خواجہ خواجگاں شاہ ہندوستاں حضرت
خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ چھٹی صدی ہجری کی ایک عظیم نابغہ روزگار
شخصیت کا نام ہے جو اپنے وقت کے ایک جلیل القدر بزرگ،متبحر عالم دین،محقق،،
مفکرعارف باﷲ ، اور ساتھ ساتھ بے مثال مجدداور باکرامت ولی بھی تھے۔کرۂ ارض
پر آپ کی بے شمار دینی و علمی اور تجدیدی خدمات ہیں جس کا احاطہ ممکن
نہیں۔آپ کی تصنیف کردہ کتابوں اوراقوال و ارشادات کی تعداد ان گنت ہیں جن
سے تصوف و طریقت ،اسلامی اخلاق و آداب اور شریعت و سنتِ نبوی ﷺ کا بہت
زیادہ درس ملتا ہے۔اس کے علاوہ راست گوئی ،خدمت خلق،اوراحقاق حق و ابطال
باطل آپ کا اعلیٰ شعار تھا۔آپ نے اپنی پوری حیات و عمراحیائے دین،اتباع
شریعت اور اسلام کے فروغ و استحکام میں گزاردی۔یہی وجہ ہے کہ آج برصغیر(ہند
و پاک اور بنگلہ دیش)میں ہرسو اسلام کا پرچم لہرارہاہے۔
تاریخی شواہد سے یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر و عیا ں ہے کہ تبلیغ اسلام ،اشاعت
دین اور شریعت مصطفوی ﷺ کے فروغ و دوام میں آپ کے حسن اخلاق و کردار ،عمدہ
عادات و اطوار ،شیریں کلامی،حلم وبردباری،عفوودرگزر،تواضع و انکساری ،غریب
پروری،دنیا سے بے نیازی و بیزاری اور صبر و شکر کا ایک اہم رول رہا ہے۔
آپ کی سیرت و سوانح کا بنظر غائر مطالعہ کرنے سے یہ بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ
آپ کس قدر اپنے بڑوں کی تعظیم و توقیر،چھوٹوں سے مشفقانہ برتاؤ،غریبوں کی
ذرہ نوازی اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی کیا کرتے تھے۔یہاں آپ کی اخلاقی
زندگی کے کچھ پہلوؤں کو پیش کیا جارہے ۔
حُسنِ خُلق:ہر ایک کے ساتھ انتہائی خوش اخلاقی اور حسن سلوک سے پیش آنا
یقینا یہ ایک ایسی عادت ہے جس سے انسان کی زندگی میں چار چاند لگ جاتے ہیں
اور وہ سماج و معاشرے میں بااخلاق،مہذب و مؤدب اور شریف الطبع انسان کے طور
پر دیکھا جاتا ہے۔اسی لیے تو اﷲ کے پیارے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے
کہ:’’یقیناتم میں سب سے زیادہ مجھے وہ شخص محبوب ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔
اس حدیث رسول ﷺ کی رو سے غریب نواز علیہ الرحمۃ کی زندگی کے پہلوؤں پر نظر
ڈالی جاتے تو آپ کی ذات و شخصیت من و عن اس کی پیکر جمیل،مظہر اتم اور
نمونہ کامل نظر آتی ہے۔اﷲ تعالیٰ نے آپ کو محبوب و پسندیدہ اخلاق و عادت ،خصائل
جمیلہ اور اوصاف حمیدہ سے آراستہ و پیراستہ فرمایا تھا۔یہی وجہ ہے کہ آپ
صغیر و کبیر،امیروغریب اور کمزوروطاقت ور سبھی کے ساتھ انتہائی خوش خلقی و
خوش روئی سے پیش آتے تھے۔
تواضع و انکساری: یہ ایک ایسی عادت و خصلت ہے کہ جس بندے کے اندر پیدا
