امام مسجد نبوی کا سانحہ ارتحال
(Ghulam Nabi Madni, Madina)
شیخ محمد ایوب مسجد نبوی کے امام
اور مدینہ یونیورسٹی کے فاضل اور استاد تھے۔آپ کا شمار نہ صرف سعودی عرب
بلکہ عالم اسلام کے مشہور قراء میں ہوتا ہے۔آپ 1952ء کو مکہ میں پیدا
ہوئے۔12 سال کی عمر میں قرآن کریم مکمل حفظ کیا۔بعدازاں مدینہ منورہ میں
ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1408ھ میں مدینہ یونیورسٹی سے تفسیر قرآن
میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔آپ کی ذہانت،محنت اور تعلیم وتعلم میں بھرپور
رغبت کی وجہ سے آپ کو مدینہ یونیورسٹی میں استاد مقرر کیا گیا۔اس کے ساتھ
ساتھ آپ مدینہ منورہ کی مختلف مساجد میں امامت کے فرائض بھی سرانجام دیتے
رہے۔جن میں مسجد نبوی اور مسجد قباء بھی شامل ہیں۔ 1410 ھ سے 1417ہجری تک
متواترمسجد نبوی میں امامت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔آپ کو 1410 ھ کے
رمضان میں تنہامسجد نبوی میں تراویح کی نماز پڑھانے کا خاص اعزاز بھی حاصل
ہے۔تقریبا19 سال کے انقطاع کے بعد گزشتہ سال ملک سلمان کے حکم پر آپ دوبارہ
مصلی نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر تشریف لائے اور تراویح کی نماز پڑھائی۔9
رجب 1437ھ کوفجرکےبعد 64 سال کی عمر میں آپ اپنےخالق حقیقی سےجاملے۔اناللہ
واناالیہ راجعون۔ اسی دن ظہر کی نماز کے بعد مسجد نبوی میں مسجد نبوی کے
قدیم امام شیخ علی الحذیفی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔اور جنت البقیع ایسے
مبارک قبرستان میں دفن ہونے کی سعادت ملی۔پسماندگان میں دو بیویاں،5 بیٹے
اور اور دوبیٹیاں شامل ہیں۔الحمدللہ پانچوں بیٹے اور بیٹیاں قرآن کریم کے
حافظ ہیں۔اس کے علاوہ ہزاروں تلامذہ ہیں جنہوں نے مسجد نبوی اور مدینہ
یونیورسٹی میں آپ سے کسب فیض کیا۔اللہ آپ کے درجات بلند فرمائے۔رحمه الله
رحمة واسعۃ۔
شیخ محمد ایوب انداز قرآن اور خوش الحانی میں یکتا اور منفرد حیثیت کے مالک
تھے۔یہی وجہ تھی کہ ملک فہد کے حکم پر آپ نے مکمل قرآن کریم کی ریکاڑڈنگ
کروائی جو ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ پر آج تک نشر ہورہی ہے۔اہل مدینہ آپ کی
آواز سن کر دھاڑیں مارکررونے لگتے تھے۔19 سال کے بعد جب پچھلے سال آپ کو
مسجد نبوی میں تراویح کے لیے امام مقررکیا گیا تو دور دراز سے لوگ آپ کی
اقتدا میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لائے۔آپ فرماتے تھے کہ میری دو خواہشیں
ہیں،ایک یہ کہ محراب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مرنے سے پہلے امامت کی
سعادت مل جائے اور دوسری یہ کہ میری چھوٹی بیٹی بھی قرآن حفظ کرلے۔اللہ کی
شان آپ کی یہ دونوں خواہشیں مکمل ہوئیں۔چنانچہ 19 سال کے بعد آپ کو محراب
نبوی میں پچھلے سال امامت کی سعادت بھی ملی اور فوت ہونے سے ایک دن پہلے
اپنی بیٹی کی حفظ ِقرآن کی تقریب میں شرکت بھی فرمائی ۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں برتری کا معیار صرف تقوی ہے۔اللہ کے محبوب صلی
اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ "کسی عربی کو عجمی پر کوئی برتری نہیں،نہ کسی
عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت ہے اورنہ کالے کو گورے پر کوئی برتری حاصل ہے
اورنہ گورے کو کالے پر کوئی برتری ہے مگر تقوی کے ذریعے"اس پر شاہدہے۔شیخ
محمدایوب اصلا برمی تھے،لیکن قرآن کریم سے محبت اور لگن کی وجہ سے اللہ نے
انہیں دیگرہزاروں عربوں پر فضیلت بخشی اور مصلی نبوی پرامامت کی سعادت سے
سرفراز فرمایا۔مسجد نبوی میں ہر نماز کے بعد کئی کئی جنازے ہوتے ہیں،لیکن
جنازے کو کندھا دینے کے لیے کبھی لوگ دور دور سے دوڑ دوڑ کرنہیں جاتے،پہلی
بار میں نے یہ جنازہ دیکھا جس میں بوڑھے،نوجوان سبھی شیخ محمد ایوب کے
جنازے کو کندھا دینے کے لیے دوڑے جارہے تھے۔دنیا بھر سے آئے زائرین بھی یہ
منظر دیکھ حیران تھے۔مسجد نبوی میں معمول سے زیادہ رش تھا،گرمی کی شدت کے
باوجود لوگ تدفین کے مراحل میں شریک رہے۔
شیخ محمد ایوب ایسے لوگوں کی رفعت اور قدر ومنزلت کی وجہ صرف قرآن اورقرآن
تھی۔حضرت عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا کہ:"اللہ عزوجل اس قرآن کے ذریعے کچھ لوگوں کو بلند کرتے ہیں جب
کہ بعض دوسرے لوگ(جوقرآن سے روگردانی کرتے ہیں) کو پست کردیتے ہیں"۔ایک
دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا کہ قرآن پڑھا کرو کیوں کہ قیامت کے دن یہ
اپنےپڑھنےوالوں کی سفارش کرے گا۔اس لیے ہر مسلمان کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ
وہ قرآن سے دوستی لگائے،خود بھی سیکھے اور تدبر سے پڑھے اورسمجھے اور اپنے
گھروالوں اوردیگر مسلمانوں کو اس کی طرف راغب کرے۔آج مسلمانوں کی پستی کا
ایک سبب قرآن سے دوری ہے۔" اورتم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر"۔
شیخ محمد ایوب ایسےلوگ تمام مسلمانوں کےلیےمشعل راہ ہیں،جو قرآن کی برکت
سےساری زندگی لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتے رہے اور قیامت تک آنے والے لوگ
قرآن ہی کی وجہ سے انہیں یاد اور دعائیں دیتے رہیں گے۔اللہ تعالی ہمیں قرآن
کریم اور اہل قرآن سے محبت کرنے والا بنائے اورقرآن کی خدمتکے لیے قبول
فرمائے۔ |
|