نبیِ کریم ﷺ سے پہلے حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کی شادیاں

ام المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا ڈاکٹر مشاہدرضوی کی کتاب سے ماخوذ ۔۔۔۔
حضرت طفیل بن حارث سے نکاح
دورِ جاہلیت میں حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح بڑی شان و شوکت کے ساتھ خزیمہ نے طفیل بن حارث بن مطلب سے کرایا۔ جب ام المساکین ڈولی میں بیٹھ کر رخصت ہورہی تھیں تو اُن کے گھر کا ہر فرد مغموم تھا۔ ہر کسی کا یہی خیال تھا کہ اچھی عادتوں اور اعلیٰ اَخلاق و کردار کی حامل ام المساکین زینب بڑی خوشگوار زندگی بسر کرے گی۔ لیکن زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ طفیل بن حارث نے انھیں طلاق دے دی۔ سخاوت و فیاضی میں بے مثال، غریبوں ، مسکینوں اور فاقہ مستوں کی ہمدرد اور غم گسار اس نیک سیرت خاتون کو اُن کے شوہر نے طلاق کیوں دی اس کی وجہ بیان کرنے میں تاریخ و سیرت کی کتابیں خاموش دکھائی دیتی ہیں۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ طفیل بن حارث کے بعد آپ کا نکاح ان کے چچازاد جَہنم بن عمر و بن حارث سے ہوا۔ ان کے بعد وہ حضرت عبیدہ بن حارث سے بیاہی گئیں۔حضرت طفیل بن حارث رضی اللہ عنہ نے بعدمیںاسلام بھی قبول کیا اور بدر میں شرکت کی تھی۔
حضرت عبیدہ بن حارث( رضی اللہ عنہ ) سے نکاح
امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کو طفیل بن حارث نے طلاق دے دی تو اس کے بعد آپ کی شادی طفیل کے بھائی حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے کردی گئی۔ جن کی کنیت ’’ابو معاویہ ‘‘تھی، ماں کا نام سنجیلہ تھا۔ قد میانہ ، رنگ گندم گوں اور چہرہ بہت خوب صورت تھا۔ وہ جوانی کی منزلیں پار کرچکے تھے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت کو سنا اور پھر اسلام کی منور کرنیں جب ان کے دل پر پڑی تو سعادت مندی نے آپ کے قدم چومے ۔ جب کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم دارِ ارقم میں قیام پذیر تھے ، حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ آئے اور اپنے آپ کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں دے دیا۔ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں انھیں غیر معمولی مرتبہ حاصل تھا۔ مشہور صحابی مؤذنِ رسول حضر ت بلال حبشی رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے مالک نے انھیں طرح طرح سے اذیتیں دیں لیکن وہ صبر و استقامت کے ایک مضبوط پہاڑ کی طرح اسلام پر ڈٹے رہے۔ چوں کہ آپ حبشہ کے تھے مکۂ معظمہ میں آپ کا کوئی رشتے دار وغیرہ نہ تھا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکۂ معظمہ میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کا اسلامی بھائی قرار دیا تھا ۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کو اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عطا کردہ اس نسبت پر بڑ انازتھا۔ اور انھوں نے اخوت و محبت کی جو مثال قائم کی وہ اسلامی تاریخ کے اوراق میں آج بھی جگمگ جگمگ کررہی ہے۔
اسلام کے ابتدائی زمانے میں اسلام قبول کرنے والوں پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اُن کے تصور سے ہی کلیجہ کانپنے لگتا ہے ۔ لیکن محبت اور جاں نثاری کی مثال دنیا کی تاریخ میں کوئی دوسرا اب تک پیش نہیں کرسکا کہ جو بھی شخص نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آجاتا اسے کسی بھی قسم کے مظالم اور مصائب و آلام کا ذرہ بھر بھی احساس نہ ہوتا بل کہ وہ ان تکلیفوں اور مصیبتوں کو ہنس کر سہہ جاتے ۔ ان کے پاے استقامت میں کبھی بھی لرزہ طاری نہیں ہوتا۔ حضرت عبیدہ بن حارث اور ان کی بیوی ام ا لمساکین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما پر بھی دشمنانِ اسلام نے مظالم ڈھائے ۔ ان دونوں جاں نثارانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر جتنی سختیاں کی جاتیں ان کے اندر محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چنگاری شعلۂ جوالہ بن کر بھڑکنے لگتی۔ حضر ت ام المساکین زینب رضی اللہ عنہاتو ابھی جواں سال تھیں جب کہ آپ کے شوہر حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی عمر زیادہ تھی ، لیکن اسلام پر ثابت قدمی اور عقیدتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ ابھی جوان تھا۔