ہوجائے تو وہ دنیا وما فیھا کو چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے لولگاتا ہے جس
کی وجہ سے بندہ اپنے رب سے انتہائی قریب ترہوجاتا ہے جس کے سبب رب تعالیٰ
اس کو دونوں جہاں میں بلندی و سرخروئی عطا فرماتاہے۔چناچہ حدیث شریف میں
وارد ہے کہ :’’جو شخص اﷲ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے تواضع و انکساری اختیار
کرے گا،اﷲ تعالیٰ اس کو سربلندی عطا فرمائے گا‘‘۔(احیا ء العلوم)
اسی کو حضرت شیخ سعدیؔشیرازی علیہ الرحمۃ یوں بیان کرتے ہیں کہ :
دلا گر تواضع کنی اختیار شود خلق دنیا ترا دوست دار
اے! دل اگر تو تواضع اختیار کرے گا تو دنیا کی مخلوق تجھے اپنا دوست بنالے
گی (کریما سعدی)
حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمۃ اسی مبارک خصلت و عادت کی عملی تصویر کا
نام ہے،جن کے اندر عاجزی و خاکساری،تواضع و انکساری اور منکسرالمزاجی
انتہائی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔بزرگوں نے ولی کامل کی علامت و پہچان کے بارے
میں فرمایا ہے کہ جس کے اندر سورج کی طرح شفقت،دریا کی طرح سخاوت و فیاضی
اور زمین کی مانند تواضع و خاکساری ہو وہ انتہائی درجہ کمال پر فائز ہوتا
ہے۔یہ تینوں اوصاف و کمالات حضور غریب نواز علیہ الرحمۃ میں بدرجہ اتم
موجود تھے۔
عفوو درگزر: کسی کی غلطی پر عفو و در گزر سے کام لینا اور ہر حال میں صبر و
شکر اختیار کرنا یقیناً یہ انبیاے کرام علیھم السلام کی سنت مبارکہ ہے جو
بہت ہی بہترین خصلت اور نہایت ہی عمدہ و نفیس عادت ہے۔چنانچہ اﷲ تعالیٰ
قرآن عظیم میں ارشاد فرماتا ہے:’’لوگوں کی خطاؤں کو معاف کردواور عفودرگزر
کی خصلت اختیار کرو‘‘۔خود پیارے آقا ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ:’’خیر المال
العفو‘‘یعنی معاف کرنا بڑی دولت ہے۔
سرکار غریب نواز علیہ الرحمۃ مذکورہ فرامین و خصائل کی ایک عملی نمونہ تھے
،آپ انتہائی متحمل المزاج ،رقیق القلب اور متین و سنجیدہ شخص تھے،اگر کوئی
آپ کو کسی طرح کی بھی کوئی دکھ و تکلیف پہنچاتا تو آپ نہایت ہی خندہ زنی سے
اسے سہہ لیا کرتے پھر بعد میں اس کے نادم و شرمندہ ہونے پر عفو و درگزر سے
کام لیتے۔آپ کی سیرت و سوانح کی کتابوں میں آپ کے عفو و درگزر کے بے شمار
ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس قدر نرم دل ،اعتدال
پسند اور خلق خدا پر مہربان تھے۔
سخاوت و فیاضی اور غریب پروری:اپنے مالک کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر اداکرتے
ہوئے اسے راہ خدا میں صرف کرنا سخاوت کہلاتا ہے۔یہ ایک ایسی عادت و خصلت ہے
جس کے سبب اﷲ تعالیٰ اس کے کرنے والے کو بے شمار اجر و ثواب اور ابدی
نعمتوں سے سرفراز فرماتاہے اور مزید اس کے اموال و وسائل میں بے پناہ
