے سینٹ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈران چودھری اعتزاز احسن
اور سیدخورشید شاہ نے بھی پانامہ لیکس پر حکومت اور حکمران خاندان کو کڑی
تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
اگر کسی بھی سطح پر اور کسی بھی حوالے سے حکومتی بے ضابطگیوں اور ان میں
بالخصوص حکمران خاندان کے ملوث ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے تو اپوزیشن کو ایسے
معاملات کی تحقیقات کا تقاضا کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ عمران خان اور
اپوزیشن جماعتوں کے دوسرے پارلیمانی قائدین نے اسی بنیاد پر پانامہ لیکس کے
حوالے سے حکمران خاندان کے بیرون ملک کاروبار کے بارے میں تحقیقات کا تقاضا
شروع کیا جس پر وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے
کسی سابق جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا تو اس سے
اپوزیشن کے موقف کو مزید تقویت حاصل ہوئی اور انہوں نے چیف جسٹس پاکستان کی
سربراہی میں جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ اس پر وزیر
داخلہ چودھری نثار نے ایف آئی اے کے ذریعہ پانامہ لیکس کے معاملات کی
تحقیقات کرانے پر آمادگی کا اظہار کیا مگر اب تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی
کی جانب سے جہاں چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن تشکیل
دینے کا تقاضا کیا جارہا ہے‘ وہیں حکومت پر عوامی دبائو بڑھانے کیلئے عمران
خان رائے ونڈ اور اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں دھرنے اور جلسے منعقد
کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں جس پر حکومتی صفوں میں کھلبلی کی کیفیت نظر آرہی
ہے۔ گزشتہ روز وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے آف شور کمپنیوں کے حوالے
سے حکمران خاندان کے موقف کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہا کہ وزیراعظم نوازشریف
نے اپنے لندن کے ’’مے فیئر فلیٹس‘‘ کی ملکیت سے کبھی انکار نہیں کیا جس پر
سینٹ کے اپوزیشن لیڈر چودھری اعتزاز احسن نے کہا کہ کہ مے فیئر فلیٹس کا
اعتراف کرکے چودھری نثار علی نے وزیراعظم کو پھنسا دیا ہے۔
اپوزیشن کی جارحانہ تحریک سے حکومت پر پڑنے والے دبائو کے باعث حکمران
خاندان سے فوری فیصلے کرنے کے دوران بھی غلطیاں سرزد ہو رہی ہیں۔ اپوزیشن
کے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے تقاضے جاری تھے کہ وزیراعظم کے صاحبزادے حسین
نواز کے سعودی عرب روانہ ہونے کی خبرآگئی جبکہ گزشتہ روز پارلیمنٹ کے
مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم کے مے فیئر فلیٹس کا تذکرہ ہوا جس پر اجلاس میں
ہنگامہ آرائی بھی ہوئی تو اسی فضا میں وزیراعظم نوازشریف کے طبی معائنے
کیلئے بدھ کو لندن روانہ ہونے کی خبریں میڈیا پر آنے لگیں۔ اس حوالے سے
حکومت بدحواسی نظر آئی اور ایسے وقت جب پانامہ لیکس کے حوالے سے ملک میں
وزیراعظم کے خاندان کیخلاف سیاسی میدان انتہائی گرم ہوچکا ہو اور وزیراعظم
سے اپنے دفاع کیلئے ملک میں موجود رہنے کا متقاضی ہو اور پھر وزیراعظم پر
انگلی بھی لندن کے مے فیئر فلیٹس کے حوالے سے اٹھ رہی ہو تو اسکے دوران ہی
وزیراعظم کے لندن جانے کے پروگرام کی اطلاع سے دال میں کچھ نہ کچھ کالا
ہونے کا ہی عندیہ ملے گا۔ اس تناظر میں تو حکمران خاندان اور حکومتی
عہدیداران اپنے اعلانات‘ فیصلوں اور اقدامات سے اپوزیشن کو تنقید اور دبائو
بڑھانے کا خود ہی موقع فراہم کررہے ہیں ۔ اگر پانامہ لیکس کے معاملات پر
اپوزیشن کی پوائنٹ سکورنگ والی سیاست میں حکومت اور حکمران خاندان خود
جارحانہ پالیسیاں طے کریگا اور اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کو بزور دبانے
کا عندیہ دیا جائیگا تو اس سے سیاسی فضا میں مزید تلخیاں ہی پیدا ہونگی
جبکہ اصل ضرورت اس وقت حکمران مسلم لیگ (ن) پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے
اقدامات اٹھانے کی ہے۔ اس سلسلہ میں اگر حکمران خاندان خود پیش رفت کرکے
بیرون ملک اپنا سارا کاروبار اور اثاثے پاکستان واپس لے آئے اور اسی طرح
غیرملکی بنکوں میں موجود اپنی ساری رقوم بھی ملک میں منتقل کردے تو اس سے
جہاں حکمران خاندان کی اپنے ملک اور عوام کے ساتھ وابستگی کا تاثر مستحکم
ہوگا وہیں عوام میں دوسرے تمام سیاست دانوں سے بھی اپنے اثاثے اور رقوم ملک
واپس لانے کا تقاضا کرنے کی سوچ پیدا ہوگی‘ اس طرح حکومت پر اپوزیشن کا
دبائو بھی کم ہو جائیگا اور حکمران اشرافیہ طبقات میں پیدا ہونیوالے ٹیکس
چوری کے کلچر سے نجات کی راہ بھی ہموار ہونا شروع ہو جائیگی۔
پانامہ دستاویزات سے قطع نظر‘ ہمارے حکمران اشرافیہ طبقات کے پاس یہ موقع
ضرور آگیا ہے کہ وہ ٹیکس چوری‘ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ایکا کرنے اور
قومی خزانے کی لوٹ مار کے حوالے سے اپنے بارے میں عوام کے ذہنوں میں پیدا
ہونیوالے منفی تاثر کا ازالہ کریں اور ملک و قوم سے اپنی محبت کا عملی ثبوت
پیش کرنے کیلئے بیرون ملک بنکوں میں موجود اپنی ساری رقوم اور بیرون ملک سے
اپنے سارے اثاثے ملک واپس لا کر یہاں سرمایہ کاری اور کاروبار کریں۔ |
|