ام المؤمنین حضرت ام سلمہ بنت امیہ رضی اللہ عنہا کے فضائل و شمائل

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی دانش مندی
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بڑی دانش مند اور سمجھ دار تھیں۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفارِ مکہ سے صلح کے بعدصحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف سے ایک معاملہ پیش آیا تو وہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بہترین راے سے ہی حل ہوا۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۶ھ میں اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ عمرہ کے لیے مدینۂ منورہ سے مکۂ معظمہ کے لیے روانہ ہوئے ۔ مکہ کے مشرکین کو اس بات کی خبر ہوئی تو انھوں نے مزاحمت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیبیہ کے مقام پر رکنا پڑا۔ جاں نثار صحابہ رضی اللہ عنہم چوں کہ اپنے آقا نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔ اس لیے اس موقع پر وہ جنگ کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ لیکن نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑائی کی بجاے صلح کرنا پسند فرمایا ۔ اس وقت صحابہ رضی اللہ عنہم جنگ کے لیے بالکل تیار تھے ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی رعایت کے ساتھ کفارِ مکہ سے صلح فرمائی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ہر شرط قبول فرمالی جو ظاہر میں مشرکین کے لیے فائدے مند اور مسلمانوں کے لیے نقصان دہ لگ رہی تھی۔ صلح کی شرائط میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اس سال مسلمان عمرہ نہیں کریں گے آیندہ سال عمرہ کے لیے آسکتے ہیں۔ صلح نامہ سے فارغ ہوکر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ارشاد فرمایا کہ اپنے احرام کھول دو، قربانی کے جانور ذبح کر لو اور اپنے سر منڈوا لو۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو اپنے آقا سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر مر مٹنے کے جذبات سے سرشار تھے۔ ان کی طبیعتیں اس بات پر آمادہ نہ ہوئیں کہ ہم بغیر عمرہ کیے مدینۂ منورہ واپس چلے جائیں ۔ لہٰذا اپنے پیارے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر کوئی بھی نہ اٹھا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ حکم دیا جب کسی نے بھی اس پر عمل نہ کیا تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاکے پاس تشریف لائے اور ان سے واقعہ ذکرفرمایا۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہانے عرض کی :’’ یارسول اللہ! کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ سب احرام کھول دیں ؟توپھر ایسا کریں کہ آپ باہر نکل کر کسی سے کوئی بات نہ کریں اور اپنے جانور ذبح فرمادیں اور بال مونڈنے والے کو بلا کر اپنے بال مونڈالیں۔‘‘
چناں چہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا اور باہر نکل کر اپنا جانور ذبح کردیا اور بال منڈالیے ۔ جب جاں نثار اور وفادار صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے آقا رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو بے تابانہ وہ بھی آگے بڑھے اور اپنے اپنے احرام کھول دئیے اور اپنے اپنے جانور ذبح کر ڈالے اور آپس میں ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاکی اس راے کے بارے میں جس سے یہ معاملہ حل ہواحضر ت حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ :’’ حدیبیہ کے موقع پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے راے دینے سے یہ پتا چلتا ہے کہ وہ بڑی عقل مند اور ٹھیک راے رکھنے والی خاتون تھیں۔‘‘( الاصابہ)
صلح حدیبیہ میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارِ مکہ کی تمام شرائط مان لی تھیں ، جو کہ بہ ظاہر مسلمانوں کے لیے نقصان دہ محسوس ہورہی تھیں۔ لیکن آیندہ سال یوں ہوا کہ مکہ فتح ہوگیا اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بڑی شان و شوکت سے مکۂ مکرمہ میں داخل ہوئے ۔ صلح حدیبیہ میں کفار کی شرائط کا تسلیم کرلینا دراصل نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ ترین سیاسی تدبر کو ظاہر کرتا ہے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خوب علوم سیکھے اور ان کو عام کیا
