میجر شبیر شریف

 جس قوم کے جوان اپنی سرزمین کی سرحدوں کواپنی سانسوں کے تسلسل سے زیادہ اہمیت دیں وہ سرزمین نہ ہی کبھی بانجھ ہوتی ہے اورنہ ہی کبھی محکوم۔الحمداﷲ پاکستان کی زمین زرخیز ہے اوراس کاہرفرزند وہرسپاہی حب الوطنی وجذبہ حریت سے لیس ہے بقول شاعر
افرادکے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہرفرد ہے ملت کے مقدرکاستارہ

مگر چند ایسے ’’انمول ‘‘بشرہوتے ہیں کہ جن کی فطرت‘مزاج‘رہن سہن اوراندازواطوارشروع ہی سے کسی عظیم منزل کی جانب پیش قدمی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ان کی رگوں میں گردش کرتاخون انہیں کسی عظیم مقام تک پہنچانے کیلئے ہمیش سرگرم رکھتاہے ۔وہ ہم ہی میں سے ہوتے ہیں لیکن وہ ۔۔۔۔ہم سے جداہوتے ہیں‘وہ عوام میں سے ہوتے ہیں لیکن وہ ۔۔۔خواص ہوتے ہیں‘وہ عجزوانکساری کاپیکرہوتے ہیں لیکن وہ۔۔۔۔ انسانیت کے بلندوبالااورقابلِ فخرمرتبے پرفائز ہوتے ہیں‘حلقہ یاراں میں ہوں تو ریشم کی مانند نرم ہوتے ہیں لیکن رزمِ حق وباطل ہو تووہ ۔۔۔فولاد ہوتے ہیں‘بس ہم اتناہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ انساں ہوتے ہیں لیکن فرشتوں سے افضل ہوتے ہیں۔

وہ بظاہرتو کسی محاذ‘کسی مشن ‘کسی بٹالین‘یا کسی درسگاہ سے دورپرے ابدی دنیامیں جاچکے ہوتے ہیں لیکن دل کی آنکھ سے دیکھاجائے تو وہی توہوتے ہیں جو ہمیں دوڑارہے ہوتے ہیں‘بچارہے ہوتے ہیں‘سمجھارہے ہوتے ہیں اورکسی عظیم مقصدکی خاطرآخری قطرہ خون تک دینے کی آرزوہم میں پیداکررہے ہوتے ہیں۔یہ لوگ امرہوتے ہیں‘جن کانام ‘جن کاکام‘جن کی ادائیں ‘جن کی وفائیں ‘جن کی دعائیں ‘جن کی آہیں ہرلمحہ ہرسو‘ہرآن وہرلحظہ ہمیں روحانی کیف‘سکونِ قلب اورولولہ وجوش عطاء کرتی ہیں ۔ان لوگوں کی حیات کے واقعات ہمیں سستی وکاہلی‘بے عملی وبے دینی سے نکال کرایسی دنیامیں لے جاتے ہیں جہاں سے ہم اپنی سرزمین ‘اپنی ماؤں ‘اپنی بہنوں ‘اپنی دھرتی کے پھولوں سے لے کرکانٹوں تک کی حفاظت کرنے کواپنی جسدِخاکی سمیت دنیاکی ہرنعمت پرترجیح دیتے ہیں۔

ذرادیکھئے تو۔۔ذراسمجھیئے تو۔۔۔ذراسوچیئے تو۔۔۔کہ جس فرزندِ آدم کے سینے کوبارودنے چھلنی کردیاہے‘جس کے جسم پر گولی نہیں بارودکاگولالگاہے‘جس کے جسم کاہرعضوچھلنی ہے‘ جس کے‘ہرانگ سے خون رس نہیں رہابلکہ برس رہاہے‘متاعِ حیات کے آخری لمحات ہیں‘زمین وجسم سے جُڑی ہرنعمت سے جدائی کاسفرقریب آچکاہے‘وہ یہ نہیں کہتاکہ مجھے طبی امداددی جائے ‘اس کی وصیت ‘اس کی نصیحت ‘اسکے چہرے کے تاثرات سب اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی حقانیت پرمہرثبت کررہے ہیں ‘وہ کہہ رہا ہے اوربات دلوں میں اتررہی ہے اورایسالگتاہے کہ مٹھی بھرلوگوں کو فوج کی بڑی کمک مہیاہوچکی ہے ۔۔۔ان کے لبوں سے نکلے ہوئے آخری الفاظ یہ تھے ’’پل پر قبضہ نہ ہونے دینا۔۔‘‘