حضرت عبیدہ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہما کی مدینہ ہجرت
اور ’’شیخ المہاجرین ‘‘کا لقب
جب مکۂ مکرمہ میں کفار و مشرکین کے ظلم و ستم حد سے زیادہ ہوگئے تواللہ تعالیٰ کے حکم سے نبیِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثاروں کو مدینۂ منورہ ہجرت کرنے کا حکم فرمایا۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی نے عر ض کی :’’ یارسول اللہ! ہم تو ہجرت کرجائیں گے مگر آپ؟‘‘
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ مجھے ابھی ہجرت کا حکم نہیں ہوا ہے۔‘‘
شام کے وقت جب حسبِ معمول حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ اپنے مکان میں داخل ہوئے تو آپ کی وفا شعار بیوی حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا :’’آپ کے چہرے کے تاثرات بتا رہے ہیں کہ آج کو ئی خاص بات ہوئی ہے۔‘‘ اس پر اُن کے شوہر نے سرگوشی کے انداز میں کہا:’’ ہاں! آج نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہجرت کا حکم ہوا ہے۔‘‘
حضرت ام المساکین زینب رضی اللہ عنہا نے اس پر پوچھا کہ :’’ کس طرف ہجرت کرنے کا حکم ملا ہے۔‘‘ حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ مدینۂ منورہ کی طرف۔‘‘
اپنے آقا حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کا حکم مل جانے کے بعد دونوں میاں بیوی خاموشی کے ساتھ ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے اور کسی مناسب وقت کا انتظار کرنے لگے ۔ آخرکار ایک دن حضرت عبیدہ بن حارث اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما دونوں بھائیوں حضرت طفیل بن حارث و حضرت حصین بن حارث اور ایک ساتھی حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکۂ مکرمہ کے کفار و مشرکین سے چھپتے ہوئے مدینۂ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مہاجرین کا یہ چھوٹا سا کاررواں اپنی منزل کی طرف احتیاط کے ساتھ قدم بڑھا رہا تھا کہ اچانک راستے میں حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کو ایک بچھو نے ڈنک ماردیااور وہ پیچھے رہ گئے۔ انھوں نے حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ لوگ اپنا سفر اسی طرح جاری رکھیں جیسے ہی میری طبیعت میں سدھار آئے گا مَیں آکر راستے میں مل جاؤں گا۔ لیکن جب دوسرے دن یہ اطلاع ملی کہ حضرت مسطح رضی اللہ عنہ چلنے پھرنے کی بھی سکت نہیں رکھتے تو حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو یہ گوارا نہ ہوا کہ ایک اسلامی بھائی کو اس طرح اکیلا چھوڑ دیا جائے ۔ اخوتِ اسلامی کا تقاضا تو یہی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے لیے قربانی اور ایثار کے جذبات سے سرشار رہیں ۔لہٰذا وہ لوگ کچھ دور چلنے کے بعد دوبارہ واپس لوٹ آئے اور حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ لیا اور اُن کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے بڑی آہستگی سے مدینۂ طیبہ کی طرف سفر کرتے رہے۔
طویل سفر کے بعد اسلام کے ان جاں نثاروں اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان عاشقوں کا قافلہ اپنی منزل مقصود مدینۂ منورہ میں داخل ہوا۔ سب سے پہلے اس نورانی قافلے کا استقبال حضرت عبدالرحمن بن سلمہ عجلانی رضی اللہ عنہ نے کیا اور بڑے محبت و خلوص کے ساتھ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی مہمان نوازی کی۔