برکتیں اور رحمتیں نازل فرماتاہے۔اﷲ کے پیارے رسول ﷺ نے سخی وفیاض کو جنت
سے قریب اور جہنم سے دور بتایا اور فرمایا کہ جنت سخی لوگوں کا گھر
ہے۔یقینا یہ تمام فضائل و انعامات ان لوگوں کے لیے ہیں جو راہ خدا میں خرچ
کرتے ہیں یعنی غریبوں ،مسکینوں اور حاجت مندوں کی حاجات و ضروریات کو پوری
کرتے ہیں ۔غریبوں ،مسکینوں،حاجت مندوں اور مصیبت زدہ لوگوں کی دل جوئی کرنا
ان کے درد و کرب کو کافور کرکے انہیں سکون دل، راحت واطمینان اور قلبی
مسرتیں پہنچانا،ان سے الفت و محبت کرنا ان کی حاجات و ضروریات کو بلا تامل
و توقف پورا کرنانہایت ہی اعلیٰ خدمت ہے ۔غریب نواز علیہ الرحمۃ کی ذات کو
اگر اس سلسلے میں دیکھا جائے توآپ اس معاملے میں بہت ہی وسیع الظرف،دل
نوازاور حاجت رو اتھے۔حضرت سلطان الہند غریب نواز علیہ الرحمۃکے
عطاوبخشش،سخاوت و فیاضی اور غریب پروری کی مثال تاریخ ہند میں کہیں نہیں
ملتی۔آپ خود اپنے ارادت و عقیدت مندوں کو یہی نصیحت و تلقین فرمایا کرتے
تھے کہ:’’درویشوں اور غریبوں سے محبت رکھوجو ان کو دوست رکھتا ہے اﷲ عزوجل
اس کو دوست رکھتا ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ آپ پوری دنیا بھرمیں’’ غریب نواز‘‘ کے نام سے مشہور و معروف
ہیں۔اورآج بھی آپ کے آستانہ عالیہ پر بلا تفریق مذہب و ملت لوگ آتے ہیں اور
گوہر مراد سے اپنے دامن کو بھر کے لوٹتے ہیں۔
صبروشکر:مصیبتوں کے سامنے عزم و اسقلال کے ساتھ جم کر ڈٹے رہنا اور نعمتوں
کے حاصل ہونے پر اپنے رب کا خو ب شکر بجا لانا یہ ایک ایسی عادت و خصلت ہے
جوانبیائے کرام و رسولان عظام علیھم السلام کی مبارک سنت ہے۔جس انسان کے
اندر یہ سرشت و خو پیدا ہوجاتی ہے ،وہ اپنے رب کا انتہائی صابر و شاکر بندہ
بن جاتا ہے۔
سرکار غریب نواز علیہ الرحمۃ کی حیات طیبہ کے درخشاں پہلوؤں سے یہ بھی
معلوم ہوتا ہے کہ آپ نہایت ہی صابر و شاکر اور قناعت پسند تھے۔آپ ہر سخت سے
سخت مصیبت پر صبر و تحمل کا مظاہرہ فرماتے ،یہاں تک کہ آپ نے اپنی پوری
زندگی میں بے شمار مشکل گزارگھاٹیوں کو طے فرمایا،لیکن کبھی بھی حرف شکایت
زبان پر نہ لائے اور یونہی صبر و استقلال اور ثبات قدمی کے ساتھ اس پر ڈٹے
رہے،اور اسی طرح رنج و راحت اور غمی و خوشی میں اپنے رب کا شکر و احسان
بجالاتے رہے۔
حضور غریب نواز علیہ الرحمۃ کی حیات مقدسہ کے یہ چند اخلاقی نمونے تھے جو
اوپر ذکر کیے گئے ،جن پرعمل کرکے ہم اپنی زندگی کو اخلاق و کردار کا آئینہ
دار بنا سکتے ہیں۔
مولیٰ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں غریب نواز علیہ الرحمۃ کے اخلاق
و کردار کے مطابق زندگی گزارنے اور اس پر وفور عمل کی توفیق عطا
فرمائے۔اٰمین |