21اپریل 1938کی صبح حکیم ا لامت ، شاعر
مشرق زندگی کی61بہاریں دیکھ کر اور شاعری کی دنیا کے چالیس برس جی کر کے
وفات پا گئے۔ ایک دور کا اختتام ہو گیا۔مسلمانان برصغیر کی کی حالت زار
شاعر مشرق پر گراں گزری ۔ انہوں نے مسلم لیگ کے 1930ء کے آلہ آباد سیشن میں
اپنے صدارتی خطبے میں مسلمانان بر صغیر کے اکثریتی علاقوں جو کہ برصغیر کے
شمال مشرق و شمال مغرب میں واقع ہیں، ایک علٰحیدہ ملک کی مانگ کی۔ علمی
مصروفیات کی وجہ سے علامہ سیاست کو مناسب وقت نہ دے سکے۔ 1930کے عشرے میں
مسلم لیگ میں بھی وہ تنظیمی سکت نہیں تھی کہ وہ کانگریس کا مقابلہ کر
تی۔اسی وجہ سے 1937کے الیکشن میں کانگریس نے میدان مار لیا۔ پنجاب میں مسلم
لیگ کو صرف ایک سیٹ ملی۔ جبکہ یہاں مسلمانوں کے لئے 75نشستیں مخصوص تھیں۔
بنگال بھی مسلم اکثریتی صوبہ تھا، یہاں مسلم لیگ کو اتحادی حکومت تشکیل
دینا پڑی۔ یہ بھی حیران کن بات تھی کہ مسلم اکثریتی صوبہ سرحد میں کانگریس
نے حکومت بنائی۔ خان عبد الغفار خان کے بھائی ڈاکٹر خان نے کانگریس حکومت
کی سربراہی کی۔ مگرچند ہی برسوں میں قائد اعظم نے سیاست کی بساط پلٹ دی۔
علامہ اقبال اور ان کے احباب قدیم لیگی تھے۔ وہ جاگیردارانہ نظام کے خلاف
تھے۔ وہ جاگیرداروں کو مسلم لیگ میں لانے کے خلاف تھے کہ اس سے وہ اپنی
دولت کے بل پر پارٹی کو ہائی جیک کر دیں گے۔ آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
وڈیروں اور جاگیرداروں ، صنعتکاروں نے حکومتیں ہائی جیک کر لی ہیں۔مسلم لیگ
پسماندہ مسلمانوں کو انصاف دلانے کے لئے قائم کی گئی تھی۔ جاگیرداروں کی
وجہ سے ان مقاصد کو شکست ہو نے کا خطرہ تھا۔ مگر علامہ اقبال کی تحریک پر
قائد اعظم نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ سچ تو یہ ہے کہ علامہ کے پیغام کی
اہمیت و افادیت مشرق و مغرب کی ادبی محفلوں میں آج بھی اپنا لوہا منوا رہی
ہے۔ مغربی ادب اسلام کے بارے میں ا مام غزالی کے بعد علامہ اقبال کی
تحریروں کا سہارا لے رہا ہے۔ علامہ اقبال کے لئے سیاست اگر چہ نصب العین تک
پہنچنے کا ایک زریعہ بنی البتہ ان کا مشن بنیادی طور پر اپنی شاعری کے
وسیلے سے پیغام رسانی کا رہا۔ علامہ نے قائد اعظم کو رہبری کا بار سنبھالنے
کے لئے آمادہ کیا جب وہ ہند مسلم اتحاد کی کوششوں میں ناکامی سے دلبرداشتہ
ہو کر لندن چلے گئے تھے۔
علامہ اقبال صدی کے بہت بڑے بے باک شاعر اور مفکر تھے۔ انھوں نے مولانا
رومی، مجدد الف ثانی، محدث دہلوی، جمال الدین افغانی کا فلسفہ اپنایا۔ ان
کا مطالعہ بھی بہت وسیع تھا۔ ان کی اسلامی تاریخ پر بھی گہری نظر تھی۔ ان
کا بجا کہنا تھا کہ تین چیزوں نے اسلام کے عروج پر منفی اثرات ڈالے۔ ان میں
پہلی مطلق العنان ملوکیت، دوسری نیم خواندہ ملائیت اور تیسری تصوف۔ آج
پاکستان اور ہندوستان میں اسی تصوف پر عالمی کانفرسیں ہو رہی ہیں۔ بھارت
میں فرقہ پرست وزیراعظم مودی نے ان کانفرسوں کی سر پرستی کر کے سب کو حیران
کر دیا۔گو کہ اسلام روشن خیال دین ہے لیکن علامہ کے نزدیک جن تین چیزوں نے
مسلم دور کو زوال پذیر کیا۔ ان میں ایک تصوف بھی ہے۔برصغیر کے عظیم مفکر
اور اسلامی شاعر علامہ محمد اقبال نے ایران میں The Development of
Metaphysics in Persiaمقالہ سپرد قلم کرنا چاہا تو انہیں اس کے لئے جستجو
اور گہری تحقیق کرنا پڑی۔ اسکے علاوہ انھوں نے اپنے سات معروف انگریزی
خطبات پر مشتمل کتاب The Reconstruction of Religious Thought in
Islam"ــ‘‘اور دیگر مضامین اور خطوط میں اس کا جائزہ لیا ہے۔ اس کے بعد
انھوں نے فرمایا
باقی نہ رہی تجھ میں وہ روشن ضمیری
اے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری
اس سلسلے میں سر سید احمد خان، شیخ محمد عبدہ، بغلول پاشا جیسے مسلم مصلحین