جب اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کے حکم سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرماکر مدینۂ منورہ کو اپنے مقدس قدموں سے شَرَف بخشا تو آپ نے انصار و مہاجرین کو آپس میں بھائی بھائی قرار دیا۔ حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو حضرت عمیر بن حمام انصاری رضی اللہ عنہ کا بھائی قرار دیا۔ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے دیگر انصاری صحابہ کی طرح بھائی چارگی کی وہ مثال قائم کی کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ آپ نے حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان کی رہایش کے لیے ایک بڑی زمین دے دی جہاں وہ رہنے لگے۔
حضرت عبیدہ بن حارث اور ان کی بیوی ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جاں نثاری اور فداکاری کے جذبات سے سرشار ہوکر مدینۂ منورہ میں اپنی زندگی کے شب و روز بسر کرنے لگے ۔ ام المساکین حضر ت زینب رضی اللہ عنہا حسبِ معمول غریبوں ، مسکینوں اور فاقہ مستوں کو کھانا کھلاتیں ، لوگوں کا دکھ درد بانٹتیں ، ان کے دروازے پر آنے والے سائل کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتیں ۔یہاں بھی وہ سخاوت و فیاضی میں بڑی مشہور ہوگئیں ۔ اسی طرح ان کے شوہر حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت و عقیدت تھی اس سے آپ ﷺ بہ خوبی واقف تھے ۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی جو منزلت و رفعت تھی، اس کو دیکھتے ہوئے مہاجرین و انصار انھیں ’’شیخ المہاجرین‘‘ کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔
سریۂ عبیدہ بن حارث( رضی اللہ عنہ)
مدینۂ منورہ میں ہجرت کرنے کے بعد اسلام نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جاں نثاروں کے حُسنِ سیرت اور اعلیٰ اخلاق و کردار اور اپنی حقانیت اور صداقت کی بنیاد پر بڑی تیزی سے پھیلنے لگا۔اسلام کی اس طرح بڑھتی مقبولیت اور لوگوں کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے مکۂ مکرمہ اور مدینۂ منورہ کے کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی نیندیں اڑ گئیں ۔ ان دشمنانِ اسلام نے اسلام کو ختم کرنے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے طرح طرح کے منصوبے بنائے ۔ اب اسلام سے ان کی مخالفت میں بھی بڑی تیزی آگئی۔ جب کفار ومشرکین کی ہرزہ سرائیاں عروج پکڑنے لگیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبیِ کریم ﷺ نے ان کا سدِ باب کرنا شروع کیا ۔چناں چہ ہجرت کے آٹھویں سال ماہِ شوال کے آغاز میں آپ ﷺ نے رابغ نامی علاقے کی طرف ایک سریہ بھیجا ( سریہ =ایسا اسلامی لشکر یا ٹولی جس میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم شامل نہ ہوں اسے سریہ کہتے ہیں) اس سریہ کا امیر ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر شیخ المہاجرین حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ٹولی کو ایک سفید جھنڈا عطا کیا جس کو حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ لیے ہوئے تھے۔ رابغ کے قریب جب یہ لشکر ’’ ثنیۂ مریہ‘‘ کے مقام پر پہنچا تو ابو سفیان اور عکرمہ بن ابوجہل کی کمان میں دو سو مشرکین کی جماعت سے مڈ بھیڑ ہوئی ۔ حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے کفار پر تیر پھینکا ۔ یہ سب سے پہلا تیر تھا جو مسلمانوں کی طرف سے کفار پر چلایا گیا۔ مدارج النبوت میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : ’’ حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے کل آٹھ تیر پھینکے اور ہر تیرٹھیک نشانے پر بیٹھا ۔ کفار ان تیروں کی مار سے گھبرا کر فرار ہوگئے ۔ اس لیے کوئی جنگ نہ ہوئی ۔ اس سریہ کو ’’ سریۂ عبیدہ بن الحارث‘‘ کہا جاتا ہے۔‘‘ ( ج۲ص۷۸)
حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی شہادت
ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہ اور شیخ المہاجرین حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہما کا خوش نصیب جوڑا ۔ اپنے آقا ومولا نبیِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ان کی رحمتوں کے سایے میں ہنسی خوشی اپنی زندگی گذارتا رہا۔ ۱۲؍ رمضان المبارک ۲ھ سنیچر کا دن تھا جب کہ یہ دونوں میاں بیوی آپس میں بات چیت کررہے تھے ۔اچانک ایک آواز سنائی دی کہ :’’ آج نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی طرف غزوہ کے لیے تشریف لے جائیں گے( غزوہ=ایسا اسلامی لشکر یا ٹولی جس میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفسِ نفیس خود شامل ہوں اسے غزوہ کہتے ہیں)۔ حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے فوراً رتیاری کی اور اپنی زوجہ ام المساکین زینب رضی اللہ عنہا سے رخصت ہوئے۔یہ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کی اپنے موجودہ شوہر حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے آخری ملاقات تھی۔
مدینۂ منورہ سے میدانِ بدر کا فاصلہ تقریباً اٹھانوے میل کا تھا ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثار اصحاب رضی اللہ عنہم کے ساتھ جمعہ کی رات ۱۷؍ رمضان المبارک ۲ھ کو بدر کے قریب اترے ۔ یہ اسلامی تاریخ کا حق و باطل کے درمیان پہلا باضابطہ معرکہ تھا۔ دونوں لشکروں میں صف آرائی ہونے کے بعد دشمنانِ اسلام کی طرف سے کفارِ مکہ کے سردار عتبہ، شیبہ اور ولید میدانِ جنگ میں اترے اور انفرادی لڑائی کے لیے آواز لگائی۔
جس کے جواب میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تین جاں نثار اصحاب’’ علی ، حمزہ اورعبیدہ ‘‘( رضی اللہ عنہم )کے نام پکارے ۔ ’’ لبیک یارسول اللہ ! کہتے ہوئے تینوں اصحابِ رسول (رضی اللہ عنہم) دشمن سے مقابلے کے لیے میدان میںکود پڑے۔
جب جنگ شروع ہوئی تو حضرت علی اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہما جلد ہی فارغ ہوگئے جب کہ حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ اور ولید میں دیر تک لڑائی جاری رہی۔ دونوں ہی زخمی ہوگئے ۔ حضرت علی اور حمزہ رضی اللہ عنہم نے بڑھ کر ولید کو قتل کیا۔ اس معرکے میں حضرت عبیدہ بن حارث کا ایک پاؤں شہید ہوگیا تھایہ زخم بڑا کاری تھا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد جب لشکر مدینے کی طرف واپس ہونے لگا تو صفرا ء کے مقام پر آپ نے داعیِ اجل کو لبیک کہا اور وہیں مدفون ہوئے۔ مدینے میں جب بدر کے لشکر کے لوٹنے کی خبر پہنچی تو لوگ سراپا انتظار ہوگئے ۔اس دوران حضرت ا م المساکین کو اپنے شوہر حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر ملی۔ اِس جاں نثار خاتون نے جب یہ سنا تواُن کی آنکھیں نم ہوگئیں ، لیکن صبر کا دامن نہیں چھوڑا بارگاہِ رب العزت میں عرض کیا:’ ’ اے اللہ! بس تو راضی ہوجا۔‘‘
غزوۂ بدر کے کافی عرصے کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ وادیِ صفراء سے گذرے تورات کو وہیں قیام فرمایا کہ اچانک وہاں خوشبوئیں پھیل گئیں ۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: ’’ یارسول اللہ! یہ کیا ماجرا ہے کہ یہاں اس قدر بھینی خوشبو آرہی ہے۔‘‘ اس پر نبیِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ یہاں عبیدہ(رضی اللہ عنہ) کی قبر کے ہوتے ہوئے اس خوشبو پر تمہیں کیوں تعجب ہورہاہے؟‘‘
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا حضرت عبداللہ بن جحش سے نکاح
ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر بدر کے میدان میں شہید ہوگئے، اور آپ بیوگی کی زندگی بسر کررہی تھیں کہ ایک دن حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کا رشتہ آیا۔ یہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد اور اسلام کے آغاز میں ہی مسلمان ہونے والوں میں سے تھے۔ آپ بھی حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی طرح بہادر اور پُر جوش مجاہد تھے۔ قد میانہ اور سر کے بال بڑے گھنے تھے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سیدِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و الفت ان کی رگ رگ میں پیوست تھی ۔ اس محبت کے ہوتے آپ دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوگئے تھے ۔ ان کے دل میں بس ایک ہی خواہش تھی کہ یہ جان اللہ و رسول کے لیے قربان ہوجائے۔
جب ایسے جاں نثار صحابی کارشتہ آیا تو ام المساکین حضر ت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا بہ خوشی راضی ہوگئیں ، اس طرح دونوں کی شادی ہوگئی اور دوبارہ زندگی میں مسرت وشادمانی دوڑنے لگی۔
رجب المرجب ۲ھ میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کو ایک ٹولی کا امیر بنا کر ایک خط دے کر فرمایا کہ:’’ عبداللہ! دودن سفر کرنے کے بعد اس کو کھول کر پڑھنا اور اس پر عمل کرنا۔‘‘ حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے فرمان لیا اور سفر پر روانہ ہوگئے ۔ دوروز بعد خط نکال کر پڑھا ،لکھا تھا:’’ مکہ اور طائف کے بیچ جو نخلستان ہے وہاں پہنچ کر قریش کی نقل و حرکت اور دوسرے حالات کا پتا چلائیں۔‘‘ خط پڑھنے کے بعد آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہمیں اس خط پر عمل کرنا ہے، اس لیے جسے شہادت کا شوق ہے وہ میرے ساتھ چلے۔ چناں چہ آپ کے ساتھ باراہ افراد تھے سبھی نے ساتھ چلنے پر راضی ہوگئے اور وہ سب نخلہ کے بیچ میں پہنچ کر قریش کی نقل و حرکت کا جائزہ لینے لگے۔
حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کی شہادت
جب اسلام کی مقبولیت روز بہ روز بڑھنے لگی تو دشمنانِ اسلام نے ایک بار پھر اس کے سدِ باب کے لیے جنگ کا ارادہ کیا۔ چناںچہ غزوۂ احد واقع ہوا۔ اس غزوہ سے ایک روز قبل حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ خداودندی میں دعا مانگی کہ :’’ اے اللہ! مجھے ایسا مقابل عطا فرما جو بہت بہادر ہو، مَیں تیری راہ میں اس سے جہاد کروں یہاں تک کہ وہ مجھے قتل کرکے ناک ، کان کاٹ ڈالے، جب مَیں تجھ سے ملوں اور تو فرمائے کہ اے عبداللہ! یہ تیرے کان ناک کیوں کاٹے گئے، تو مَیں عرض کروں تیرے اور تیرے رسول کے لیے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کو اپنی خواہش کے پورا ہونے کا مکمل یقین تھا ، وہ قسم کھا کھا کر کہتے تھے کہ :’’ اے اللہ! مَیں تیری قسم کھاتا ہوںکہ مَیں دشمن سے جہاد کروں گا اور وہ میرا مُثلہ کرے گا۔‘‘( مُثلہ= ناک کان وغیرہ اعضا کاٹ ڈالنا)
۷؍ شوال ۳ھ سنیچر کو میدانِ جنگ میں دونوں لشکر آمنے سامنے تیار ہوگئے ۔ معرکہ شروع ہوا۔ حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ ایسے جوش و خروش اور شوق و ذوق سے لڑ رہے تھے کہ اُن کی تلوار کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو کھجور کی ایک چھڑی عطا فرمادی جس نے اُن کے ہاتھ میں تلوار کا کام کیا۔دیر تک لڑتے رہے ، ابو الحکم ابن اخنس ثقفی نے ایک ایسا وار کیا کہ آپ جنت مکین ہوگئے۔ مشرکین نے مُثلہ کیااور ان کے ناک کان کاٹ کر دھاگے میں پرو دیا ۔ اسلامی تاریخ میں انھیں’’المسجد ع فی اللہ ‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
ط
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 647429 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More