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاجب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکا ح میں آگئیں تو انھوں نے اسے بہت بڑی سعادت مندی تصور کیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت کو غنیمت جانا۔آپ اچھے قوتِ حافظہ کی مالکہ تھیں۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی ارشاد فرماتے انھیں اپنے ذہن میںمحفوظ کرتی جاتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرکے اپنے علم میں اضافہ کرتیں۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہانے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے علوم سیکھے ہی نہیں بل کہ ان کو خوب پھیلا یابھی۔ حدیث میں ان کے شاگردوں میں صحابہ بھی تھے اور تابعین بھی(رضی اللہ عنہم)۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو بھی بعض سیرت نگاروں نے ان کے شاگردوں میں شمار کیا ہے۔ حدیث شریف کی کتابوں میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے جو روایتیں ملتی ہیں ان کی تعداد ۳۷۸؍ ہیں ۔آپ کا شمار محدثین کے تیسرے طبقے میں ہوتا ہے۔
محمود بن لبید فرماتے ہیں کہ:’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب ہی ازواجِ مطہرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو سن کر یاد کرتی تھیں لیکن ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ اور ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی ہم پلہ اس میں کوئی اور بیوی نہ تھی۔ ‘‘
مروان بن الحکم ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مسائل دریافت کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم کسی اور سے کیوں پوچھیں جب کہ ہمارے درمیان نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں موجود ہیں ۔سیرت کی کتابوں میں آتا ہے کہ اگرام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے فتاویٰ جمع کیے جائیں تو خاصی تعداد میں جمع ہوسکتے ہیں اور ان کے مجموعہ کا ایک رسالہ بن سکتا ہے۔
آپ سے بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم نے حدیث کا علم حاصل کیا ۔ جن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چند ایک کے نام یہ ہیں :
حضرت عبدالرحمن بن ابو بکر، اسامہ بن زید ، ہند بن الحارث الفراسیہ، صفیہ بنت شیبہ ، عمر و زینب (اولادِ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا)، مصعب بن عبداللہ (حضرت ام سلمہ کے بھائی) ، بنہان ( غلام مکاتب) ، عبداللہ بن رافع ، شعبہ ، ابو بکیر ، خیرہ والدہ حسن بصری ، سلیمان بن یسار ، ابو عثمان الہندی ، حمید، سعید بن مسیب ، ابو وائل ، صفیہ بنت محصن ، شعبی ، عبدالرحمن ابن حارث بن ہشام، عکرمہ ، ابو بکر بن عبدالرحمن ، عثمان بن عبداللہ ابن موہب، عروہ بن زبیر ،کریب مولیٰ ابن عباس ، قبیصہ بن زویب ، نافر مولیٰ بن مملک رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی چند احادیث
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سننے کا بہت شوق تھا ۔ آپ سے روایت کردہ حدیثیں جوکتابوں میں موجود ہیں ان میں سے چند ایک درج کی جاتی ہیں :
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ مَیں نے ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ :’’ دنیا کی عورتیں بہتر ہیں یا حوریں؟ ‘‘
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ دنیا کی عورتیں۔‘‘
مَیں نے عرض کی :’’ یارسول اللہ! کس وجہ سے؟
ارشاد فرمایاکہ :’’ اس لیے کہ اِن عورتوں نے نمازیں پڑھی ہیں ، روزے رکھے ہیں اور عبادتیں کی ہیں۔‘‘
ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ :’’ یارسول اللہ ! مَیں اپنے سر کی مینڈھیاں سختی سے باندھتی ہوں تو کیا غسل جنابت کے لیے ان کو کھولا کروں ؟ ‘‘ اس پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ نہیں ! بس اتنا کافی ہے کہ تم اپنے سر پر تین بار لپ بھر کر پانی ڈال لیا کرو (جس سے بالوں کی جڑیں تر ہوجائیں) اس کے بعد (سارے بدن پر) پانی بہالیا کرو ۔ایسا کرنے میں پاک ہوجاؤگی۔‘‘ ( مسلم شریف)
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاروایت فرماتی تھیں کہ:’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھایا کہ مغرب کی اذان کے وقت یہ پڑھا کرو : ’’ اَللّٰہُمَّ اِنَّ ہٰذَا قِبَالُ لَیْلِکَ وَاِدْبَارُ نَہَارِکَ وَاَصْوَاتُ دُعاَئِکَ فَاغْفِرْلِی۔ (ترجمہ: اے اللہ! یہ تیری رات کے آنے اور دن کے جانے اور تیرے بلانے کی آوازوں کا وقت ہے سو مجھے بخش دے) ۔( مشکوٰۃ شریف)
ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقدس کاشانے میں تشریف فرما تھے اور آپ کے قریب ہی ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہااور ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں کہ اچانک حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آگئے ، وہ چوں کہ نابینا تھے اس لیے یہ سمجھ کر کہ ان سے کیا پردہ کرنا ہے ۔ دونوں وہیں بیٹھی رہیں اور پردہ نہ کیا ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’ان سے پردہ کرو۔‘‘ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہانے عرض کیا :’’ یارسول اللہ! کیا وہ نابینا نہیں ہیں ؟ ہم کو تو نہیں دیکھ سکتے! پھر پردہ کی کیا ضرورت ؟‘‘نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب ارشاد فرمایا:’’ کیا تم دونوں بھی نابینا ہو ؟ کیا تم ان کو نہیں دیکھ رہی ہو؟ ‘‘( مشکوٰۃ و ترمذی شریف)