ان ولولہ انگیزووطن ودین کی محبت سے سرشارالفاظ کے خالق ‘میجرشبیرشریف نے 28 اپریل 1943 کوگجرات کے قصبہ کنجاہ میں بڑٹش راج کے دوران میجرمحمدشریف کے گھرمیں جنم لیا۔آپ کے والدماجدکانام میجرمحمدشریف تھا جوخود بھی فوج سے منسلک تھے۔آپ برصغیرکے معززخانوادے ’’راجپوت ‘‘سے تعلق رکھتے تھے۔میجرشبیرشریف کوباڈی بلڈنگ میں بھی گہری دلچسپی تھی جبکہ بطورسوارموٹربائیک کوپسندکرتے تھے۔آپ میانہ قد‘سانولی رنگت‘کشادہ پیشانی ‘اوربڑی آنکھوں کے مالک تھے۔خوش گفتاروباکردارشخصیت کے مالک تھے۔عجزوانکساری کا پیکراورتضنع وبناوٹ سے پاک سادہ طبیعت آپ کے حصہ میں آئی ۔ملنساراوربااخلاق انسان تھے ۔

آپ نشانِ حیدر پانے والے میجر عزیزبھٹی شہیدکے بھی قریبی عزیزتھے۔انہوں نے لاہور کے سینٹ انتھونی سکول سے اولیول کا امتحان پاس کیا۔سینئرکیمبرج کرنے کے بعد محض چھ ماہ کاقلیل عرصۂ گورنمنٹ کالج لاہورمیں تعلیم حاصل کرسکے کہ انہیں پاکستان کی عسکری درسگاہ ملٹری اکیڈمی کاکول میں شمولیت کااجازت نامہ ملا۔وطن سے محبت آپ کی سرشت میں شامل تھی چناچہ 19اپریل 1964کوفوج میں کمیشن حاصل کیا۔ایک پیشہ ورفوجی کے فرزنداورہونے کی حیثیت سے احساسِ ذمہ داری‘اپنی زمین سے الفت کاپاک جذبہ ‘جراء ت ‘استقلال ‘ثابت قدمی اوربہادری آپ کی ذات کاحصہ بن چکے تھے۔یہی وجہ ہے کہ 1965کی پاک بھارت جنگ میں جراء ت وبہادری کامظاہرہ کیا اورآپ کو ’’ستارہ ء جراء ت ‘‘سے نوازاگیا۔آپ کی مثالی کارکردگی کودیکھتے ہوئے ملٹری اکیڈمی کاکول کی جانب سے بھی ’’شمشیر‘‘عطاء کی گئی۔اس کے علاوہ ان کو تیغ جنگ سے بھی نوازاگیا۔گیارہ ستمبر انیس سوپینسٹھ کو آپ کوکمپنی کاکمانڈرمقررکیاگیا۔