و مفکرین نے ان تین سے جان چھڑانے کے لئے خوب کام کیا۔ انھوں نے بھرپور
کوشش کی۔ علامہ سلطانی، ملائی، پیری تینوں کی اصلاح چاہتے تھے۔ تا کہ مسلم
معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے۔ کیوں کہ ان سے مسلمانوں میں ضعف، ترک
دنیا، تقلید ذہن پیدا ہو گیا تھا۔ جبکہ مسلمان کے لئے ترک دنیا کی ہدایت
نہیں۔ وہ دنیا سے بھاگ نہیں سکتا۔ دنیا و ما فیھا سے غافل رکھنے کے لئے رقص
و موسیقی کا سہارا لیا گیا۔ جبکہ عالم دنیا ہست و بود کے احتساب کا نام ہے۔
ماضی میں مسلمانوں کے فقر سے ان کا جلوہ و جلال تھا۔ یہ ختم ہوا تو جلال و
جمال بھی ختم ہو گیا۔ مسلمان مختلف نظریات اور قوتوں کے اسیر بننے لگے۔ پس
چہ باید کرد میں بھی علامہ نے مسلمانوں کو فقر قرآن اختیار کرنے کا درس دیا
ہے۔ خودی کا فلسفہ بھی مسلمانوں کو سیاسی اور روحانی آزادی کے قریب لانے کے
لئے پیش کیا گیا تھا۔ تا کہ مسلمان وقار کی زندگی گزار سکیں۔ علامہ اسلام
کے شاندار مستقبل سے پر امید تھے۔
نہیں اقبال نا امید اپنی کشت ویران سے
زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
علامہ 1908میں یورپ سے واپس آئے تو ان کے خیالات میں تبدیلی آئی ہوئی تھی۔
اور اسی وجہ سے وہ تصوف کے مخالف بن گئے۔ ان کے کلام میں 1910سے 1922 تک اس
کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ اسرار خودی اور رموز بے خودی بھی اسی دور کی
مثنویاں ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ اقبال ایک عہد آفرین شاعر کا نام ہے۔ انھوں
نے اپنے فکر و فن اور کلام و پیام سے اردو زبان کو بہرہ مند کر دیا۔ اردو
شاعری کو خواب وخیال اور روایات کی دنیا سے باہر نکالا۔ بلکہ اسے نئے
تجربوں ، نئی وسعتوں اور نئی منزلوں سے آشنا کیا۔ ہمالہ نظم سے شروع کر کے
اقبال بلندیوں کی جانب چل پڑے۔ انھوں نے جوانوں سے،استادوں سے، قوم کے
رہنماؤں سے، اور معماروں سے بار بار مخاطب ہو کر انہیں سماج میں پانی ذمہ
داریاں احسن طریقے سے انجام دینے کی ترغیب دی۔ شاہین کو شعری علامت کے طور
پر اسی لئے پیش کیا گیا۔ جوانوں کو شاہین صفت بنانے کی کوشش کی۔
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
حیات و کائینات کے سر بستہ اسرار کا ذکر بھی اسی لئے کیا کہ اپنے قاری کو
زندگی کی حقیقت سمجھنے کی تحریک دی جائے۔ زندگی کو جوئے شیر، تیشہ، سنگ
گراں اسی لئے قرار دیا کہ یہ ہر دم زندہ، جوان اور رواں دواں ہے۔ ان کی
شاعری ایک عظمت یہ بھی ہے کہ ان کی شاعرے کے لا تعداد مصرعے زبان زد خاص و
عام بھی ہیں اور ضرب الامثال بھی بن چکے ہیں۔ ان کی شاعری عالمی ادب میں
بھی ایک زبردست اضافہ ہے۔ جن میں حضر راہ، مسجد قرطبہ، سافی نامہ، ذوق و
شوق، والدہ مرحومہ کی یاد میں، ماں کا خواب، شمع و شاعر، ابلیس کی مجلس
شوریٰ، خدا کے حضور میں، بچے کی دعا، ہمالہ، طلوع اسلام، شکوہ، جواب شکوہ،
پرندے کی فریاد، پہاڑ اور گلہری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اقبال نے اردو شاعری
کو مغربی تخیلات سے بھی مالا مال کیا۔ کیوں کہ وہ انگریزی کے رومانوی اور
کلاسیکی شعرا شیکسپیئر، ملٹن، جان ڈن وغیرہ کے کلام سے بخوبی آگاہ تھے۔ اسی
لئے ان کی شاعری میں انگریزی، المانوی، فارسی، عربی شعراء کے فکر و خیال کے
موتی موجود ہیں۔ اقبال نے خواتین کی عظمت بھی خوب بیان کی ہے۔ بانگ درا میں
فاطمہ بنت عبد اﷲ، والدہ مرحومہ کی یاد میں دو نظمیں، عورت کے موضوع پر تین
رباعیاں، ضرب کلیم میں عورت کے عنوان سے پورا باب، ارمغان حجاز میں دختران
ملت کے عنوان سے رباعیاں، باقی کتابوں میں عورت کا خاص تذکرہ ہے۔ وہ مغربی
تحریک آزادی نسواں کے خلاف تھے۔ کہ اس سے عورت کی عزت اور شرف و امتیاز ختم
ہو رہا تھا۔ |