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہافرماتی تھیں کہ :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک پناہ لینے والا بیت اللہ میں آکر پناہ لے گا۔ اس سے لڑنے کے لیے ایک لشکر چلے گااور وہ لشکر ایک میدان میں پہنچ کر زمین میں دھنس جائے گا ۔ ‘‘
مَیں نے عرض کی :’’ یارسول اللہ ! جو لوگ اس لشکر میں شریک نہ ہوں گے اور اس لشکر کے حملے کو بُرا سمجھ رہے ہوں گے کیا وہ بھی اس میدان میں ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ دھنسا دئیے جائیں گے؟ ‘‘ -- نبیِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اس لشکر کے ساتھ وہ بھی دھنسا دئیے جائیں گے ، لیکن قیامت کے روز ہر ایک کا اپنی اپنی نیت پر حشر ہوگا۔‘‘ ( مشکوٰۃ شریف)
ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہانے سوال کیا کہ :’’ یارسول اللہ! کیا مجھے (اپنے شوہر) ابو سلمہ کی اولاد پر خرچ کرنے سے اجر ملے گاحال آں کہ وہ میری ہی اولاد ہیں۔ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایاکہ:’’ اُن پر خرچ کرو تم کو اس خرچ پر اجر ملے گا۔‘‘ ( بخاری )
ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہانے عرض کیا :’’یارسول اللہ ! مرد جہاد کرتے ہیں اور عورتیں جہاد نہیں کرتیں اور عورتوں کو مرد کے مقابلے میں آدھی میراث ملتی ہے ( اس کا سبب کیا ہے؟) ‘‘ اس کے جواب میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک کی یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی : وَلَا تَتَمَنَّوا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلیٰ بَعْضٍ(سورہ نسآء آیت ۳۲)
( ترجمہ:)اور اس کی آرزو نہ کرو جس سے اللہ نے تم میں ایک دوسرے پر بڑائی دی۔
ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہانے حدیث سنائی کہ :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بعض لوگ جو مسلمان سمجھے جاتے ہیں ( اور وہ دل سے مسلمان نہیں ہیں) ایسے لوگوں کو اپنی وفات کے بعد مَیں نہ دیکھوں گا اور نہ وہ مجھے دیکھ سکیں گے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور ان کو یہ حدیث سنائی تو حضر ت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خود ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاکے پاس تشریف لے گئے اور پوچھا خداکی قسم! سچ سچ کہنا مَیں ان میں سے تو نہیں ہوں (جن کا ذکر اس حدیث میں ہے) ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہانے فرمایا:’’نہیں ۔‘‘
اسی طرح ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہانے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز پر قرأت کرکے بتائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت پر ٹھہرتے تھے،بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر ٹھہرتے پھر الحمد للہ رب العالمین پڑھ کر رکتے ، الرحمن الرحیم پڑھ کر توقف فرماتے ، پھر مالک یوم الدین پڑھ کر ٹھہرتے ۔ غرض یہ کہ اسی طرح نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم علاحدہ علاحدہ آیات کرکے پڑھتے تھے۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہافرماتی تھیں کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حکم فرماتے تھے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھ لیا کرو ۔ جن میں پہلا پیر یا جمعرات ہو ۔ (ابوداود و نسائی)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہااور امر بالمعروف
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بھی بہت پابند تھیں۔ ایک روز ان کے بھتیجے نے دورکعت نماز پڑھی ۔ چوں کہ سجدہ کی جگہ غبار تھا۔ اس لیے وہ صاحب زادے سجدہ کرتے وقت مٹی جھاڑ دیتے تھے۔ یہ دیکھ کرام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہانے ان کو روکا اور فرمایا کہ یہ کام نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے خلاف ہے۔
ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک غلام (افلح) نے ایسا کیا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے فرمایا تھا :’’ اے افلح! اپنا چہرہ مٹی میں ملا۔‘‘ ( مسند امام احمد)
 
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 646745 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More