جراء ت وبہادری کے ساتھ ساتھ انتظامی صلاحیت وقابلیت بھی آپ کی شخصیت کاخاصہ تھیں۔ 1967 میں آپ کوتربیت دینے کیلئے کاکول اکیڈمی میں تعینات کردیاگیا۔یہاں آپ کی شخصیت میں موجود راہنمائی کی صلاحیتوں کوجلاملی اوروہ مزید نکھرکرسامنے آئیں۔آپ کومیجرکے عہدے تک ترقی بھی ملٹری اکیڈمی کاکول میں ہی ملی۔
1971 میں جب جنگ اندرون ملک وبیرون ملک چھاچکی تھی ۔اپنے بیگانے بن چکے تھے۔دشمن کے خونخوارسپاہی مکتی باہنی کاروپ دھارکرمشرقی پاکستان میں انسانیت کی دھجیاں اُڑارہے تھے ‘مغربی پاکستان میں فضاسوگوارتھی ۔ایسے نازک لمحات میں کسی بھی وطن کوجانبازوفرض شناس مجاہدمیسرنہ آئیں تواس کی بقاء خطرے میں پڑجاتی ہے‘اسکی ردا‘عزت‘آنچل اوربچوں کامستقبل سب کاسب وطن کی حفاظت کرنے والے جانثاروں کی محبت وایثارپرآکررک ساجاتاہے۔ایسے لمحات میں آپ کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں‘فرض شناسی ‘مادرِوطن سے الفت اورکمانڈکرنے کی صلاحیتوں کومدنظررکھ کرآپ کو ہیڈسلیمانکی کے قریب چھ فرنٹیئرفورس کی کمانڈکافریضہ ۳ دسمبرکوسونپاگیا۔جہاں سے دو گاؤں مکھ کھیڑہ اوربیری والا زد میں آسکتے تھے۔۔آپ کے ذمہ ایک اونچے بندپرقبضہ کرناتھا۔دشمن پہلے اس پوزیشن پر قابض تھا۔عسکری نقطہ نگاہ سے اس جگہ کی بڑی اہمیت تھی ۔اسی واسطے بھارت نے یہاں آسام کی ایک رجمنٹ مقررکی تھی جسے ٹینکوں کا ایک سکوارڈن بھی کمک فراہم کررہاتھا۔

تین دسمبر کو پانچ بج کر پینتالیس منٹ پر میجرصاحب نے گرم کھیڑا پل پر حملہ کردیا۔بیری والاپہنچنے سے قبل ان کے پاس سو کی نفری تھی۔ان گاؤں کی عسکری لحاظ سے حفاظت کی گئی تھی اور اس میں بارودی سرنگیں بچھائی گئیں تھیں۔پاکستانی فورس جانتی تھی کہ یہاں بارودی سرنگیں ہیں مگر محفوظ راستے کاعلم بھی نہ تھا۔خطرناک زون میں داخل ہونے سے پہلے سیکنڈ لیفٹیننٹ فاروق افضل نے میجرشبیرشریف سے مخاطب ہوکرکہاکہ کیاآپ کوعلم ہے کہ جس راہ سے ہم گزرنے لگے ہیں وہاں بارودی سرنگوں کاجال بچھاہواہے؟شبیرشریف نے جواب دیا۔’’جی مجھے معلوم ہے‘‘فاروق افضل نے پھرپوچھا’’کیاکسی محفوظ راستے کاعلم ہے آپ کو‘‘جواب ملا’’نہیں‘‘؛۔فاروق افضل ’’پھر‘؟؟‘‘قوم کے جری سپوت میجرشبیرشریف نے جواب دیا’’جب تک آپ رسک نہ لیں ‘جنگیں نہیں جیت سکتے ‘ایسی جگہوں پر اموات کاریٹ دس فیصد کے قریب ہوتاہے۔اﷲ پر بھروسہ کیجئے ۔ہم آخری سپاہی تک لڑیں گے‘‘۔اس فرض کی نگہبانی اورعملی محبت کامظاہرہ کرتے ہوئے آپ نے بہادرساتھیوں سمیت تیس فٹ چوڑی اوردس فٹ گہری دفاعی ’’سبونہ نہر‘‘کوعبورکیا۔آپ اورآپ کے دلیرسپاہی اس دوران دشمن کی بچھائی گئی بارودی سرنگوں سے بھی گزرے مگر ایک لمحہ بھی پائے استقلال مترلزل نہ ہوئے۔
جذبات کی سچائی اوررگوں میں دوڑتے فرض شناس خون کی کرشمہ سازیاں ہی تھیں کہ آپ نے محض ایک گھنٹے میں اپنے سے بھاری اورجدیداسلحہ سے لیس دشمن کے 43سپاہیوں کی زندگی کاچراغ گل کردیا اوراسکے ساتھ ہی ان کے چارٹینکوں کامکمل طورپرناکارہ بناڈالا۔دشمن کی اہم دستاویزات پر قبضہ کیا اور 38فوجیوں کوقیدی بنالیا۔آپ کے مقابلے میں دشمن کی دوبٹالین لڑ رہی تھیں۔ جن کو ٹینکوں کاایک پورا سکوارڈن امداد مہیاکررہاتھا۔

کمالِ جراء ت کامظاہرہ کرتے ہوئے آپ نے پانچ اورچھ دسمبرکی شب اپنے مورچے سے نکل کردشمن کی فوج کے کمپنی کمانڈر۔چار۔رجمنٹ کے میجرنرائن سنگھ کوپکڑااورپھردست بدست لڑائی کے بعد اس کی سانسوں کی ڈوربھی منقطع کرڈالی۔ ان کے مورچے کوتباہ کیا۔ آپ اینٹی ائیر کرافٹ گن سے دشمن کے ٹینکوں کو ناکارہ بناتے رہے ۔چھ دسمبر 1971 کورات گیارہ بجے کے قریب دشمن کے ٹینک کاایک گولاانکے سینے کے دائیں جانب آکرلگااوروہ شہیدہوگئے۔بقول شاعر
شہیدکی جوموت ہے وہ قوم کی حیات ہے

عجب اتفاق ہے کہ اسی شب انکی والدہ محترمہ رات گیارہ بجے اپنے گھرمیں کھاناپکارہی تھیں اورانکے لبوں پریہ مصرعے رقص کررہے تھے ’’اے مرد مجاہد اب جاگ ذرا۔اب وقت شہادت ہے آیا۔‘‘

آپ کی شہادت کے وقت آپکے والدین لاہورمیں رہائش پذیرتھے ۔جبکہ آپ کی اہلیہ محترمہ ضلع اٹک میں تھیں۔میجرشبیرشریف کی نصیحت کے مطابق ان کو انکے دوست کے پہلومیں میانی قبرستان لاہورمیں مکمل فوجی اعزاز اورنم آنکھوں دے سپردخاک کیاگیا۔ان کایہ قول آج بھی ہرفوجی جوان وہرپاکستانی کے قلوب کوگرماتاہے کہ ’’میں دشمن کی غلامی قبول کرنے کے بجائے وطن کیلئے قربان ہوجانازیادہ پسندکروں گا۔‘‘آپ کی شہادت اوکاڑہ کے قریب ہوئی اوراسوقت آپ کی عمراٹھائیس برس تھی۔آپ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی تھے۔آپ وہ واحد شخصیت تھے جنھیں قدرت نے نشانِ حیدر اورستارہ جراء ت سے نوازا۔آپ کی بے مثال جراء ت کی وجہ سے اکثرآپ کو آرمی کاسپرمین بھی کہاجاتاتھا۔

28اپریل 2016 کوان کا پینتالیسواں یوم شہادت ہے۔جو اس بات کی گواہی دے رہاہے کہ اگر آج بھی اس ارض وطن کی جانب کسی نے میلی آنکھ سے دیکھا تو شہیدوں کے جانشین اپنی جانیں نچھاورکرنے میں دیرنہیں لگائیں گے ۔اس وطن کا بچہ ‘بوڑھااورجوان سب ہی اس پر اپنی جان نثارکرنے کوہرآن تیارہیں۔مگریہ بھی ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ میجر راناشبیرشریف جیسے ’’انمول ہیرے‘‘کبھی کبھی جنم لیتے ہیں ۔بھاری بھرکم اسلحہ کے ساتھ تیس فٹ گہری اوردس فٹ گہری نہرعبورکرنااورکروانا‘آخری سانس تک ملک کی فکر‘یہ وہ اوصاف تھے جو ان کو دوسروں سے ممتاز کرگئے اورجب تک اس قوم کاآخری فرد باقی ہے اس کے دل میں اپنے شہداکی عزت وتوقیرقائم ودائم رہے گی۔اﷲ ہمیش اس پاک سرزمین کو شاد آباد رکھے۔آمین۔
رنگ لائے گاشہیدوں کالہو
یہ لہوسرخی آزادی کے ا فسانے کی
یہ شفق رنگ لہو۔۔۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188389 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.